
افغانستان امن کی تلاش میں!
جمعہ 5 جون 2020

حماد اصغر علی
افغانستان کی آبادی تقریبا 3کروڑ 25لاکھ ہے، جس میں زیادہ تر پشتون، تاجک، ہزارہ اور ازبک نسل شامل ہے۔ یہ زمین تاریخی طور پر متعدد قوموں کا گھر رہی ہے اور اس نے متعدد فوجی مہمات دیکھی ہیں، جن میں سکندر اعظم، عرب ، منگول، برطانیہ اور سوویت یونین شامل ہے۔
(جاری ہے)
پہلی اینگلو-افغان جنگ میں، برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختصر عرصے کیلئے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرلیا، لیکن 1919 میں تیسری اینگلو-افغان جنگ کے بعدافغانستا ن غیرملکی اثر و رسوخ سے آزاد ہوا ، بالآخر 50 سال بعد افغانستان ،امان اللہ خان کے دور میں بادشاہت کی شکل اختیار کر گیا۔ 1973تک ظاہر شاہ بادشاہ کے طور پر حکومت کرتے رہے اس کے بعد سردار داود نے ظاہر کو ہٹا کر خود حکومت سنبھال لی۔ سن 1978 میں سردار دادو کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور اپریل1978میں نور محمد تراکی برسر اقتدار آگئے۔اس کے کچھ عرصے بعد سابقہ سوویت یونین کی مدد سے ستمبر 1979میں نور محمد تراکی کی حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور حفیظ اللہ امین حکومت سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے کچھ عرصے بعد ببر ک کارمل (دسمبر 1979تا نومبر 1986 )اور محمد نجیب اللہ(ستمبر 1987تا اپریل 1992) یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آگئے۔1989میں جنیوا معاہدے کے نتیجے میں سوویت فوجیں افغانستان سے واپس چلی گئیں۔یاد رہے کہ 1978سے1989تک پاکستان اور امریکہ کے مابین انتہائی قریبی تعلقات تھے اور افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا میں میں دونوں ملکوں نے مظبوط اتحادیوں کا کردار ادا کیا ،خصوصا پاکستان نے تو اس حوالے سے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا مگر اس کے فورا بعد امریکہ نے گویا پاکستان کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان بڑی حد تک انتشار کا شکار ہوگیا۔اگرچہ اس دوران پاکستان کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی کہ افغانستان آنے والے چیلنجز سے نمٹ سکے، اسی تناظر میں صبغت اللہ مجددی ،عبدالرسول سیاف ،برہان الدین ربانی اور حکمت یار یکے بعد دیگرے افغانستان کے حکمران بنے مگر افغانستان طوائف املوکی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔چھوٹے بڑے سرداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں حکومتیں قائم کر لیں۔اس کے بعد 1996 میں افغانستان کے بیشتر حصوں پر طالبان نے قبضہ کرلیا، اور ملا محمد عمر کو اپنا سربراہ تسلیم کر لیا جنہوں نے پانچ سال یعنی ستمبر 1996تانومبر 2001 تک افغانستان پر حکومت کی۔
اس دوران افغانستان میں حکومتی رہٹ پوری طرح بحال ہوگئی تھی مگر نائن الیون کے سانحے نے گویا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا اور اس کے بعد، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت نے طالبان کو زبردستی اقتدار سے ہٹا دیا، اور جمہوری طور پر منتخب ایک نئی حکومت تشکیل دی گئی،اس کے بعد دس سال (دسمبر 2001تا ستمبر 2014 سے تک حامد کرزئی نے حکومت کی اور اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ چھ سال سے حکومت میں ہیں لیکن افغانستان ابھی تک حقیقی آزادی کا منتظر ہے کیوں کہ عملی طورپر وہاں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ہی حکومت کر رہے ہیں۔
افغانستان میں اگرچہ صدارتی نظام حکومت قائم ہے لیکن ”شمالی اتحاد“ کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بطور چیف ایگزیٹو اور اشرف غنی بطور صدر کام کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی، غربت، بچوں کی غذائیت کی کمی اور بدعنوانی خاصی زیاد ہ ہے۔یہ اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، 77 کے گروپ، اقتصادی تعاون تنظیم، اور غیر یکجہتی تحریک کا رکن ملک بھی ہے۔ افغانستان کی معیشت دنیا کی 96 ویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ ملک فی کس جی ڈی پی بہت خراب ہے، جو 2018 تک 186 ممالک میں سے 169 ویں نمبر پر تھی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تا حال افغانستان میں مکمل امن و امان کا قیام خاصی دور کی بات نظر آتی ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارتی خفیہ اداروں اور افغان سیکورٹی ایجنسیNDSکے آپسی تعلقات ضرورت سے بھی زیادہ گہرے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ تاحال NDSاور RAWپاکستان کے خلاف مختلف نوع کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔
اس کے باوجو دپاکستان کی حکومت اور عوام کی ہر ممکن کوشش اورخواہش ہے کہ کابل انتظامیہ دہلی سرکار کے مہرے کے طور پر کام کرنے کی بجائے ایک باوقار اور خود مختار ملک کی روش اپنائیں کیوں کہ پچھلے 40بر س سے پاکستان نے افغانستان کی عوام اور سبھی حکومتوں کے ساتھ انتہائی مخلص کردار نبھایا ہے اور اس بابت ہر قسم کی قربانی دی ہے۔اس کے باوجود ابھی تک خاطر خواہ ڈھنگ سے جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ یہ دو بردار ملک باہمی تعاون کی فضا کو پروان چڑھانے میں کامیاب ہوں گے۔انشاء اللہ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حماد اصغر علی کے کالمز
-
آکسیجن کا بحران اور پاکستان سٹیل ملز
منگل 4 مئی 2021
-
بڑھتی گلو بل وارمنگ۔کیسے قابو پایا جائے؟
ہفتہ 20 فروری 2021
-
گلگت بلتستان میں بھارتی دہشتگردی کے ثبوت
منگل 9 فروری 2021
-
افغان خواتین کی آبروریزی اور آر ایس ایس غنڈے
جمعہ 8 جنوری 2021
-
خواتین بے حرمتی ۔بھارت کی پہچان بنی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
مودی کا جنم دن اور بابری شہادت
بدھ 23 ستمبر 2020
-
’نیب‘ساکھ میں بتدریج اضافہ۔ایک جائزہ
پیر 14 ستمبر 2020
-
بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور چین کا کرارا جواب !
منگل 8 ستمبر 2020
حماد اصغر علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.