ہم لہو دیں گے چراغوں میں جلا کر دیکھنا

پیر 16 اگست 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

14 اگست ہاں ہم ”یومِ آ زادی“ منارہے تھے۔ منافقوں کو اچھا لگے یا برا لگے ہماری بلا سے ! ہم اپنے پاکستان میںاپنی آزادی سے جینے کا جشن منا رہے تھے ۔ منافق بھی ہمارے ساتھ تھے دیکھ رہے اورسوچ رہے تھے کہ ہم ضمیر فروشوں نے یزیدی آقاﺅں کی خوشنودی کے لئے اس ملک اور اس قوم کی تباہی کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔پھر بھی یہ ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں ہم زندہ قوم ہیں، پاکستان زندہ باد۔


در اصل یہ منافق بد بخت جانتے نہیں ! لیکن ہم تو جانتے ہیں یہ صدائیں زندہ دل پاکستانیوں کے وجود کی شریانوں میںدوڑتے خون کو گرما رہی ہوتی ہیں یہ ہی وہ قومی جذبہ ہے جس کے دم سے پاکستان کی اپنی ایک پہچان ہے!
میرے دیس پاکستان میں گزشتہ 74 سال سے جو کچھ ہو رہا ہے آنیوالے سالوں میں بھی ہوتا رہے گا۔

(جاری ہے)

جتنا کھا سکتے ہیں کھائیں جتنا لوٹ سکتے لوٹ لیں ،لیکن اس دیس پر اس کا سایہ ہے جس خالق اور رازق نے اسے بنایا ہے ، ہمارا اس پر ایمان قائم اور دائم ہے اس دیس کو کچھ نہیں ہو گا ۔

دنیا کے نقشے پر یہ
پا کستان پھلتا پھولتا رہے گا ہم ہر سال پہلے کی نسبت زیادہ جوش وخروش سے جشنِ آزادی مناتے رہیں گے ہم نہیں ہوں گے تو ہماری نسلین ہمارے نقش قدم پر ہوں گی ، ہم اور ہماری آنے والی نسلیں دشمنِ دیس کے سینے پر اس سے زیادہ پر جوش قہقہوں میں دال دلتی رہیں گی ۔ زندہ قومیں اپنی منزلوں کا تعین کرتی ہیں، اپنے خواب کی تعبیر کے لئے قومی چراغوں میں اپنا لہو جلا کر اس کی روشنی میں آگے بڑھتی ہیں ۔

ہم ہنر مند جانتے ہیں دیس کیسے بنتے ہیں ، ہریالی کیسے اگتی ہے ہریالی کو اپنے لہو سے کیسے سیراب کیا جاتا ہے؟ سعدیؒ نے کیا خوب فرمایا ہے !
بے ہنر وں کو ہنر مند لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے، جس طرح بازاری کتوں کو شکاری کتوں سے چڑ ہوتی ہے وہ ان پر بھونکتے تو ہیں لیکن نزدیک نہیں آنے پاتے یونہی کمینہ آدمی جب ہنر وفن میں کسی کی برابری نہیں کر سکتا تو خباثت سے اس کی عیب جوئی کرنے لگتا ہے ۔


  پاکستان میں بسنے والے منافق اگر نہیں جانتے تو ہم پاکستان سے محبت کرنے والے جانتے ہیں ان کی قیادت کا مدینہ ، برطانیہ اور کعبہ واشنگٹن ہے ۔لیکن اگر معاشرے میں شیطان ہیں تو وطن پر ست انسانوں کی بھی کمی نہیں۔ منافق کی نہ دنیا خوبصورت ہوتی ہے اور نہ آخرت!
  میں گذشتہ کل کے آئینے میں اپنے آج کو دیکھتا اور سوچتا ہوں تو دل اور دماغ باغ باغ ہو جاتے ہیں اس لئے کہ کل ہمارے پاس رائفل نہیں تھی آج ایٹم بم ہے ی ہمارا کعبہ اور مدینہ دیار ِ حبیب میں ہے یہ ہی تو ایمان کی وہ قوت ہے جس سے دشمن اسلام و پاکستان خوفزدہ ہے اس میں آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں لیکن ہم ، ان کی آنکھ میں ڈال کر کہہ رہے ہیں ہم خیرات نہیں مانگتے۔

ہر گز نہیں۔ ہم خیرات پر نہیں اپنے شانوں پر سر اٹھا کر جینا جانتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کو کوئی خطرہ ہے تو وہ منافق ہے، ضمیر فروش ، قومی غدار اور یزید فطرت ہے!کیا کھبی ان منافقوں نے سوچا ہے آج سے چوہتر سال پہلے ہم معاشی اور دفاعی طور پر کہاں کھڑے تھے آج کہاں کھڑے ہیں آج خد اکے فضل سے گذشتہ کل کی نسبت پاکستان قومی ترقی کے عرش پر ہے
کاش ہم پاکستان دوست بن جائیں ، شخصیت پر ستی کے حصار سے نکل آئیں اپنے دما غ سے اپنے دیس اور آنے والی نسلوں کو سوچیں، دوسروں کو ان کا گریباں دکھانے کی بجائے اپنے گریباں میںدیکھیں پہلے خود کو بدلیں،لسانی اور طبقات سوچ تبدیل کریں، اگر ہم پاکستان میں ایک قوم بن جائیں۔

تو دینا کی کوئی طاقت ہمارے دیس کی سر حدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکے گی! اس لئے میں کہتا ہوں!
پیاری دھرتی اپنی ہر شب کو منور دیکھنا
ہم لہو دیں گے چراغوں میں جلا کر دیکھنا
جب کفن تازہ لہو سے لالہ گوں ہو جائے گا
خوشبوﺅں سے اپنے دامن کو معطر دیکھنا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :