کونسی تبدیلی، کیسی تبدیلی؟

جمعہ 19 اکتوبر 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

کروڑوں لوگوں کی طرح ہم بھی تبدیلی کے بخار میں مبتلا ہو گئے تھے اور جس کی وجہ اپنے بزرگوں سے سنی جانے والی کئی عشروں سے اپنے ملک کو اپنے ہی سیاسی آقاؤں کے ہاتھوں تباہی کی جانب لے جانے والی داستانیں ہیں کہ کس کس طرح ظالموں نے اس پاک سر زمین کے ساتھ فراڈ کیا، دھوکہ کیا اور اس کے خزانے پر شب خون مارتے ہوئے اپنے محلات اور بینک بیلنس بنائے ۔

یہاں تک کہ روپے کی فراوانی کی وجہ سے کبھی فالودے والے ، چائے والے اور طالبعلم کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے جمع کرائے ۔ جب سے ہوش سنبھالا ،سیاسی آقاؤں کے بڑے بڑے وعدے جو حقیقت سے کو سوں دور ہوتے ہیں سن سن کر ان پر سے اعتبار ختم ہو تا گیا اور یوں دل کے ارمان کہ ہم بھی کبھی تبدیل ہوتا پاکستان دیکھیں گے۔ ایسا پاکستان جہاں کوئی بھوکا نہ رہے گا، ایسا پاکستان جہاں ہر ایک کو آزادی اظہار رائے ہو گا، ایسا پاکستان جہاں ظالم کو ہمت نہ ہو سکے گی کہ وہ مظلوم کو کچھ کہہ سکے ، ایسا پاکستان جہاں ملک کو لوٹنے والے سیاسی آقاؤں کی جیبوں سے پیسہ نکالا جائے گا اور یہاں کی عوام پر استعمال کیا جائے گا، ایسا پاکستان جہاں کسی قسم کا کوئی خوف نہ ہو گا، ایسا پاکستان جہاں امن ، سکون اور محبت کا دور ہو گا، ایسا پاکستان جہاں صرف میرٹ کی پاسداری ہو گی اور اقربا پروری کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔

(جاری ہے)


ایسا پاکستان بنا نے کے لئے پاکستا ن تحریک انصاف نے بہت بلند و بالا دعوے کئے ، لوگوں کے ارمانوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے بڑی بڑی باتیں کی گئیں ۔لیکن محسوس ہو تا ہے کہ مجھ سمیت کئی لوگ سہانے خوابوں کو حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھنے کی خواہش میں ایک دفعہ پھر بے وقوف بن بیٹھے ۔ ابھی تک 100یوم کے اندر بگڑے معاملات کی بہتری کے تمام دعوے ، دعوووں تک ہی محدود ہیں ۔

سیانے کہتے ہیں کہ انسان کو دعوے سے گریز کر نا چاہئیے لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سیکڑوں کی تعداد میں دعوے کئے ۔ افسوس کہ ابھی تک کوئی دعویٰ اپنے انجام کو نہ پہنچ پایا۔ کابینہ میں کم ترین وزراء سے لیکر آئی۔ایم۔ایف کا دروازہ نہ کھٹکھٹانے کی بات ہو یا مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے کا دعویٰ، اداروں کے سربراہوں کی غیر سیاسی تعیناتی ہو یا محکمہ پولیس میں اصلاحات کا طویل وعدہ ،قانون کی حکمرانی ہو یا اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر بے رحم احتساب کی بات، ان تمام وعدوں ، دعووں اور وعدوں کا خود ہی تحریک انصاف کی حکومت نے جنازہ نکال دیا ۔

حالیہ دنوں میں حکومت کا آئی۔ایم۔ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا، حکومتی نا اہلی کی وجہ سے ڈالر کی اونچی اڑان جس کی وجہ سے ویسے تو کئی نقصانات ہوئے لیکن سب سے بڑی وجہ شدید مہنگائی کا طوفان ہے ۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک ہفتے کے دوران اشیا ء خوردو نوش کی قیمتیں 30سے 70فیصدتک مہنگی ہوئی ہیں اور جس کا سارا ملبہ غریب عوام پر پڑا ہے ۔
قارئین کرام !بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلی کے دعوے ہوا میں اڑتے جارہے ہیں اور اس کی حقیقت سامنے آتی جا رہی ہے جس کا حالیہ ثبوت پنجاب میں بنائے گئے پولیس ریفارمز کمیشن کے سر براہ کی سفارش پر پنجاب کے آئی۔

جی کی تعیناتی اور پھر ایک مہینے بعد ہی آئی۔جی صاحب کی تبدیلی ۔ بات یہاں تک رہتی تو تبدیلی کی کچھ شرم رہ جاتی لیکن اس خود دار اور نڈر شخص نے جب یہ سب کچھ ہوتے دیکھا تو استعفیٰ دے دیا اور اب تک کی اطلاع کے مطابق ظالموں نے بجائے شر مندگی کا اظہار کر نے کے اور ناصر درانی سے معذرت کی بجائے استعفیٰ قبول کر لیا ہے ۔ ایک جانب تو آپریشن کر کے غریب اور بے کس لوگوں کو ذلیل کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب منشا ء بم جیسے قبضہ گروپوں کے پیچھے تبدیلی کے دعویدار سفارشی بنے بیٹھے ہیں ۔

مجھے گذشتہ دنوں ایک پولیس افسر بتا رہا تھا کہ سپریم کورٹ تو دور کی بات ہائیکورٹ ہمیں کسی بھی شخص کو پیش کر نے کے احکامات جاری کرتی ہے تو اس میں ہمارے والد ہی کیوں نہ سفارشی بن جائیں ہم تمام سفارشوں کو بالائے طاق رکھتے اور اپنا پورا زور لگاتے ہوئے اسے کورٹ میں پیش کر دیتے ہیں ۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیا ہوا اور قبضہ گروپ کے سرغنہ منشا بم کی گرفتاری کے احکامات کو کئی روز گذر جانے کے باوجود بھی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کیا جارہا ہو ۔

اس سارے معاملے کے پیچھے دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ایک یا تو سیاسی آقاؤں کا پریشر یا پھر پولیس کی غفلت اور سستی کا مظاہرہ ۔ اگر تو پولیس کی غفلت اور سستی ہے تو پھر اس سارے سسٹم کو کون ٹھیک کرے گا کیونکہ ناصر درانی کے استعفیٰ سے اصلاحات کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے ۔
قارئین محترم!ہر آنے والے دن کے ساتھ جہاں تحریک انصاف کے 100روزہ پلان کے دن کم ہو تے جارہے ہیں وہاں ان کی حکومت اور رہنماؤں سے جڑی بے وقوفیاں اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی مانند ایسی داستانیں سامنے آرہی ہیں کہ جس کی وجہ سے عام آدمی کا بھی اس تبدیلی سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ۔

عام آدمی ابھی بھی اپنے علاج کی خاطر ہسپتالوں میں ذلیل ہو رہا ہے ، مہنگائی کی چکی میں پہلے سے بھی زیادہ پس رہا ہے ، زندگی مزید تنگ ہوتی جا رہی ہے اور ان سارے معاملات کو دیکھتے ہوئے مجھ سمیت کڑوروں لوگ یہ سوال کرتے نظر آرہے ہیں کہ کونسی تبدیلی، کیسی تبدیلی؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :