
کورونا کا قہر اوربھارت کی مسلم دشمنی
اتوار 19 اپریل 2020

حماد اصغر علی
(جاری ہے)
اگر وشو ہندو پریشد کے قیام کے پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کے ہم خیال انتہا پسند سادھوؤں نے اس کی بنیاد 1984 کے انتخابات کے بعد رکھی تھی اور بابری مسجد کی شہادت میں اس کے انتہا پسند رہنماؤں اور کارکنوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کے سربراہ وشو ہری ڈالمیا اور نائب سربراہ اچاریہ گری راج کشور تھے۔ اس تنظیم کے قیام کا بنیاد مقصد بیرونی دنیا میں مقیم بھارتیوں کو انتہا پسندانہ نظریات کا قاتل کرنا اور ان سے منظم ڈھنگ سے مالی معاونت کا حصول ہے، اس کا بنیادی ہدف ایودھیا میں بابری مسجد کی تسخیر اور رام مندر کی تعمیر تھا جس میں وہ بالآخر کامیاب ٹھہری ۔ سبھی جانتے ہیں کہ وشو ہندو پریشد کے رہنما ہمہ وقت مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وی ایچ پی کے سابق سربراہ ” اشوک سنگھل“( آنجہانی) فخریہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ” 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ایک کامیاب تجربہ تھا، پورے علاقے کے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، اس تجربے کو پورے بھارت میں دہرایا جانا چاہیے۔ مجھے انتظار ہے اس دن کا جب ہر ہندو ہاتھ میں ہتھیار لئے بھارت ماتا کو ان مسلمانوں کے …… خون سے پاک کر دے گا“۔ اس انتہا پسند ہندو تنظیم کے دیگر رہنما بشمول پروین تگوڑیا بھی اپنے انتہا پسندانہ بیانات کیلئے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔
وی ایچ پی جیسی دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں میں بجرنگ دل، سودیشی جاگرن منچ، شیو سینا، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد و دیگر شامل ہیں۔ بجرنگ دل 1989 میں وجود میں آئی اور تب سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے علاوہ جنوری 1999 میں اڑیسہ کے گاؤں منوہر پورہ میں آسٹریلوی مشنری ڈاکٹر گراہم سٹینلے اور اس کے دو معصوم بچوں کو اس تنظیم کے رہنما دارا سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے زندہ جلا دیا تھا۔ بجرنگ دل میں زیادہ تر زعفرانی دہشتگردانہ خیالات کے حامل ہندو نوجوان شامل ہیں۔ یہ گروہ بے جے پی اور وشو ہندو پریشد کے جنگجو ملیشیا کے طور پر کام کرتا ہے۔ بابو بھائی پٹیل، جسے عموماً بابو بجرنگی کے نام سے جانا جاتا ہے، 2002 میں بجرنگ دل کا گجرات ونگ کا سربراہ تھا۔ گجرات میں ہوئے 2002 کے مسلمانوں کے قتل عام میں بابو بجرنگی کا مرکزی کردار تھا، نرودھا پاٹیا میں اس نے 97 مسلمانوں جن میں 36 خواتین، 26 مرد اور 35 بچے شامل تھے، کو زندہ جلا دیا تھا۔ 2007 میں تہلکہ میگزین نے بابو بجرنگی کا ایک انٹرویو شائع کیا جس میں اس نے فخریہ طور پر مسلمانوں کو زندہ جلانے کا اعتراف کیا اور کہا ” ہم نے کسی کو نہیں چھوڑا، ہر چیز کو بھسم کر دیا، وہ لوگ گڑگڑا کر زندگی کی بھیک مانگتے رہے جسے دیکھ کر میرے دل میں سکون اترتا رہا، میری صرف ایک آخری خواہش ہے چاہے اس کے بعد مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔ مجھے صرف دو دن کے لئے جیل سے رہا کیا جائے تا کہ میں جہان پورہ جا سکوں جہاں یہ لوگ 7 ، 8 لاکھ کی تعداد میں بستے ہیں، میں سب کو موت کے گھاٹ اتار دوں گا کم از کم 50 ہزار مسلمانوں کا میں اپنے ہاتھوں سے صفایا کرنا چاہتا ہوں“۔ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابو بجرنگی کو مارچ 2019 میں خرابی صحت کی آڑ لے کر ضمانت پر رہا کر دیا۔ کہا جاتا ہے اس کی دیکھنے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ بھارتی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم و مظالم کا یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا، یہ وقت ہی بتائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حماد اصغر علی کے کالمز
-
آکسیجن کا بحران اور پاکستان سٹیل ملز
منگل 4 مئی 2021
-
بڑھتی گلو بل وارمنگ۔کیسے قابو پایا جائے؟
ہفتہ 20 فروری 2021
-
گلگت بلتستان میں بھارتی دہشتگردی کے ثبوت
منگل 9 فروری 2021
-
افغان خواتین کی آبروریزی اور آر ایس ایس غنڈے
جمعہ 8 جنوری 2021
-
خواتین بے حرمتی ۔بھارت کی پہچان بنی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
مودی کا جنم دن اور بابری شہادت
بدھ 23 ستمبر 2020
-
’نیب‘ساکھ میں بتدریج اضافہ۔ایک جائزہ
پیر 14 ستمبر 2020
-
بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور چین کا کرارا جواب !
منگل 8 ستمبر 2020
حماد اصغر علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.