کورونا کا قہر اوربھارت کی مسلم دشمنی

اتوار 19 اپریل 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

کورونا وائرس نے جس طرح دنیا کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے اس سے ہر شخص آگاہ ہے ، بھارتی انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشد (پی ایچ پی ) نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے تمام مسلمانوں خصوصاً تبلیغی جماعت والوں کو بھارت بدر کر دینا چاہیے، ان کے اکاؤنٹس پر قبضہ کر لیا جائے اور نظام الدین میں واقع تبلیغی مرکز کی 9 منزلہ عمارت کو مسمار کر دیا جائے۔

یوں بھارتی سیکولرازم کے دعووں کی ہنڈیا ایک بار پھر بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے، ہندوستانی راجدھانی دہلی کے نظام الدین علاقے میں واقع نظام الدین تبلیغی مرکز کو بابری مسجد کی طرز پر مسمار کرنے کی سازش تیار کر لی گئی ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں کرونا وائرس کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں جن کے لئے مکمل طور پر دہلی کی تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

آر ایس ایس اور بی جے پی کو بھارتی مسلمانوں پر گھیرا تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ ہاتھ آ گیا ہے۔ بی جے پی رہنماؤں نے نظام الدین تبلیغی مرکز کو مسمار کرنے کی یہ بھونڈی وجہ تراشی ہے کہ اس کی وجہ سے بھارت کے مختلف علاقوں میں کرونا وائرس نے پنجے گاڑھے حالانکہ جب 13 تا 15 مارچ دہلی میں تبلیغی اجتماع کا انعقاد کیا گیا تو تب تک ہندوستان میں کوئی ہیلتھ ایمرجنسی نافذ نہیں ہوئی تھی۔

16 مارچ کو تروپدی کے مندر پر ہزاروں ہندو جمع ہوئے، 18 مارچ کو وشنو دیوی مندر کے باہر لاکھوں ہندوؤں کا اجتماع ہوا جس میں کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے پرارتھنا وغیرہ کی گئی۔ اس کے علاوہ 24 مارچ کی شام لاکھوں افراد دہلی، اترپردیش، بہار، اترکھنڈ، مغربی بنگال و دیگر ہندوستانی صوبوں میں سڑکوں پر نکل آئے اور پیدل ہی اپنے گھروں کی جانب مارچ شروع کر دیا۔

اس وقت بھی بھارتی حکمرانوں کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ محسوس نہیں ہوا مگر مارچ کے وسط میں ہوئے تبلیغی اجتماع کو جواز بنا کر ہندوستانی مسلمانوں پر گھیرا تنگ کر دیا گیا۔ اب مودی سرکار کی جانب سے سازش تیار کی جا رہی ہے کہ مبینہ طور پر غیر قانونی تعمیر اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا بہانہ بنا کر نظام الدین تبلیغی مرکز کی 9 منزلہ عمارت کو مسمار کر دیا جائے، امکان ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں نام نہاد قانونی کارروائی مکمل کر کے اس عمارت کو بھی بابری مسجد کی طرز پر مسمار کر دیا جائے گا۔


اگر وشو ہندو پریشد کے قیام کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے ہم خیال انتہا پسند سادھوؤں نے اس کی بنیاد 1984 کے انتخابات کے بعد رکھی تھی اور بابری مسجد کی شہادت میں اس کے انتہا پسند رہنماؤں اور کارکنوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے سربراہ وشو ہری ڈالمیا اور نائب سربراہ اچاریہ گری راج کشور تھے۔ اس تنظیم کے قیام کا بنیاد مقصد بیرونی دنیا میں مقیم بھارتیوں کو انتہا پسندانہ نظریات کا قاتل کرنا اور ان سے منظم ڈھنگ سے مالی معاونت کا حصول ہے، اس کا بنیادی ہدف ایودھیا میں بابری مسجد کی تسخیر اور رام مندر کی تعمیر تھا جس میں وہ بالآخر کامیاب ٹھہری ۔

سبھی جانتے ہیں کہ وشو ہندو پریشد کے رہنما ہمہ وقت مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وی ایچ پی کے سابق سربراہ ” اشوک سنگھل“( آنجہانی) فخریہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ” 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ایک کامیاب تجربہ تھا، پورے علاقے کے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، اس تجربے کو پورے بھارت میں دہرایا جانا چاہیے۔

مجھے انتظار ہے اس دن کا جب ہر ہندو ہاتھ میں ہتھیار لئے بھارت ماتا کو ان مسلمانوں کے …… خون سے پاک کر دے گا“۔ اس انتہا پسند ہندو تنظیم کے دیگر رہنما بشمول پروین تگوڑیا بھی اپنے انتہا پسندانہ بیانات کیلئے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔
 وی ایچ پی جیسی دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں میں بجرنگ دل، سودیشی جاگرن منچ، شیو سینا، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد و دیگر شامل ہیں۔

بجرنگ دل 1989 میں وجود میں آئی اور تب سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے علاوہ جنوری 1999 میں اڑیسہ کے گاؤں منوہر پورہ میں آسٹریلوی مشنری ڈاکٹر گراہم سٹینلے اور اس کے دو معصوم بچوں کو اس تنظیم کے رہنما دارا سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ بجرنگ دل میں زیادہ تر زعفرانی دہشتگردانہ خیالات کے حامل ہندو نوجوان شامل ہیں۔

یہ گروہ بے جے پی اور وشو ہندو پریشد کے جنگجو ملیشیا کے طور پر کام کرتا ہے۔ بابو بھائی پٹیل، جسے عموماً بابو بجرنگی کے نام سے جانا جاتا ہے، 2002 میں بجرنگ دل کا گجرات ونگ کا سربراہ تھا۔ گجرات میں ہوئے 2002 کے مسلمانوں کے قتل عام میں بابو بجرنگی کا مرکزی کردار تھا، نرودھا پاٹیا میں اس نے 97 مسلمانوں جن میں 36 خواتین، 26 مرد اور 35 بچے شامل تھے، کو زندہ جلا دیا تھا۔

2007 میں تہلکہ میگزین نے بابو بجرنگی کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں اس نے فخریہ طور پر مسلمانوں کو زندہ جلانے کا اعتراف کیا اور کہا ” ہم نے کسی کو نہیں چھوڑا، ہر چیز کو بھسم کر دیا، وہ لوگ گڑگڑا کر زندگی کی بھیک مانگتے رہے جسے دیکھ کر میرے دل میں سکون اترتا رہا، میری صرف ایک آخری خواہش ہے چاہے اس کے بعد مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

مجھے صرف دو دن کے لئے جیل سے رہا کیا جائے تا کہ میں جہان پورہ جا سکوں جہاں یہ لوگ 7 ، 8 لاکھ کی تعداد میں بستے ہیں، میں سب کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا کم از کم 50 ہزار مسلمانوں کا میں اپنے ہاتھوں سے صفایا کرنا چاہتا ہوں“۔ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابو بجرنگی کو مارچ 2019 میں خرابی صحت کی آڑ لے کر ضمانت پر رہا کر دیا۔ کہا جاتا ہے اس کی دیکھنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ بھارتی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم و مظالم کا یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :