کیا دنیا ختم ہونے جا رہی ہے ؟

پیر 16 مارچ 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

کورونا وائرس کے بعد ایک اور افواہ گردش کر رہی ہے کہ یہ دنیا 29اپریل کو ختم ہونے والی ہے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی افواہیں پھیلانے والے بھی وہ لوگ ہی ہیں جنہوں نے کورونا وائرس پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔اب مبینہ سائنسدان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک آتش زدہ سیارہ زمین کی طرف آرہا ہے اور 29اپریل تک یہ زمین کے قریب سے گزرے گا یا زمین کے ساتھ ٹکرائے گا ،اور ان مبینہ سائنسدانوں کے ماننے والے یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ اس دن دنیا ختم ہو جائے گی ۔

دنیا کے خاتمے کا یہ سائنسی دعویٰ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے من گھڑت دعوے ماضی میں کیے جا چکے ہیں جو ہر لحاظ سے جھوٹے ثابت ہوئے ۔ ایسے دعووٴں کا مقصد دنیا میں رہنے والے افراد میں خوف و ہراس پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہیں یہ لوگ جس سائنس کے بل بوتے پر بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں ان کی وہی سائنس اور ٹیکنالوجی ہے جو کئی مہینوں سے ایک وائرس کو قابو کرنے میں ناکام ہو گئی۔

(جاری ہے)

اب اسی ٹیکنالوجی پر یہ نیا من گھڑت شوشہ چھوڑا جا رہا ہے ۔ 
کورونا بھی آیا نہیں بلکہ لایا گیا ہے جس کا چین نے ثبوت کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ یہ سب امریکہ کی شرارت ہے چین نے تو حکومتی سطح پر یہ احتجاج رکارڈ کروایا ، اور ساری دنیا کو بتایا کہ اس وائرس کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ ہے ۔ امریکہ نے اس دعوے پر چینی سفیر کو طلب کر کے اسے الزام قرار دے دیا لیکن حقیقت کبھی چھپتی نہیں کیونکہ ساری دنیا اس وائرس کا شکار ہو گئی مگر امریکی حمایت یافتہ اسرائیل بلکل محفوظ ہے وہاں ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ۔

ایک وائرس نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی بلکہ ساری دنیا کاایک دوسرے سے رابطہ منقطع کر دیا مگر اسے فقط وباء کہہ کر اس کے کرتا دھرتا روپوش ہو گئے ،کیا ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لانا چاہئے جنہوں نے حرام جانور کھانے کے اپنے نرالے شوق کی وجہ سے ساری انسانیت کو خوف اور بیماری میں مبتلا کر دیا ۔
 عالمی منصفین پر خود بات آئی تو اسے عالمی وباء کہہ کر پاک صاف ہو گئے ،کیا انہیں مجرم قرار دیے کر سزا نہیں دینی چاہئے جنہوں نے چمگادڑیں ، سانپ اور کچھووٴں کا سوپ پینے کے چکر میں سارے انسانوں کی زندگی داوٴ پر لگادی ؟ اگر یہ حرکت کسی مسلمان ملک نے کی ہوتی تو کیا تب بھی عالمی منصفوں کا رویہ یہی ہوتا ؟ یہاں تو مسلمانوں کی عورتوں کے حجاب کو ایک ہتھیار قرار دے دیا گیا ، مسلمانوں کے جہاد کے جذبے کو شدت پسندی اور دہشت گردی کا نام دے دیا گیا ، مسلمانوں کی پانچ وقت کی اذان پر پابندیاں لگائی گئیں اور تو اور مسلمانوں کے آقا پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے سرعام گستاخانہ خاکے چھاپے گئے اور مسلمانوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اسلام کو ماننے والے تھے ۔

کسی مسلمان نے چمگادڑیں کھا کر کسی دوسرے انسان کی زندگی داوٴ پر نہیں تھی ، کسی مسلمان کی وجہ سے ساری دنیا کی سرحدیں بندشوں کا شکار نہیں ہوئیں تھی ،کسی مسلمان نے ایسے وائرس کو جنم نہیں دیا تھا اس کے باوجود یہ یہود و نصاریٰ آج بھی مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ اور عالمی منصفوں نے اس کھلی ناانصافی کو سرعام قبول کیا اور آج اس وائرس کے مجرموں پربھی انہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔

 عالمی منصفوں کا دوغلہ رویہ سب کے سامنے ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج بھی اسلام کا بول بالا ہوا جس حجاب کو عورتوں کا ہتھیار قرار دیا جا رہا تھا آج اسی حجاب کی ان بدبختوں کے مردوں کو بھی ضرورت پیش آن پڑی ۔اسلامی طرز زندگی سے نفرت کرنے والے اور اسلام کا مذاق اڑانے والے لوگ آج منہ چھاتے پِھر رہے ہیں کہ کہیں ہمیں وائرس نہ لگ جائے ، جس ہستی کے گستاخانہ خاکے چھاپے گئے آج ان کفار کی نام نہادسائنس اور ٹیکنالوجی بھی اسی ہستی کے قدموں کو ہاتھ لگا کر آئی تو بتایا کہ اگر اس وائرس سے بچنا ہے تو لاک ڈاوٴن کر لو یہی اس کا واحد حل ہے جو چودہ سو سال قبل بتا دیا گیا تھا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :