وکلاء گردی

جمعرات 12 دسمبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

لاہور میں وکیلوں کی بدمعاشی دیکھ کر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب یاد آگئے کہ عدلیہ بچاوٴ مہم نے وکیلوں کو پُرتشدد کر دیا ۔یعنی عدلیہ تو بحال ہو گئی مگر وکیل بے قابو ہو گئے اب تو صورتحال اتنی سنگین ہو چکی ہے کہ لوگ یہ جملہ بولنے اور اس پر یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ جسے سرعام بدمعاشی کرنی ہو وہ وکالت کر لے ۔ مطلب ان وکلاء کی وجہ سے وکالت کی ڈگری بدمعاشی ، بد اخلاقی اور بدتہذیبی کا سرٹیفکیٹ بن چکی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کی روک تھام کیلئے قانونی ادارے ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں ۔

لاہور واقعہ ہمارے معاشرے میں لاقانونیت کی برہنہ تصویر ہے کسی مہذب معاشرے میں ایسی بیانک تصویر نظر نہیں آئے گی کہ ڈاکٹرز سے اختلافات کی صورت میں اسپتال کے مریضوں اور املاک پر حملہ کر دیا جائے ۔

(جاری ہے)

پولیس پر تشدد اور انکی گاڑیاں جلائی گئیں کسی معمولی وکیل پر تشدد ہو تو پورے پاکستان کی عدالتوں میں ہڑتال ہو جاتی ہے آج ڈاکٹرز ، صحافی اور ایک صوبائی وزیر پر وکلاء نے تشدد کیا اب دیکھنا یہ ہے کہ کل کتنی عدالتیں ڈاکٹرز ، صحافیوں اور وزیر سے اظہار یکجہتی کیلئے ہڑتال کا اعلان کرتی ہیں ۔

ڈاکٹرز سے اگر کوئی مسلہ تھا تو آپ ہر وقت کالا کوٹ پہن کر رکھتے ہیں ان سے قانونی طریقے سے معاملہ حل کرتے اگر انہوں نے کوئی زیادتی کی تو آپ قانون کے رکھوالے ہوتے ہوئے قانون ہاتھ میں لے رہے ہیں ، حالانکہ قانون اور عدالتوں کو وکلاء زیادہ سمجھتے ہیں ۔ آپ کا مسلہ ڈاکٹرز سے تھا تو اسپتال پر حملہ کیوں کیا ؟ وہاں پر موجود مریضوں کا بھی خیال نہیں کیا اتنا بھی نہ سوچا کہ وہاں کسی کا علاج چل رہا ہو گا وہاں کسی کا آپریشن ہو رہا ہو گا یا وہاں کوئی زندگی موت کی کشمکش میں ایمرجنسی میں ہو گا ۔

جب وکلاء دہشگردانہ کاروائی کرینگے تو وہاں حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس ہی آئے مگر اس نام نہاد پڑھے لکھے طبقے نے قانون کا بھی لحاظ نہ کیا ان پر بھی تشدد کیا اور انکی گاڑیا ں جلائیں ۔ پھر مذاکرات کیلئے آنے والے وزیر پر بھی بد ترین تشدد کیا گیا وہ تو وہاں کوریج کیلئے آئے رپورٹرز فیاض الحسن چوہان کو نہ بچاتے تو پتہ نہیں یہ بپھرے ہوئے وکیل کس حد تک جاتے ۔

کیا عزت صرف ان وکیلوں کی ہوتی ہے باقی کسی ڈاکٹر ، کسی صحافی ، کسی پولیس آفیسر اور کسی وزیر کی نہیں ؟ان کو سڑک پر کوئی راستہ نہ ملے تو اتر کر لوگوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں کیا انہوں نے قانون صرف دوسروں کیلئے پڑھا ہے یہ عدل و انصاف اور قانون ہاتھ میں لینے کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا ۔ ہر قانونی ادارے کی ایک حد ہوتی ہے وہ ان حدود سے تجاوز نہیں کرتا مگر ان وکیلوں کی لاقانونیت اور بدمعاشی کی کوئی حد ہی نہیں کئی بار دیکھا گیا کہ فیصلہ خلاف آنے پروکلاء نے ججوں کو عدالت میں قید کر دیا اور عدالت کو باہر سے تالا لگا کر جج پر دھاوا بول دیا ۔

مگر یہ بھی ایک حققت ہے بلکہ کڑوا اور شرمناک سچ ہے کہ آج تک کسی وکیل کو لاقانونیت پر کوئی مثالی سزا نہیں ملی ۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی ایک وکیل تھے انہوں نے وکالت میں نہ صرف برصغیر بلکہ لندن میں بھی نام کمایا اور پھر وکالت کے بل بوتے پر ہی عالمی برادری کو قائل کیا کہ وہ پاکستان کو ایک الگ ریاست بنانے کا اعلان کرے ۔

ایک وکیل نے ایک ملک آزاد کروایا مگر کسی کو انگلی تک نہیں لگا ئی اور ایک طرف یہ نام نہاد وکیل ہیں جو آئے ورز نت نیا تماشہ لگا دیتے ہیں اور لوگوں پر بیہمانہ تشدد کرتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اپنے کیے پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے ۔ ساری قوم چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان بپھرے ہوئے وکیلوں کو لگام ڈالنے کیلئے جلدازجلد قانون سازی کریں اور آج کے واقعے کا ازخود نوٹس لے کر کاروائی کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :