قومی اسمبلی کا غیر معمولی منظر۔ایک خوشگوار لمحہ

ہفتہ 4 جنوری 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تحریک انصاف کی حکمرانی میں پہلی بار پاکستان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی کے سال 2019 میں دسمبر کر آخری عشرے کے اجلاس میں تحریک انصاف اور اپوزیشن کے ممبران قومی اسمبلی نے ایک ساتھ خوشی میں ڈیسک بجائے تو پاکستان کی عوام کے چہرے کھل اُٹھے ۔کاش!قومی تعمیر نو اور عوامی فیصلوں پر تنقید برائے تنقید کا شورختم ہو اورباہمی اتفاقِ رائے اور مشاورت سے فیصلے کیے جائیں کالے قوانین ختم کیے جائیں ۔

حکومت اپنی آرڈیننس فیکٹری بند کردے اور اپوزیشن اپنی حکمرانی کے تجربات میں اسمبلی کے وقار کو بلند رکھے۔
اپوزیشن جماعتوں کے صاحبان اختیار قصوروار تو ہوسکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے منتخب اراکین اسمبلی صاحبان اختیار کی سوچ سے اتفاق کریں اور اس کا مظاہرہ قوم سینٹ کے چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں دیکھ چکی ہے ۔

(جاری ہے)

قوم بخوبی جانتی ہے تحریک انصاف اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے منتخب اراکین اسمبلی تحریک انصاف واشنگ پاؤڈر میں دھل کر پاکدامن نہیں ہوئے وہ دوسری جماعتوں سے ذاتی مفادات کیلئے پرواز کر کے آئے ہیں چڑھتے سورج کے یہ پجاری تحریک انصاف کے فرشتے نہیں ہیں۔قومی تعمیر وترقی کیلئے اگر واقعی! تحریک انصاف قوم اور وطن سے مخلص ہے تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو نہیں چھوڑوں گا ۔

کا گنڈاسہ چھوڑناہو گا ، اپوزیشن کو میں نہ مانوں کی رَٹ چھوڑنی ہو گی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں قصور وار قیادت اور اراکین اسمبلی کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیں بلاول زرداری اور مریم اورنگ زیب نمک ملا دودھ ٹھنڈا کر کے پیا کریں انصاف کی کرسی پر جلوہ افروز جج صاحبان اپنے حلف کی وفادار ی کو سوچیں اقرباء پروری کی پرورش اور حوصلہ ا فزائی سوچنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ اُن کے اُوپر بھی کسی بڑی عدالت کی نظر ہے ۔

خاک کے وجود سے جب روح پرواز کرجائے تو ہر خاص وعام مٹی کے ڈھیر کے سواکچھ نہیں ہوتا۔
 پاکستان کی عوام گزشتہ 72سال سے بنیادی ضرورت تک سے محروم ہیں ۔آج کا حکمران گزشتہ کل کے حکمران پر اُنگلی اُٹھانے سے پہلے سوچ لیا کرے کہ حکمرانی کیلئے اُس کی سوچ کیا تھی اور حکمرانی کی کرسی پر اُس کی سوچ تبدیل کیوں ہوگئی ۔ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نہیں ترقی پذیرائی کی شاہراہ پر ہے ۔

ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ حکمران جماعت کی کئی ایک مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن ان مجبوریوں کے پیش نظر اپنوں کیساتھ اپنے جیسوں کوساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اگر اپوزیشن اور حکمران جماعت کے منتخب اراکین اسمبلی اور اُن کے مشیر پاکستان ،پاکستان کی عوام اور بین الاقوامی مسائل کو سامنے رکھ کر سوچیں گے تو ایسے ہی ڈیسک بجیں گے جیسے سال 2019ء کے آخری عشرے میں بجے ہیں ۔

قومی اسمبلی میں اور قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھنے والوں کے چہرے اُس وقت کھل اُٹھے جب حکمران جماعت نے اسمبلی سے منظور شدہ 11آرڈیننس منسوخ کرنے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے بھی ڈپٹی اسپیکرکے خلاف تحریک اپنی تحریک واپس لینے کا اعلان کیا ۔
تحریک انصاف کے دورِ حکمرانی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں یہ پہلا خوشگوار دن تھا ۔وزیر دفاع پرویز خٹک نے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قومی اسمبلی میں مفاہمت کا اعلان کیا تو اسد عمر ،اعظم سواتی کیساتھ اپوزیشن کے تمام ممبران نے حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کی اگر حکمران جماعت کے وزیر اعظم نہیں چھوڑوں گا کا گنڈاسہ زبان سے پھینک دیں تو اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر بھی حکمران جماعت کی ایسی ہی تعریف ہوتی رہے گی اگر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کے وطن پرستوں نے تحریک عدم اعتمادناکام بتائی تھی تو یہ وزیر اعظم عمران خان کی بہادری نہیں تھی یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی مفاد کے لئے تھا وزیر اعظم عمران خان اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ بنی گالہ میں مشاورت کی بجائے اپوزیشن کے قوم اور وطن پرستوں کیساتھ مل بیٹھ کر پاکستان اور پاکستان کی عوام کی خدمت کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :