
شاعری کیا ہے ؟
پیر 20 دسمبر 2021

گل بخشالوی
ماں نے اسے جاتے ہوئے کہا گلنار ماں کو میرا سلام کہنا ، ، تو دل سے آواز آئی صورت بھی گلنار اور نام بھی گلنار ، میں نے خود میں محسوس کیا کہ مجھ میں کچھ کچھ ہونے لگا ہے سوچا کہیں وہ بیماری تو نہیں لگی جو عام طور پر جوانی میں لگا کرتی ہے کیا میں واقعی جوان ہو گیا ہوں۔
(جاری ہے)
زندگی کے نشیب فراز میں چلتے چلتے آیا واہ فیکٹر ی میں درجہ چہارم کا ملازم ہو گیا واہ فیکٹری میں ایک ہفتہ وار رسالہ ” واہ کا ریگر “ شائع ہوتا تھا میں نے پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل بغیر کسی سے اصلاح لئے ایڈ یٹر کو دی اور وہ شائع ہوگئی اس طرح میںشا عروں کے قبیلے میں شامل ہوگیا ،، واہ فیکٹری سے کھاریاں آیا تو لالہ موسیٰ کے قطعہ گو شاعر اسحاق آ شفتہ سے ملاقات ہو گئی ، آشفتہ صاحب ( مرحوم) نے مجھے سنا تو اپنے استاد ِ محترم علامہ انیس لکھنوی کے پاس لے گئے ، علامہ انیس لکھنوی نے میری شاعری دیکھی تو کہنے لگے آپ میں شاعری کے جراثیم ہیں لیکن اصلا ح طلب ہیں علامہ صا حب نے فرمانے لگے ۔۔
کسی بھی مستند شاعر کے شعر کا وہ مصر ح جو تمہاری زبان پر پانی کی روانی میںبولے اس کا انتخاب کرو اور اس وقت تک اس مصرے کی گردان کرو جب تک وہ تمہارے احساب پر سوار نہ ہوجائے جب اس مصرعے کا ترنم تمہاری زبان پرگانے لگے تو پھر سوچناہے کہ وہ مصرع سوال کیا کر رہا ہے ۔ جواز کیا مانگتا ہے آپ نے دوسر ے مصرعے کا جواز پہلے مصرعے میں پیدا کرنا ہے مشال کے طور پر آپ کے شعر کا دوسرا مصرع ہے ” میں اپنے سینے پہ رکھ کر گلاب سوتا ہوں “ اس دوسرے مصرعے کا جوا زپیدا کرنا ہے کہ شاعر کا اپنے سینے پر گلا ب رکھنے کا جواز کیا ہے وہ کیا کہنا چاہتا ہے
یہ آپ نے کل مجھے بتانا ہے ، کچھ دیر کے بعد میں گھر چلا آیا رات بھر سوچتا رہا کہ شاعر سینے پر گلاب رکھ کر سو رہا ہے ، وہ ضرور اپنے خواب کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہے ، تو مجھے میرے تخیل نے بتایا ، کہو ،
میں رکھ کے سینے پہ اپنے گلاب سوتا ہوں
اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے میں گوگل کے گھر گیا ، تلاش کے دروازے پر دستک دے کر سوال کیا ” شاعری کیا ہے “ تو گوگل میں بیٹھے دنیائے اردو ادب کے بلند پایہ ادب دوستوں نے فرمایا !
شاعری تسخیر قلوب کاوہ عمل ہے جو دلوں سے دلوں تک سفر کرتے جذبوں ،سچے خیالوں اور دل فریب خوابوں کے عکس کو منعکس کرتا ہوا ایک خوبصورت عمل ، جس میں قلم اور قلم کار ایک ساتھ سرخروئی کے مراحل طے کرتا ہے ۔ شاعری سچ اوراپنے ہم عصر سچ کی زبان ہوتی ہے ۔ آنکھ کی گویائی اور بصارت کا یہ امتزاج باطن کے صدق سے ہم آہنگ ہوکر بصیرت سے معمور ایسی تحریروں کی تخلیق کا سبب بنتا ہے جن کے گنگناتے حروف کی باز گشت زمین پر بہتی شفاف ندیوں اور آسما نوں میںفرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑا ہٹ میں ایک سا تھ سنائی دیتی ہے
شاعری اس کلام ِ موزوں کو کہتے ہیں ،یعنی وہ آواز جو غیر ارادی طور پر دل سے آئے وہ ا حساسات اور جذبات کے تابع ہوتی ہے مطلب ہے آپ نے کوئی انہونی دیکھی ، کوئی المناک یا خوبصورت حادثہ دیکھا ، کائنات کی شاعری میں کچھ ایسا دیکھا جوآپ کے دل پر ایسا اثر کر گیا اور وہ آپ کے اندر سے غیر ارادی طور پر موزوں لفظوں کی صورت میں زباں پر آیا وہ شعر ہوتا ہے انہی الفاظ کی حسن ترتیب کو شاعری کہا جاتاہے ، دلکش اور موذوں لفظوں میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں، شاعری تعبیرِ تخیل ہے
شاعری کے لئے پہلا عنصر مصرعے کا وز ن میں ہونا ، دوسرا عنصر خیالِ حقیقت، خیال کو موزوں الفاظ کے سانچے میں ڈالنا ہی سخنوری کا کمال ہے ۔ شاعری وجود میںجذبات اور احساسات کی عکاسی کا نا م ہے، شاعری ان منظم جذبات اور احساسات کی عکاسی ہے جو فی البدیہہ خودپر نازل ہوتے ہیں اس کے اسباب مختلف بھی ہو سکتے ہیں لیکن شاعری وہ ہے جو ہو جائے اور اگر کرنی پڑے تو اسے شاعری نہیںتک بندی کہتے ہیں شاعری کے حسن کے قدر دان کہتے ہیں کہ شاعری ایک خدا داد صلاحیت ہے لیکن اس صلاحیت میں آفاقی سچائیوں کی باریکی کا علم ہونا بھی ضروری ہے!
جرمن شاعر گوئٹے کہتے ہیں کہ فطری شاعری کی چار خصوصیات ہیں ۔ اشعار کی روانی اور شیریں بیانی، خاص موضوعات ، تخیل میں وسعت و گہرائی، تخیل کے پرواز میں نیا پن ، شاعر کا تخیل جس قدر بلند ہو گا شعر کا معیار اس قدر بلند ہوگا
گوگل کے گھر میں شاعری سے متعلق معلومات کے بعد شاعرہ کی حقیقت میری سمجھ میں آ گئی ۔ گودام کے گیٹ کے دروازے کے ساتھ بڑے پتھر پر بیٹھ کر جس بیماری سے واسطہ پڑا تھا وہ مرض شاعری کا اصل مرکز تھا ،چھوٹ دل پر لگی تھی اور دل سے جو زخمی آوازباہر آئی تھی وہ شاعری تھی،۔ گو کہ گلنار تو نہیں ملی لیکن گلنار نے جن جذبات اور احسات کو جگایا وہ ہی مجھ پر اس کا احسان ہے ، ویسے بھی تومحبت محبوب کے وجود کے حصول کا نام نہیں محبت خود سے بھی تو کی جاسکتی ہے ، میں نے خود سے محبت کی اردو نے مجھ سے محبت کی اور ہم دونوں دنیائے شاعری میں اپنی پہچان بن گئے لیکن میں مجروح سلطان پوری تو بن نہیں سکتا تھا اس لئے ، تخلص تبدیل کر دیا ، اپنے آبائی گاﺅں بخشالی کے سابقے کے گل بخشالوی ہو گیا !!!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
گل بخشالوی کے کالمز
-
گداگر اپوزیشن، حکومت گراﺅ ، در در پر دستک !
بدھ 16 فروری 2022
-
کسی مائی کے لال میں جرات نہیں کہ تحریک عدم اعتماد لا سکی
منگل 15 فروری 2022
-
اگر جج جواب دہ نہیں تو سینیٹر اور وزیراعظم کیوں کرجواب دہ ہو سکتا ہے
جمعہ 4 فروری 2022
-
سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن غیر حاضر اور حکومت کی جیت
پیر 31 جنوری 2022
-
اسلامی صدارتی نظام اور پاکستان
جمعرات 27 جنوری 2022
-
تحریکِ انصاف ، جماعت اسلامی ، پاکستان عوامی تحریک ، اور ریاست ِ مدینہ!!
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
اپوزیشن، عوام کی عدالت میں پیش ہونے سے قبل ان کے دل جیتیں
جمعرات 20 جنوری 2022
-
خدا کا شکر ادا کریں کہ ہم پاکستان کے باشندے ہیں
ہفتہ 15 جنوری 2022
گل بخشالوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.