پاکستان اور عالم اسلام کی موجودہ صورتحال

ہفتہ 29 اگست 2020

Hafiz Mohammad Tahir Mehmood Ashrafi

حافظ محمد طاہر محمود اشرفی

وطن عزیز پاکستان امت مسلمہ کی واحد ایٹمی قوت ہے ۔ الحمدللہ پاکستان ایک مضبوط فوج اور قوم کا ملک ہے اور پاکستان کی ایٹمی قوت اور فوج پر پوری امت مسلمہ کو فخر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین سے کشمیر تک ہر مظلوم وقت اضطراب میں پاکستان کی طرف ضرور دیکھتا ہے اور الحمدللہ اہل پاکستان ہر مرحلہ پر جس قابل ہیں عالمی قوانین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


5 اگست 2019 کو ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے عالمی دنیا ، اقوام متحدہ ، اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کے برخلاف ایسا فیصلہ کیا جس سے پوری دنیاحیرت میں رہ گئی اور پاکستان اور اہل کشمیر اضطراب میں آ گئے ، توقع کی جا رہی تھی کہ ہندوستان کے اس قدم کے خلاف عالمی دنیا اور عالم اسلام مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تائید میں کھڑا ہو جائے گا مگر بعض ممالک کے رویہ نے اہل کشمیر و پاکستان کو مایوس کیا۔

(جاری ہے)

ایسا کیوں ہوا؟ اس پر اگر نظر ڈالیں تو کچھ غلطیاں ہماری بھی ہیں اور کچھ حالات کی ستم ظریفی بھی ہے ۔ 5 اگست کی بھارتی جارحیت کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے مختلف مراحل پر پاکستان کے مؤقف کی تائید ہوتی رہی ہے اور جاری ہے خود راقم الحروف سے OIC کے سیکرٹری جنرل نے ملاقات کے دوران یہ بات واضح طور پر کہی کہ OIC کسی بھی صورت کشمیر کے مسئلہ پر اپنے مؤقف میں تبدیلی نہیں لائی ہے اور نہ ہی لائے گی اور یہی مؤقف مملکت سعودی عرب کا ہے کہ مملکت سعودی عرب نے کسی بھی مرحلہ پر کشمیر کے معاملہ پر ہندوستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کی ہے ، لیکن    بد قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا پر غلط بیانی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ جس کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی روک بھی لے تو وہ اتنا نقصان دے دیتا ہے کہ اصل بات اور حقیقت تک واپسی تک بہت ساری غلط فہمیاں پھیل چکی ہوتی ہیں ۔

پاکستان کا ایک بڑا مطالبہ اسلامی تعاون تنظیم OIC کے وزراء خارجہ کا کشمیر کی صورتحال پر اجلاس ہے جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کی وجہ سے نہیں بلایا جا رہا ہے ۔ حالانکہ اس میں اصل رکاوٹ کئی دوسرے ممالک ہیں اور یہ واضح کر دوں کہ اس اجلاس میں رکاوٹ سعودی عرب ہر گز نہیں ہے ۔ سعودی عرب نے ہمیشہ اور ہر مرحلہ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اس کی بہت ساری مثالیں سب کو معلوم ہیں ، جن کا یہاں ذکر کرنا تکرار ہوگا ۔

گذشتہ ایک سال کی صورتحال پر ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے سعودی عرب کے حوالہ سے بعض ایسے کلمات کہے جو کسی بھی صورت مناسب نہیں تھےاور سفارتی اصولوں کے خلاف تھے ( اگر وہ ایک شکوہ بھی تھا جو ٹی وی پر نہیں مناسب وقت اور مناسب فورم پر ہوتا تو بہت بہتر ہوتا)۔
شاہ محمود قریشی کے ان جملوں کے بعد سوشل میڈیا پر بیٹھے ماہرین سب و شتم نے ایسے ایسے فلسفے پیش کیے کہ الامان والحفیظ لیکن الحمدللہ وہ سب قوتیں جو اس صورتحال میں پاکستان اور عرب اسلامی دنیا کے تعلقات میں خرابی چاہتی ہیں ان کو اس وقت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جب پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید (جن کا دورہ سعودی عرب پہلے سے طے تھا )سعودی عرب پہنچے اور اس دورہ کے حوالہ سے سعودی عرب کی وزارت دفاع اور نائب وزیر دفاع امیر خالد بن سلمان (جو کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے بیٹے ہیں اور ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے بھائی ہیں ) کی طرف سے جاری کردہ سوشل میڈیا پیغام اور پریس ریلیز نے پاکستان سعودی عرب تعلقات کی وسعت اور مضبوطی کو اپنوںا ور بیگانوں سب کیلئے بیان اور ظاہر کر دیا۔

اور اگر یہاں میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف سعید المالکی کا ذکر نہ کروں تو بخل ہو گا کہ جنہوں نے صورتحال کو سنبھالا اور صبح و شام ، دن رات محنت کر کے اس تاثر کو جو ایک محدود طبقہ کی طرف سے پھیلایا جا رہا تھا کہ پاکستان سعودی عرب تعلقات میں کوئی دوری پیدا ہو گئی ہے کو دور کر دیااور اسی طرح کی محنت پاکستان کے ریاض میں سفارتخانہ نے بھی کی۔

راقم الحروف اس تاثر کو بھی عرب اسلامی دنیا کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے دور کرنا چاہتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان (جو اپنی سوچ و فکر کی وجہ سے آج پورے عالم عرب اور عالم اسلام کے نوجوانوں کیلئے ایک ہیرو کی طرح ہیں اور ان کو صرف اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کہ ان کا ویژن 2030 مسلم امہ کو معاشی ، اقتصادی اور دفاعی طور پر اپنے قدموں پر کھڑا کر دے گا جو بہت ساری قوتوں کوقبول نہ ہے ) پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان سے ناراض ہیں اور پاکستان اور ترک ، قطر ، ایران تعلقات کا خاتمہ چاہتے ہیں ، حقیقت حال اس کے برعکس ہے امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس کا ثبوت تھا اور رہے گا ۔

سعودی عرب کے ولی عہد کا پاکستان کی سر زمین پر یہ اعلان کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں اس محبت کا عملی ثبوت ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے ان سے تعلقات ایک بھائی سے بھائی کی طرح ہیں یہ بات ذہن میں رہے کہ سعودی عرب کی موجودہ قیادت عالمی حالات اور اسلامی دنیا کے حالات سے بہت با خبر ہے ۔ سعودی عرب کے موجودہ وزیر خارجہ امیر فیصل اور ان کی ٹیم حقائق کا مکمل ادارک رکھتی ہے۔

سعودی عرب کا پاکستان سے تعلقات کے حوالہ سے ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب عرب تعلقات کے درمیان کسی دوسرے ملک کو ہر گز نہیں آنا چاہیے ۔ ہمارے تعلقات نہ کسی کی وجہ سے کمزور ہونے چاہئیں اور نہ ہی تعلقات کی بہتری کیلئے ہمیں کسی کا محتاج ہونا چاہیے ۔ لہذا اس افواہ کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہے ، نہ ہوگا کہ کسی ملک کی وجہ سے ہمارے تعلقات کمزور ہور ہے ہیں۔

ان سارے حالات میں پاکستان کے ایک قریبی دوست اور عرب اسلامی دنیا میں اہم ترین ملک متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے تعلقات کا اعلان کر دیا۔ متحدہ عرب امارات کے اس اعلان کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے خلاف ہنگامہ برپا کیا گیا کہ اب تو سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرے گا اور پاکستان پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے ، سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان اس طرح کے ناقدین کا ہدف تھے۔

ان فلاسفروں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی قیادت کو واضح طور پر بتلا چکا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں فلسطینی صدر محمود عباس خود راقم الحروف کو ذاتی طور پر بتلا چکے ہیں کہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے فلسطینی صدر کو کہا ہے کہ جو فلسطین کی عوام کا فیصلہ ہو گا وہی ہمارا فیصلہ ہو گا۔

لیکن ایک ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی گئی اور اس غبارہ سے ہوا اس وقت نکل گئی جب پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ امیر فیصل نے واضح طور پر بیان جاری کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے اعلان کے بعد بحرین ، عمان ، کویت، الجزائر ، مراکش اور دیگر کئی ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ امت مسلمہ میں قائد انہ حیثیت سعودی عرب کو حاصل ہے جو کوئی اور نہیں حاصل کر سکتا۔

جہاں تک متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے تو متحدہ عرب امارات کا فیصلہ ان کے حالات کے مطابق ہو گا ہمیں اس فیصلہ سے اختلاف ہو سکتا ہے اور ہے لیکن یہ فیصلہ تو ترکی ستر سال قبل اور 30 کے قریب اسلامی ممالک کئی سال قبل کر چکے ہیں ۔57 اسلامی ممالک میں سے 30 سے زائد ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں مگر ان ممالک کے پاکستان اور سعودی عرب سے بھی تعلقات ہیں اور اس کی بڑی مثال ترکی ہے اگرچہ ترک صدر امارات پر تنقید کر رہے ہیں لیکن خود ان کے اپنے ملک میں اسرائیلی سفارت خانہ موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ امارات پر تنقید کرنے والے وہ ممالک جو خود اسرائیل سے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں اسلامی دنیا میں امارات سے زیادہ ان پرتنقید کی جا رہی ہے اور یہ بات بھی واضح کرتی ہے کہ ہر ملک اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی اپنے حالات کے مطابق تشکیل دیتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر و فلسطین شام ، عراق ، لیبیا، یمن کے معاملہ پر مسلم قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس بات پر غور کریں کہ ان مسائل کا حل کس طرح نکالنا ہے ، اسلامی ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال کافر ممالک کے ساتھ نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ شام ، عراق، لیبیا میں مسلمان مسلمان کے سامنے ہے ،اگرچہ مصر کی حکومت لیبیا کے معاملہ میں ایک فارمولا لائی ہے جس کو عرب اسلامی دنیا کی تائید حاصل ہے لیکن اس پر ترکی کے حامی گروپ راضی نہیں ہیں۔

یمن کے حوثی مسلسل سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں اور ان کی تائید بھی بعض اسلامی ممالک سے ظاہر اور خفیہ ہو رہی ہے۔قطر اور عرب ممالک کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہے ۔ انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو اسلامی ممالک میں سے ہی امداد مل رہی ہے اور یہ گروہ تمام اسلامی عرب ممالک کے امن کو متاثر کررہے ہیں ۔ ان سب کا حل غور و فکر اور مشاورت سے ہو گا اور اس کیلئے پاکستان سعودی عرب کا کردار نہایت اہم ہے ۔

مسائل کا حل نفرتوں کے خاتمے اور حقائق کی دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی عرب ممالک میں بیرونی مداخلتوں کے خاتمے سے ہو گا اور اس کیلئے ہوش مندی سے غور و فکر کرنا ہو گا۔ جذباتی کیفیت نے مسلم امہ کو نقصان دینے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ آج شاہ فیصل شہید، ذوالفقار علی بھٹو شہید نہیں ہے لیکن آج خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز ، جنرل قمر جاوید باجوہ ، عمران خان ، امیر محمد بن سلمان اور دیگر اسلامی دنیا کے قائدین کو باہمی وحدت اور اتحاد سے مسائل کاحل نکالنا ہوگا۔


الزام تراشی جذباتی ماحول کسی بھی صورت کسی کیلئے بھی مفید نہ ہے اور نہ ہو گا ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک آزاد خود مختار ملک ہے جس طرح دیگر ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی کے معاملے میں اپنے مفادات عزیز ہیں اور ہونے چاہئیں ، ویسے ہی پاکستان کو بھی اپنے مفادات عزیز ہیں اور ہونے چاہئیں ۔ ہمیں عالمی اور اسلامی دنیا سے تعلقات میں اپنے مفادات اور مصلحتوں اور امت مسلمہ کے مسائل و مصائب کو سامنے رکھنا ہے اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔


آخر میں میں عرب اسلامی دنیا میں چالیس لاکھ سے زائد پاکستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اہل پاکستان کو آپ بہت عزیز ہیں ، آپ پریشان نہ ہوں ، ان شاء اللہ پاکستان اور عرب اسلامی ممالک کے حالات بہتر سے بہتر ہوں گے اور آپ کو کسی مشکل کا ان شاء اللہ سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :