اندھا دھند فائرنگ

ہفتہ 14 دسمبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

پولیس میں بھرتی کااشتہار آیا ،ہر طرف سے امیدواروں کی درخواستیں آنا شروع ہوگئیں۔ ایک نابینے نے شوروغوغا سنا ،لوگوں سے پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ ملک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پولیس میں جوانوں کی بھرتی ہورہی ہے ، لوگ دھڑا دھڑدرخواستیں اور عرضیاں لے کر بھرتی آفس جارہے ہیں ۔اندھے نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور پوچھتا گرتا بھرتی آفس جا پہنچا ۔

اپنی نابینائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر امیدواروں سے پہلے ڈی ایس پی کے پاس پہنچ گیا اور درخواست گزار ہوا :’ جناب والا ! مجھے پولیس میں بھرتی کر لو ،میرا بڑا فائدہ ہوگا۔‘ ڈی ایس پی نے اندھے کا فضائی جائزہ لیا اور حیرت سے پوچھا : ’ بھئی تم نابینا ہو، پولیس میں تمھار اکیا کام ؟ اندھا ڈیلے گھماتے ہوئے کمال اعتماد سے بولا :’ جناب میرا بہت فائدہ ہوگا ،بس خدارا مجھے بھرتی کر لیں۔

(جاری ہے)

‘ ڈی ایس پی بڑبڑایا : ’ مسٹر نابینا! تم پولیس میں کرو گے کیا ،تمھیں کیوں بھرتی کرلیں ؟ ‘ ۔۔۔ اندھا دھند فائرنگ کے لیے ۔۔۔ اندھے نے جواب دیا ۔۔۔خدارا میں بے روزگار ہوں ،اندھا ہوں، ’اندھے کی ڈانگ ‘ دنیا میں ضرب المثل ہے ،جناب ِ والااندھا دھند فائرنگ کے لیے مجھ سے موزوں امیدوار آپ کو نہیں ملے گا ۔
ڈی ایس پی لمحہ بھر کے لیے حیران ہو ا ، پھر اچانک خوش ہوا کہ اس کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا کیوں کہ، جب انسانوں کے ضمیر مردہ ہوجائیں، معاشرے درندگی، وحشت اور بے حیائی سے پراگندہ ہوجائیں ،اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے ،انسانوں کے نام سے جانوروں کو گھن آنے لگے ۔

حرام اور حلال کی تمیز ختم ہوجائے ۔آنکھوں سے حیا کا خاتمہ ہوجائے ، ماں بہن اور بیٹی کا تقدس ختم ہوجائے ۔عدل و انصاف اقربا پروری کے خاکستر میں دفن ہوجائے۔ جھوٹ کا بول بالا ہوجائے، سچ کا سورج مسخ ہوجائے ،جان و مال کا تحفظ نہ رہے ، احساس مٹ جائے، قانون بے بس اور جرم منہ زور ہوجائے ۔ ایک ایسی دنیا ،جہاں لٹیرے اور ڈاکوشتر بے مہار ہوں،جہاں چور چوکیدار، پولیس خاموش تماشائی اور شہری جان و مال کی حفاظت کے لیے جانثاری پر مجبور ہوجائیں، جہاں ہر روز ہزاروں وارداتیں فیشن کی طرح وقوع پذیر ہوں، جہاں غیرت کے نام پر قتل اور تفریح کے نام پر بے حیائی کا دھندا چلے ،جہاں جس کے جی میں جو آئے کرڈالے ،جہاں سرِبازار انسانیت اور شرافت کی قبریں کھودی جائیں ،جہاں بوڑھی عورتوں کو انصاف اور انتقام کے لیے خود بندوقیں تھامنا پڑیں ،جہاں مظلوم ومعصوم زندگیوں کو خودکشی اور خود سوزی میں ٹھنڈک اور سکون محسوس ہونے لگے ،جہاں جرم کی آبیاری ،مجرم کی پاسداری اور انسانیت کے دشمنوں سے رواداری کا موسلا دھار سلسلہ شروع ہو جائے تو لامحالہ کسی اندھے کے لیے اندھا دھند فائرگ کا جواز پیدا ہوجاتا ہے ۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ،ایک ایسا معاشرہ ،جسے دنیا کا مہذب معاشرہ کہا جائے، مگر اسی معاشرے میں مسجدوں ، عبادت گاہوں ، ہسپتالوں، سکولوں کا تقدس پامال کرنے کو برا نہ سمجھا جائے ،جہاں قوم کے مسیحا قاتل کا روپ دھار لیں ،جہاں قانون تراشنے والے قانون شکنی کی آخری حدوں کو پار کر جائیں ، کوئی چاہے تو کسی ہسپتال پردھاوا بول دے یا کسی عبادت گاہ پر چڑھ دوڑے ، کسی مریض کی سانسیں چھین لے یا کسی مسافر کا سامان لوٹ لے ، جو اپنی انا کی ذرا سی توہین کوگناہِ کبیرہ کا نام دے کر پوری انسانیت کو ملیا میٹ کردے ،جہاں درندگی رقصاں اور زندگی لرزاں ہو، جہاں شعبے باغی اور حکومت بے بس ہو ،جہاں شرافت کی دستار بے حیائی کی دسترس میں ہو ،جہاں ایک خدا ، ایک رسول ،ایک قرآن کو ماننے والے باہم بر سرِ پیکار ہوں ۔

جہاں ایک ہی ملت کے فرزند ملک وقوم کے لیے جگ ہنسائی کا باعث ہوں ،جہاں ،پی ایچ ڈی ،ایل ایل بی، ایم بی بی ایس ان پڑھ اور جاہل گنواروں سے کہیں آگے ننگِ ملت ،ننگِ انسانیت کرداروں میں ڈھل جائیں ،ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے مظلوم انسانوں ،بے بس مریضوں کی سانسوں کا خاتمہ کردیں ،جہاں صاحبانِ علم و فضل کے کالے کرتوتوں پر جہالت خندہ زن ہو ،جہاں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں ، جرائم و امراض کی تفتیش اور تشخیص کرنے والوں کے دماغوں میں تکبر اور نخوت کے کیڑے رینگ رہے ہوں۔

 
جہاں کچھ لوگ اپنے آپ کو آسمانی مخلوق قراردیں ،عدالتوں میں ججز کو کرسیاں اور زنانہ کانسٹیبل کو تھپڑ مار ناتمغہ شجاعت جانا جائے ۔جہاں ینگ ڈاکٹرز اور تنگ آمد وکلا انا پرستی کے جھگڑوں سے ملک کا نظام پراگندہ کردیں۔ جہاں اپنی اپنی ڈفلی اوراپنا راگ بج رہا ہو ۔جہاں گالی اور گولی بے لگام ہو ، جہاں جس کے منھ میں جو آئے اگل دے ،جو چاہے جب چاہے قوم کا تقدس پاما ل کر دے۔

جہاں مہذب معاشرے میں اس طرح کی انقلابی ترقی اور تبدیلی وقوع پذیر ہوگی تو اس پر شاعر کا یہ اظہار صادق آئے گا ۔ 
انھے ویکھن سینما ، گنگے گاون ہیر 
لولے پاون لڈیاں ، گنجے کڈھن چیر 
ایک ایسا ملک ،ایک ایسا معاشرہ جہا ں ڈینگی کی خاتمے اور کتوں کی تلافی کی ویکسین کا وجود نہ ہو ،جہاں سگریٹ کے کھوکھے والے سے جنرل سٹور والوں تک کوئی بھی ڈکیتوں اور راہزنوں سے محفوظ نہ ہوں ،جہاں روزانہ کی بنیاد پر مسافر لٹنے لگیں ،جہاں کسی کو کچھ دکھائی نہ دے، آنکھوں والوں کی آنکھ پر بے حسی کا موم جم جائے ۔

جہاں کسی مظلوم کو حق کی آواز اٹھانے پر سربازار نشانِ عبرت بنا دیا جائے ،جہاں دیدہ ٴ بینا کو کسی لاش کی بے حرمتی ،کسی بیٹی کی عصمت دری ، کسی ماں پر اٹھنے والے وڈیروں کے ڈنڈے ،سوٹے ،جوتے تک دکھائی نہ دیں ، جہاں کسی بزرگ شہری کی پگڑی سربازار اچھال دی جائے ، جہاں انصاف صرف وزیروں کی مذمت تک محدود ہوجائے،جہاں چاروں جانب اندھیر نگری اور جنگل کا قانون چھا جائے ، انسان انسانوں کو کھاجائے ، جہاں جنسی تشدد کی نت نئی واردات سماعتوں کو آلودہ کرتی رہے،جہاں زندہ انسانوں سے قبروں تک کی بے حرمتی کو عیب نہ سمجھا جائے، کسی کو کچھ دکھائی نہ دے ، سب آنکھوں والے اندھے ہوجائیں تو ایسے میں کسی کورِ نظر اندھے کی رگ پھڑکے گی ،غیرت جاگے گی ۔

ایسے میں کوئی اندھا جہالت کا بٹیر پکڑنے کا دعوٰی داغے گا ، معاشرے کی ٹیڑھی کھیر کو سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا ، پولیس میں اصلاحات لانے کی کوشش کرے گا ، اندھوں کی بھرتی کو یقینی بنائے گا اور انسانیت کے دشمنوں پر اندھا دھند فائرنگ کرنے پر مجبور ہوجائے گا ۔۔۔۔۔!!!
اللہ ہم سب کا حامی و مددگار ہو !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :