
کرپشن کے تدارک کے لیے تعلیمی نصاب کا کردار
بدھ 4 دسمبر 2019

حسنات غالب راز
(جاری ہے)
اس رویے کے تابع افراداپنے ظاہری اور عارضی فائدے کی خاطر قومی و معاشرتی ضابطوں کونظر انداز کردیتے ہیں ۔
یہی وہ عناصر جو قومی و اجتماعی مفادات پر اپنے منفی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی مفادپرستی سے کسی بھی ملک یا معاشرے میں بدعنوانی( corruption) کافرسودہ اور بوسیدہ نظام رائج ہوجاتاہے ۔یہی وہ نظام ہے،جس سے معاشرے کے کرپٹ عناصر اور بددیانت افراد کو فوری فائد ہ حاصل ہوجاتا ہے اور بغیر محنت و مشقت حاصل شدہ منافع خوری کی جھلک دیکھ کر ان افراد کو دلی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ذاتی مفادات کی پوجا کرنے والاکوئی بھی فرد ،جب ایک بار بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے تو لذتِ منافع خوری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس فعل کا گرویدہ ہوجاتا ہے اور اس گرویدگی میں ایسا مدغم ہوتا ہے کہ بدعنوانی کو اپنی زندگی اور شام و سحر کا حاصل سمجھنے لگتا ہے ۔ یو ں ظاہری منافع، بھوکی شہرت ، دولت اور طاقت کے حصول کے لیے ہر منفی رویہ اپنا لیتا ہے اور معاشرے کے دوسرے افراد کے سارے حقوق نظر انداز کر دیتا ہے ۔وہ اپنی زندگی اور اپنی دنیا کو کسی بھی صورت میں خوش حال دیکھنے کے لیے مختلف منفی ذرائع اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ وہ رشوت ، بددیانتی ، ملاوٹ ،دھوکا دہی ،اقربا پروری،جرائم کی سر پرستی ،غبن ، جھوٹ ،چوری ، ڈکیتی ، لوٹ مار،بھتہ خوری حتیٰ کہ قتل و غارت کوبھی عیب نہیں سمجھتا ۔اسی طرح نجی فوائد کے لیے سیاسی بدعنوانی اورسرکاری افسران کے ذریعے اختیارات کے غلط استعمال سے سرکاری سطح پر بدعنوانی سرانجام دی جاتی ہے ۔
بحیثیت مجموعی بدعنوانی کا کیٹلاگ بہت وسیع ہے ۔انسانی اعمال میں جھوٹ ، جس طرح تمام برائیوں کی جڑ ہے ،اسی طرح کسی معاشرے کی خرابی ،انسانی حقوق کی پامالی اورملکی معیشت کی تباہی میں بدعنوانی یا کرپشن بنیادی خرابی ہے ۔یہی وہ معاشرتی خرابی ہے جس سے تہذیب و تمدن کا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے، انسانیت کا استحصال اور میرٹ کا خاتمہ ہوجاتا ہے ،جس کی وجہ سے سارا نظام نااہل اور کرپٹ عناصر کے ہاتھ میں چلا جاتاہے ، شام و سحر بدعنوانی کی آبیاری کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ملک میں کرپشن رواج پکڑ جاتی ہے، لہٰذاملکی ضابطوں سے متصادم کسی بھی قسم کے منفی اقدامات کو بدعنوانی کا نام دیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ معاشرتی ، سماجی ، مذہبی اور معاشی حوالے سے ہر وہ منفی کارروائی ،جس کے تابع ذاتی مفادات کی خاطراستحقاق کا استحصال کیا جاتاہے اور انسانیت کو نقصان، تکلیف اور دکھ دے کر ذاتی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے ، بدعنوانی ہے۔
بدعنوانی کے باعث کوئی بھی معاشرہ تہ و بالا اور نیست و نابود ہوجاتاہے ۔یہی وہ فعل ہے ،جس کے باعث ادارے تباہ ، ملک برباد اور قومیں قرطاسِ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بدعنوانی کسی بھی معاشرے کا سب سے بھیانک اور مکروہ فعل ہے۔یہ ایک ایسا خوفناک پھوڑا ہے ،جوایک بار پھوٹتا ہے تو کسی تہذیب یا معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر جاتا ہے۔یہ کسی معاشرے کے بدکردار افراد کا وہ کالا کرتوت ہے ،جو انسانیت اورزندگی کے ہر شعبے میں بگاڑ پیدا کر تا ہے ۔ اس طرح چند لوگوں کے مفاد کی خاطر پوری قوم استحصال کا شکار ہوتی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بدعنوانی کسی بھی معاشرے کے لیے زہرِ قاتل اور ناسور کا درجہ رکھنے والا غیر فطری ، غیر معاشرتی اور غیر انسانی عمل ہے ۔ بدعنوانی ہم سب کو متاثر کرتی ہے ۔اس سے پائیدار معاشی ترقی ، اخلاقی اقدار اورانصاف کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔یہ ہمارے معاشرے کو غیر مستحکم اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کرتی ہے ۔ترقی کے بنیادی ڈھانچے میں عدم توازن ، بیرونی قرضوں کا بوجھ ، غربت ، بدحالی ،بدسکونی ایسے عوامل بدعنوانی ہی کے شاخسانے اور مضمرات ہیں ۔بدعنوانی کے کئی روپ اورکئی راستے ہیں۔ خاص طور پر رشوت، اقربا پروری، اختیارات کا غلط استعمال ،ملاوٹ، ناانصافی، ذخیرہ اندوزی، سفارش، زنا ، ڈکیتی ،چوری ،قتل ، لاقانونیت حتیٰ کہ سرکاری افسروں، سیاست دانوں، صحافیوں، وکیلوں اور عدالتوں کی خریداری بھی بدعنوانی کی تعریف میںآ تی ہے ۔یہ راستے انسانیت سے ماورا راستوں اور منزلوں کی کی طرف چلتے ہیں اور کسی قوم میں،جب درج بالا برائیوں کے جراثیم پرورش پا جاتے ہیں تو بدعنوانی کا ناسور آلودہ تر ہو جاتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدعنوانی اور اس کے جملہ عناصر کا سدِّباب کیسے کیا جائے ۔ یہ بظاہر ایک سطر کا سوال ہے لیکن اس کے جواب کے لیے لاکھوں تقاضے ،لاکھوں سفارشات اور لاکھوں مشکلات سے پالا پڑتا ہے ۔ اس حوالے سے ، جب ہم کسی ایک شعبے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بدعنوانیوں کا ایسا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے کہ انسانی عقل ماوٴف ہو کر رہ جاتی ہے ۔مملکت ِ خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۴۷ء کو منصہ شہود پر آیا مگر بدقسمتی سے کرپشن نے بھی گویا ساتھ ہی جنم لے لیا ۔بہتر سال گزر جانے کے باوجود ٹڈی دَل کی طرح جابجا کرپشن کے اڈے دکھائی دیتے ہیں ۔ عام گلی کوچوں سے پڑھے لکھے اداروں اور دفتروں تک ، پنچایتوں سے عدالتوں تک ، تھانوں سے ہسپتالوں تک ، ووٹروں سے وزیروں تک ، سبزی کی دکان سے پارلیمنٹ ہاوٴس تک،مزدور سے صنعت کار تک ، غریب سے امیر اورآجر سے اجیر تک، جہاں جہاں ، جدھر جدھر نظر اٹھائیں، کسی نہ کسی روپ میں بدعنوانی کا کوئی نہ کوئی جرثومہ متحرک دکھائی دیتا ہے ۔اس کا اصل سبب کیا ہے ، اس کا موجب کون ہے اور اس سارے دھندے کا سدِباب کیسے ممکن ہے ؟ اس سوال کا جواب من حیث القوم ہم سب پر واجب ہے ۔
دنیا میں ہر روگ کا علاج ہے اور عزمِ صمیم ، استقامت اور یقینِ محکم سے ارادہ کر لیا جائے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ دنیا کی کسی بھی بدعنوانی اوربرائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ،تاہم اس حوالے سے بعض شعبہ ہائے زندگی کو اولیت حاصل ہے ۔اس ضمن میں کرپشن کے تدارک کے لیے تعلیمی نصاب کا کردار نہایت اہم قرار دیا جاسکتا ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ کہنا بے نہ ہوگا کہ تعلیم ایک پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے ، قوموں کو انقلابی تبدیلی سے روشناس کرایا جاسکتا ہے ، قوم کے افراد کی مثبت تربیت اور بہترین نشوونما کی جاسکتی۔کسی بھی اعلیٰ مقصد کا حصول تعلیم کے ذریعے ممکن ہے ،مگر تعلیم کو موثر بنانے کے لیے تعلیم نصاب کی تشکیل اولین تقاضا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو کرپشن کے تدارک کے لیے تعلیمی نصاب کا کردارکلیدی حیثیت کا حامل ہے ۔ ہمارا تعلیمی نصاب کرپشن کے خاتمے کے نہایت موثر ہتھیار کے طور پر بروئے کار لایا جاسکتا ہے ۔خوش نصیبی سے مذہب اسلام کے دامن میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے قرآن و سنت اور اسوہٴ رسول ﷺ میں جابجا ایسے ارشادات و احکامات ہیں کہ ہمیں کسی دوسرے نظام تعلیم کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی البتہ اقوامِ عالم کی تاریخ سے مثبت نظریات اور تعلیمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔
اگرکرپشن کے تدارک کے لیے تاریخ عالم اور عالمِ اسلام سے سنہری اصولوں کا چناؤ کرکے ایک ایسا نصاب ترتیب دیں، جو انسانی فطرت اور خمیر کے عین مطابق ہو ، جو انسانی ذہن کو براہِ راست روشنی عطا کرے،اس ضمن میں تاریخی شواہد ، واقعات ، قوموں پر عذاب کے واقعات ، قوموں کی ترقی کے راز ، زندگی گزارنے کے سنہری اصول پیش کیے جائیں اور نسلِ نو کی اسلامی و انسانی اصولوں پر تربیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور تعلیمی نصاب میں اس تأثر کو خصوصیت سے اجاگر کیا جائے کہ کہ دنیاوی ترقی اور دنیاوی مفادات کچھ نہیں ہیں،بلکہ اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے ،جس کا انحصارصالح اور پاکیزہ اعمال پر ہے ۔ تعلیم تربیت میں روزمرہ کے واقعات کو بطریقِ احسن اجاگر کر نے کی ضرورت ہے ،جو ہمارے معاشرے میں آئے روز پیش آتے ہیں ۔ الغرض ہر زاویے سے ہمارا تعلیمی نصاب بدعنوانی کے سدِ باب کا عکاس ہونا چاہیے ،تاکہ دورانِ تعلم نسلِ نو کے ذہن میں بدعنوانی کے نقصانات کی اصل تصویر نمایاں اور واضح ہو ۔
ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کے ذریعے آج کے طلبااور کل کے معماروں کوباور کرانا چاہیے کہ انسانی شکل میں انسانیت سے ماورا افراد بدعنوانی کے چلتے پھرتے کردار ہیں ۔یہ افراد بظاہر معاشرے میں عزت اور آبرو کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ،مگر درحقیقت یہ معاشرے کے قابلِ صد نفرین لوگ ہیں ۔ہم ان سے نفرت کے باوجود نفرت کیوں نہیں کرتے ، ہم ان کا ساتھ کیوں دیتے ہیں ۔یہ ناسور ہمارے معاشرے کا جزوِ لاینفک کیوں ہیں ۔ان کو آج تک کسی نے لگام کیوں نہیں دی ۔ ان کی اس بے لگامی کی کوئی حد مقرر ہے یا یہ ہمیشہ بدعنوانی کے موٹر وے پر رواں دواں رہیں گے ۔ان کو پیدا کرنے والے کون لوگ ہے ۔ ان کی پرورش کا الزام کس کو دیا جائے ۔ یہ خود ساختہ بدعنوانی کے مرتکب ہیں یا ہمارا معاشرہ اور ہم سب ان کے کالے کرتوتوں میں برابر کے شریک ہیں ۔ بدعنوان عناصرکی حوصلہ شکنی کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نصاب کی تشکیل نو کی سخت ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں میں صرف اسلامیات کا مضمون کافی نہیں بلکہ لٹریچر ،تاریخ ، جغرافیہ، اقتصادیات، عمرانیات حتیٰ کہ سائنس اور ریاضی کے مضامین کے سرورق، فلیپ،پیش لفظ اور حرفِ آخر کے طور پر ہر نصابی کتاب کے آخر میں اصلاحی مضمون حتیٰ کہ کارٹون اور تصویری کہانیوں کے ذریعے بدعنوان عناصر کی بھیانک صورت پیش کی جانی چاہیے ۔
بچوں کے ذہنوں میں بدعنوانی کے خلاف زیادہ سے زیادہ مواد کی اشاعت کا اہتمام کیا جانا چاہیے، اس سلسلے کو چھوٹی سے بڑی جماعتوں تک جاری رکھنا چاہیے اور خاص طور پر تعلیم مکمل کرنے والے طلبا کے لیے کالجز ،یونی ورسٹیوں میں کورسز اور سیمینار کا نعقاد کرکے ملک و قوم اور اداروں میں کرپشن سے پاک خدمات سر انجام دینے کی تربیت دی جانی چاہیے ۔ اس ضمن میں رہنما کتابچے دیے جانے چاہیں ۔ ایسی پینٹنگز اور تصویری مواد دیا جانا چاہیے کہ تعلیم کی تکمیل، حصولِ روزگار کی جستجو اور بر سرِ روزگار ہونے تک یہ تصویری و مطالعاتی مواد افراد کے ذہنوں تازہ رہے اور بدعنوانی کے خلاف انعقاد پذیر تربیتی ورکشاپس کے مقاصد تابناک رہیں ۔ بدعنوانی کے خلاف تیار کیا گیا یہ تصویری مواد اورتعلیمی نصاب بدعنوانی سے نفرت پیدا کرنے کے لیے یقینی طور پر ممد ومعاون ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تعلیمی ادارے اور تعلیمی نصاب بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کلیدی مقام رکھتے ہیں ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی طبیعت جستجو پسند ہے ۔ بے حساب سوالات ہر ذی شعور کے ضمیر سے ٹکراتے ہیں تو اضطراب کا ایک لامتناہی سلسلہ دامن گیر ہوتا ہے اور معاشرے کا ہر ذی شعور فرد ضرور سوچتا ہے کہ کرپشن یا کسی بھی برائی کا آخر اصل مجرم کون ہے ۔کون ہے ،جو بدعنوانی کو دنیا میں ترویج و ترقی عطا کر رہا ہے ۔یہ تجسس اس وقت طویل ہوجاتا ہے ،جب کوئی بدعنوان شخص چوراہے پر کھڑا دوسروں سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ بدعنوانی کا مرتکب کون ہے ؟ بقول غالب
لِکُلِّ دَاءِِ دَوَا ء وَ دَ وَا ء الذَّ نُوْبِ الْاِ سْتِغْفَارْ ہ
ہر بیماری کا علاج ہے اور گناہ کا علاج توبہ ہے
دنیا میں یقیناًہر مرض کا علاج ہے ، بدعنوانی کا علاج بھی ممکن ہے تاہم جب کوئی برائی کسی معاشرے میں جڑ پکڑ جاتی ہے تو اس کا سدِباب مشکل ضرور ہوجاتا ہے ،مگر بقول شاعر
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
اِ نَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات ہ
کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس بات کا بخوبی ادراک ہوجاتا ہے کہ اگر کسی کام کے لیے نیت سچی ہوگی تو ناکامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، لہٰذا بدعنوانی کا سدِ باب بھی ہرگز ناممکنات میں سے نہیں ہے ،اس کے لیے مصمم ارادے ، استقامت اور سچی نیت کی ضرورت ہے ، جب من حیث القوم ہم سب مل کر اس کے سدباب کا عہد کر لیں گے تو وہ دن دور نہیں کہ بدعنوانی آپ ہی اپنی موت مر جائے ۔
اگر بغور مشاہد ہ کیا جائے تو بدعنوانی کے چلتے پھرتے کردار ہمارے گردو نواح میں دکھائی دیتے ہیں ، جن میں سے اکثر ہمارے اپنے ہوتے ہیں، لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے چور کا ہاتھ تو کٹتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمارا اپنا عزیز کوئی ارتکابِ چوری کرتا ہے تو ہم اس کی آزادی کے لیے ہر جتن کرتے ہیں ۔ ہر سفارشی کا پلو پکڑتے ہیں ۔ رشوت کے لیے اپنی تجوریاں قربان کر دیتے ہیں ۔ کاش ہم مجرم کو مجرم سمجھیں اور محسوس کریں کہ ایک مجرم کی آزادی کتنی انسانی زندگیوں کوپابندِ سلاسل کر دیتی ہے ۔ دکھ اس امر کا ہے کہ کتنے ہی بدقماشوں اور بدمعاشوں کی پشت پناہی پر کتنے ہی شرفا کے چہرے دکھائی دیتے ہیں ۔اس دشت کی رو سیاہی میں کتنے پڑھے لکھے لوگ دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر تعلیم یافتہ افراد بھی کرپشن کے دلدادہ اور پرستار دکھائی دیں تو جان لینا چاہیے کہ کہ ہمارے تعلیمی نصاب اور تربیت گاہوں میں کہیں کمی رہ گئی ہے،لہٰذا ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے کہ اولین فرصت میں تعلیمی نصاب کی تشکیلِ نو ضروری ہے اور ہر شعبہ اور مضمون کے ساتھ اینٹی کرپشن مواد کا پڑھایا جانا ناگزیر ہے ۔
یاد رہے ! بدعنوانی آسمانی آفت نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اپنی پیداوار ہے ، جب ہم بحیثیت قوم اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، جب ہم سچ اور جھوٹ کا فرق بھول جاتے ہیں ،جب ہم حرام اور حلال کی تمیز بھول جاتے ہیں تو ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا ۔ ہم دولت ، شہرت اور طاقت کے نشے میں دھت ہوجاتے ہیں ، ہم معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں ۔ہم انسانیت کا چہرہ مسخ کر دیتے ہیں ۔پھر ایک دن ایساہوتا ہے کہ ہم اپنے ہی پیدا کردہ خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ہم اپنی ہی پالے ہوئے سانپ کے زہر کا شکار ہوجاتے ہیں ، یہ اسی صورت میں محسوس ہوتا ہے جب ہم خود کسی دوسرے کی کرپشن کا شکارہوتے ہیں ۔
بدعنوانی کے مٹانے کے لیے چند احتیاطی تدبیریں ، تقاضے اور سفارشات کو اگر شعار بنا لیا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ہم معاشرے سے بدعنوانی کا خاتمہ کرنے میں کامران و سرخرو ہوسکتے ہیں۔اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی ذات کو اس جرم سے پاک کریں ۔ اپنے گھر کے افراد کے دلوں میں بدعنوانی کے خلاف نفرت پیدا کریں ۔اپنے گردونواح میں کردار ادا کریں ۔چھوٹی سطح سے بڑی سطح تک اور بڑی سطح سے نچلی سطح تک کہیں بھی بدعنوانی دکھائی دے تو اس کی بھرپور حوصلہ شکنی کریں ۔ اس کے تدارک کے لیے نیت کی سچائی ، خلوص ، استقلال و استقامت اور یقینِ محکم کو بروئے کار لائیں ۔ انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ہر فرد کواپنا مقدور بھر حصہ ڈالنا ناگزیر ہے ، اس ضمن میں ہمیں بدعنوانی کے کسی بھی عنصر کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ہمیں اپنی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کے نصاب میں مستقل بنیادوں پر کرپشن کے نقصانات اور خاتمے کے لیے نصاب اور تربیت کا اہتما م کرنا لازم ہے ۔ ہمیں چند اداروں پر اکتفا کرنے کے بجائے بحیثیت مجموعی اس میں کردار ادا کرنا چاہیے ،جب پوری قوم بدعنوانی کے لیے خلوص ِ دل سے اپنا کردار نبھائے گی تو بقول اقبال ’ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا‘ کے مصداق قوم کے مقدرکا ستارا جگمگا اٹھے گا اور ہماراشمار دنیا کی عظیم ترین قوموں میں ہونا شروع ہوجائے گا ۔
اگر ہم ملک و قوم سے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں چھوٹی سی چھوٹی بدعنوانی کو سنجیدگی سے مٹانے میں ہر پلیٹ فارم ہر اپنا کردار ادا کرناہوگا ۔رشوت خوروں کی بے نقابی سے رشوت کے جہنم بازار کو ٹھنڈا کرنا ہوگا ۔ اقربا پروری اور بے جاطرف داری کا خاتمہ اور سفارش کلچر کو مٹانا ہوگا ۔ اختیارات کا غلط استعمال روکنا ہوگا ۔ملاوٹ ایسے آلودہ عمل کے حامل افراد کو بے نقاب کرنا ہوگا ۔ ناانصافی کے خاتمے کے لیے حکومتوں ، منتخب نمایندوں کے مزاج اور عدالتوں کے نظام کو شفاف بنانا ہوگا ۔ذخیرہ اندوزوں کی توند کی حرص کو مٹاکر ذخیرہ اندوزی کی لعنت کو مٹانا ہوگا ۔ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے سیاست دانوں اوربدعنوان عناصر کی خریدو فروخت کا کالا دھندا ختم کرنا ہوگا ۔ سفارش سے ترقی و تنزل اور تعیناتیوں کے عمل کو روکنا ہوگا ۔سفارش کرنے اور کرانے والوں سے اداروں کو پاک کرنا ہوگا ۔ جنسی تشدد ، سٹریٹ کرائم، ڈکیتی اورچوری کرنے والوں کے لیے باقاعدہ سزائیں مقرر کرنا ہوں گی۔ لاقانونیت کے خاتمہ کے لیے مستحکم بنیادوں پر عوامی اور حکومتی سطح پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ پولیس ،قانون ساز اداروں اور خاص طور پراینٹی کرپشن کے محکمہ کو فعال بناناہوگا ۔
حقیقت مسلمہ ہے کہ بدعنوانی کسی بھی معاشرے یا ملک وقوم کے لیے زہرِقاتل کی طرح مہلک اور خوف ناک ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بدعنوانی کو انسانیت کے لیے ضرررساں سمجھا جائے اور چھوٹی سی چھوٹی سطح کی بدعنوانی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے اور جہاں تک ممکن تمام افراد کو انفرادی و اجتماعی سطح پر اس کے سدباب کے لیے مخلصانہ کردار اداکرنا چاہیے ۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ بدعنوانی کا خاتمہ کسی بھی ملک اور معاشرے کاا ستحکام ہے ۔ اس کے خاتمے میں حقوق العباد اور انسانیت کی بقا کا راز مضمر ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کسی معاشرے یا قوم سے بدعنوانی کا خاتمہ جہادِ اکبرسے کم نہیں ، جس میں انسانوں کی بھلائی اور رب کی رضا کا راز پوشیدہ ہے، لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن کے تدارک کے لیے بلاتاخیر تعلیمی نصاب کے کردار کو محسوس کیا جانا چاہیے اور اسے خصوصیت سے تمام تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ملکی ترقی، انسانی معیار اور بین الاقوامی وقار کے حوالے سے ہم عظمتوں کے اس بلند مقام پر ہوں گے، جس پر دنیا ناز کیا کرتی ہے ، جس پر انسانیت فخرکیا کرتی ہے ۔ احمد ندیم قاسمی کے دلنشیں الفاظ کے ساتھ بارگاہِ رب ذوالجلال میں دعا ہے کہ:
وہ فصلِ گل جسے اندیشہٴ زوال نہ ہو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حسنات غالب راز کے کالمز
-
کورونا وائرس کا پیغام۔۔۔ابنِ آدم کے نام
منگل 14 اپریل 2020
-
جہالت کاوائرس یاکورونا۔۔ مہلک کون ؟
جمعرات 2 اپریل 2020
-
کورونا وائرس اور اللہ والی گلی
جمعرات 26 مارچ 2020
-
درد کی اک چیخ ہے نغمہ کہاں ہے زندگی
منگل 10 مارچ 2020
-
بھیڑیے اور میمنے کی کہانی
بدھ 4 مارچ 2020
-
اُس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
منگل 25 فروری 2020
-
قومی ہیرو
ہفتہ 8 فروری 2020
-
حکومت ،عدالت اور فوج
جمعرات 23 جنوری 2020
حسنات غالب راز کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.