شاعری کیا ہے ؟

پیر 20 دسمبر 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

میں جوان تو نہیں تھا البتہ جوانی کی دہلیز پر ضرور تھااسوقت جب میرے والد مرحوم نوشہرہ میں تعمیراتی کاموںکے ٹھیکیدار کے پاس ملازم تھے اور ہم ان کے تعمیراتی کام کے سامان کے گودام میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہا کرتے تھے۔ ہم بہن بھائی زیر تعلیم تھے لیکن غریب بھی تھے اس لئے اخبار یا کوئی کتاب خرید تو نہیں سکتا تھا لیکن جہاں کہیں بھی کسی اخبار کا تراشہ ملتا وہ پڑ ھتا اور اردو سے محبت کو تسکین دیا کرتا تھا ، گو کہ پختو ن ہوں لیکن اردو سے محبت تھی ، ہمارے گودام کے سامنے کچھ مکان تھے جن میں کرایہ دار رہا کرتے تھے ، ہم ان کرایہ داروں کو نہیں جانتے تھے لیکن دور اخلاص اور محبت کا تھا پرائے بھی اپنوں جیسے لگتے تھے ایک دن گودام کے سامنے والے مکان سے ایک لڑکی کچھ لے کر ہمارے گھر آئی جو میری طرح بڑی خوبصورت تھی اس کابھی جوبن تھا میرا بھی جوبن تھا، میں نے اسے دیکھا اور اس نے مجھے دیکھا ہم دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے سے ٹھکرائیں وہ مسکرائی اور میں اسے دیکھا رہ گیا ، جب وہ جانے لگی تو مجھے ایسا لگا کہ میرا دل بھی اس کے ساتھ جا رہا ہے
   ماں نے اسے جاتے ہوئے کہا گلنار ماں کو میرا سلام کہنا ، ، تو دل سے آواز آئی صورت بھی گلنار اور نام بھی گلنار ، میں نے خود میں محسوس کیا کہ مجھ میں کچھ کچھ ہونے لگا ہے سوچا کہیں وہ بیماری تو نہیں لگی جو عام طور پر جوانی میں لگا کرتی ہے کیا میں واقعی جوان ہو گیا ہوں۔

(جاری ہے)

بس پھر کیا تھا میرے فکر وخیال میں اردو بولنے لگی ۔ سکول سے واپسی پر اور چھٹی کے دن گودام کے صدر دروازے کے پاس پڑ ے بڑے پتھر پر بیٹھ جاتا اور نظریں سامنے والے گھر کے دروازے پر لگے ٹاٹ کے پردے پر جمی رہتیں ، جب پردہ ہلتا تو دل د ھڑک اٹھتا ، جب پردے کو معمولی سا سرکا کر گلنار مجھے دیکھتی تو مجھ پر جیسے گلوں کی برسات ہوتی، تب دل میں جولفظ ردھم میں بولتے میں کا غذ پر لکھ دیتا ، اپنے نام کے آخر میں لفظ زخمی لکھنے لگا ، بد قسمتی سے وہ کاغذ ایک دن میرے بڑھے بھائی کے ہاتھ لگا پھر کیا ہوا وہ تو نہیں بتاﺅں گا البتہ اتنا جان گیا کہ میں شاعری کہنے لگا ہوں ، کچھ مہینوں بعد گلنار شاعری کا روگ لگا کر والدین کے ساتھ مکان چھوڑ کر کہیں اور چلی گئی اور روز روز بھائی کے ہاتھوں مار کھانے سے مجھے بھی نجات مل گئی،
زندگی کے نشیب فراز میں چلتے چلتے آیا واہ فیکٹر ی میں درجہ چہارم کا ملازم ہو گیا واہ فیکٹری میں ایک ہفتہ وار رسالہ ” واہ کا ریگر “ شائع ہوتا تھا میں نے پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل بغیر کسی سے اصلاح لئے ایڈ یٹر کو دی اور وہ شائع ہوگئی اس طرح میںشا عروں کے قبیلے میں شامل ہوگیا ،، واہ فیکٹری سے کھاریاں آیا تو لالہ موسیٰ کے قطعہ گو شاعر اسحاق آ شفتہ سے ملاقات ہو گئی ، آشفتہ صاحب ( مرحوم) نے مجھے سنا تو اپنے استاد ِ محترم علامہ انیس لکھنوی کے پاس لے گئے ، علامہ انیس لکھنوی نے میری شاعری دیکھی تو کہنے لگے آپ میں شاعری کے جراثیم ہیں لیکن اصلا ح طلب ہیں علامہ صا حب نے فرمانے لگے ۔

۔
کسی بھی مستند شاعر کے شعر کا وہ مصر ح جو تمہاری زبان پر پانی کی روانی میںبولے اس کا انتخاب کرو اور اس وقت تک اس مصرے کی گردان کرو جب تک وہ تمہارے احساب پر سوار نہ ہوجائے جب اس مصرعے کا ترنم تمہاری زبان پرگانے لگے تو پھر سوچناہے کہ وہ مصرع سوال کیا کر رہا ہے ۔ جواز کیا مانگتا ہے آپ نے دوسر ے مصرعے کا جواز پہلے مصرعے میں پیدا کرنا ہے مشال کے طور پر آپ کے شعر کا دوسرا مصرع ہے ” میں اپنے سینے پہ رکھ کر گلاب سوتا ہوں “ اس دوسرے مصرعے کا جوا زپیدا کرنا ہے کہ شاعر کا اپنے سینے پر گلا ب رکھنے کا جواز کیا ہے وہ کیا کہنا چاہتا ہے
 یہ آپ نے کل مجھے بتانا ہے ، کچھ دیر کے بعد میں گھر چلا آیا رات بھر سوچتا رہا کہ شاعر سینے پر گلاب رکھ کر سو رہا ہے ، وہ ضرور اپنے خواب کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہے ، تو مجھے میرے تخیل نے بتایا ، کہو ،
مرے تو خواب بھی گل اس لئے معطر ہیں
میں رکھ کے سینے پہ اپنے گلاب سوتا ہوں
  میں نے سائیکل اٹھائی او ر علامہ انیس لکھنوی کے پاس ان کے سکول جا پہنچا ، مجھے د یکھ کر مسکرائے ، جب میں نے انہیں اپنا شعر سنایا تو کہنے لگے ، میں نے کہا تھا نا ، تم میں شاعری کے جراثیم ہیں لیکن خیال رہے ، کہ شاعری شعوری تربیت کی محتاج ہے ۔

تب سے شاعر وں کے قبیلے میں خود کو شامل ر کھے ہوئے ہوں لیکن ایک سوال جو مجھے پریشان کئے ہوئے تھا کہ آخر۔ شاعری ہے کیا ؟
اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے میں گوگل کے گھر گیا ، تلاش کے دروازے پر دستک دے کر سوال کیا ” شاعری کیا ہے “ تو گوگل میں بیٹھے دنیائے اردو ادب کے بلند پایہ ادب دوستوں نے فرمایا !
شاعری تسخیر قلوب کاوہ عمل ہے جو دلوں سے دلوں تک سفر کرتے جذبوں ،سچے خیالوں اور دل فریب خوابوں کے عکس کو منعکس کرتا ہوا ایک خوبصورت عمل ، جس میں قلم اور قلم کار ایک ساتھ سرخروئی کے مراحل طے کرتا ہے ۔

شاعری سچ اوراپنے ہم عصر سچ کی زبان ہوتی ہے ۔ آنکھ کی گویائی اور بصارت کا یہ امتزاج باطن کے صدق سے ہم آہنگ ہوکر بصیرت سے معمور ایسی تحریروں کی تخلیق کا سبب بنتا ہے جن کے گنگناتے حروف کی باز گشت زمین پر بہتی شفاف ندیوں اور آسما نوں میںفرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑا ہٹ میں ایک سا تھ سنائی دیتی ہے
  شاعری اس کلام ِ موزوں کو کہتے ہیں ،یعنی وہ آواز جو غیر ارادی طور پر دل سے آئے وہ ا حساسات اور جذبات کے تابع ہوتی ہے مطلب ہے آپ نے کوئی انہونی دیکھی ، کوئی المناک یا خوبصورت حادثہ دیکھا ، کائنات کی شاعری میں کچھ ایسا دیکھا جوآپ کے دل پر ایسا اثر کر گیا اور وہ آپ کے اندر سے غیر ارادی طور پر موزوں لفظوں کی صورت میں زباں پر آیا وہ شعر ہوتا ہے انہی الفاظ کی حسن ترتیب کو شاعری کہا جاتاہے ، دلکش اور موذوں لفظوں میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں، شاعری تعبیرِ تخیل ہے
  شاعری کے لئے پہلا عنصر مصرعے کا وز ن میں ہونا ، دوسرا عنصر خیالِ حقیقت، خیال کو موزوں الفاظ کے سانچے میں ڈالنا ہی سخنوری کا کمال ہے ۔

شاعری وجود میںجذبات اور احساسات کی عکاسی کا نا م ہے، شاعری ان منظم جذبات اور احساسات کی عکاسی ہے جو فی البدیہہ خودپر نازل ہوتے ہیں اس کے اسباب مختلف بھی ہو سکتے ہیں لیکن شاعری وہ ہے جو ہو جائے اور اگر کرنی پڑے تو اسے شاعری نہیںتک بندی کہتے ہیں شاعری کے حسن کے قدر دان کہتے ہیں کہ شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے لیکن اس صلاحیت میں آفاقی سچائیوں کی باریکی کا علم ہونا بھی ضروری ہے!
جرمن شاعر گوئٹے کہتے ہیں کہ فطری شاعری کی چار خصوصیات ہیں ۔

اشعار کی روانی اور شیریں بیانی، خاص موضوعات ، تخیل میں وسعت و گہرائی، تخیل کے پرواز میں نیا پن ، شاعر کا تخیل جس قدر بلند ہو گا شعر کا معیار اس قدر بلند ہوگا
  گوگل کے گھر میں شاعری سے متعلق معلومات کے بعد شاعرہ کی حقیقت میری سمجھ میں آ گئی ۔ گودام کے گیٹ کے دروازے کے ساتھ بڑے پتھر پر بیٹھ کر جس بیماری سے واسطہ پڑا تھا وہ مرض شاعری کا اصل مرکز تھا ،چھوٹ دل پر لگی تھی اور دل سے جو زخمی آوازباہر آئی تھی وہ شاعری تھی،۔

گو کہ گلنار تو نہیں ملی لیکن گلنار نے جن جذبات اور احسات کو جگایا وہ ہی مجھ پر اس کا احسان ہے ، ویسے بھی تومحبت محبوب کے وجود کے حصول کا نام نہیں محبت خود سے بھی تو کی جاسکتی ہے ، میں نے خود سے محبت کی اردو نے مجھ سے محبت کی اور ہم دونوں دنیائے شاعری میں اپنی پہچان بن گئے لیکن میں مجروح سلطان پوری تو بن نہیں سکتا تھا اس لئے ، تخلص تبدیل کر دیا ، اپنے آبائی گاﺅں بخشالی کے سابقے کے گل بخشالوی ہو گیا !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :