
بھارتی فرعونیت کب تلک؟؟
پیر 29 جون 2020

حماد اصغر علی
(جاری ہے)
وحشت و بربریت کے ان واقعات کو محض انسانی حقوق کی پا مالی قرار دینا بھی بہت چھوٹی بات ہے کہ ایسی صورتحال کے اظہار کے لئے لفظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔
غیر جانبدار میڈیا رپورٹس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جنوری 1989 سے 31مئی 2020 تک 95,592کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ 7,141 افراد کو حراست کے دوران شہید کیا گیا جبکہ 160,487معصوم شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور 110,327مکانوں اور رہائشگاہوں کو مسمار یا نذرِ آتش کیا گیا ۔ بھارتی بربریت کے نتیجے میں 22,915خواتین کو بیوہ کیا گیا جبکہ 107,792بچوں کے سر سے ان کے والدین کا سایہ ہمیشہ کے لئے چھن گیا اور 11,204خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے مکروہ واقعات پیش آئے ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ مندرجہ بالا اعداد و شمار انتہائی محتاط اندازوں پر مبنی ہیں وگرنہ تو اکثر ذرائع اس سے کئی گنا زیادہ نقصانات کا اظہار کرتے آئے ہیں ۔
دوسری جانب دنیا بھر میں سالانہ 8 لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں سے 135,000 افراد بھارت سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی دنیا کے تمام خودکشی کرنے والے افراد کا 17 فیصد بھارتی ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے سرکاری ادارے ” نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو ” کے اعداد و شمار کے مطابق ” سال 2017 “ کے دوران ” 1,33,623 “ افراد نے خود کشی کی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ محض ایک برس کے اندر اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا خود اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لینا ایسی بات نہیں جسے سرسری کہہ کر نظر انداز کیا جا سکے ۔ بلکہ یہ ایسا انسانی المیہ ہے جس پر وطنِ عزیز میں بوجوہ خاطر خواہ ڈھنگ سے توجہ نہیں دی جا رہی ۔ اس معاملے کی مزید تفصیلات کے مطابق بھارت میں سال 2017 میں خود کشی کرنے والوں میں خواتین کی تعداد 42088 ہے ۔ اٹھارہ سال سے ساٹھ سال کے درمیان کی عمر کے 79834 مردوں نے جبکہ اسی ایج گروپ کی 34381 خواتین نے خود کشی کی ۔ اس کے علاوہ اٹھارہ سال سے کم عمر 9408 لڑکے لڑکیوں نے اپنے ہاتھوں موت کو گلے لگایا ۔ سماجی ماہرین نے اس صورتحال کے پس منظر میں کہا ہے کہ یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جس پر نہ تو خود بھارت کے اندر خاطر خواہ ڈھنگ سے توجہ دی جا رہی ہے اور نہ ہی عالمی رائے عامہ اس طرح سے اس جانب کان دھر رہی ہے جو اس صورتحال کی متقاضی ہے ۔ایسے میں کوئی بھارتی حکمران خود کو انسانی حقوق کے احترام کا سب سے بڑا دعوے دار قرار دے تو اسے ایک ستم ظریفی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ساری دنیا اس امر پر متفق ہے کہ کفر کی حکومت تو شائد زیادہ دیر تک چل سکے لیکن ظلم و سفاکی پر مبنی حکمرانوں کے دن گنے چنے ہوتے ہیں اور یہ بات بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ مودی کے ہندوستان میں تو ظلم اور کفر پہلو با پہلو اکٹھے چل رہے ہیں لہذا دیکھیں یہ سلسلہ کب تلک چلتا ہے کہ ”ظلم رہے اور امن بھی ہو ،کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حماد اصغر علی کے کالمز
-
آکسیجن کا بحران اور پاکستان سٹیل ملز
منگل 4 مئی 2021
-
بڑھتی گلو بل وارمنگ۔کیسے قابو پایا جائے؟
ہفتہ 20 فروری 2021
-
گلگت بلتستان میں بھارتی دہشتگردی کے ثبوت
منگل 9 فروری 2021
-
افغان خواتین کی آبروریزی اور آر ایس ایس غنڈے
جمعہ 8 جنوری 2021
-
خواتین بے حرمتی ۔بھارت کی پہچان بنی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
مودی کا جنم دن اور بابری شہادت
بدھ 23 ستمبر 2020
-
’نیب‘ساکھ میں بتدریج اضافہ۔ایک جائزہ
پیر 14 ستمبر 2020
-
بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور چین کا کرارا جواب !
منگل 8 ستمبر 2020
حماد اصغر علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.