گہری جیبیں اور زردصحافت

ہفتہ 29 مئی 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

کسی بھی ریاست کی عمارت چار ستونوں (Pillars ) پر استوار ہوتی ہے۔ ریاست کے یہ چار اہم ستون پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا ہیں۔ ریاست کے یہ چاروں ستون جس قدر مضبوط ہوں گے ریاست اسی قدر ترقی یافتہ اور پائدار ہوگی۔ بلکل اسی طرح  ان میں سے کسی ایک کی خرابی  پورے ریاستی ڈھانچے میں بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔
ہم ڈیجیٹل دنیا کے باسی ہیں جہاں پوری دنیا ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے یعنی ہم گلوبل ویلیج میں رہ رہے ہیں جہاں ہر طرح کی معلومات باآسانی ہم میں سے ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔

دور جدید میں ریاست کا سب سے اہم اور کلیدی ستون بلا شرکت غیرے میڈیا ہے۔ کیونکہ کسی بهی جگہ پر اپنے نظریات پهیلانے، اپنی سوچ منتقل کرنے اور اپنی آواز پہنچانے کا واحد اور مستند ذریعہ میڈیا ہی ہے. ایسی صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ایک ریاست میڈیا اور journalism کو بخوبی استعمال کرلے تو وہ ریاست پوری دنیا پر نظریاتی حکومت قائم کر سکتی ہے اور دنیا کو اپنے اشاروں پر نچا سکتی ہے.
 لیکن یہی میڈیا اور صحافت ہی کسی ریاست کی اخلاقی و اقتصادی تباہی کا باعث بهی بن سکتی ہے اگراس کو حد سے زیادہ بےلگام چهوڑ دیں یا اسکی لگامیں اغیار کے ہاتھوں میں تھما دی جائیں. میڈیا کے قصیدوں پر مشتمل تفصیلی کالم پھر کبھی لکھا جائے گا آج ہماری توپوں کا رخ ان پر تنقید کی سمت میں ہے تو آئیے صحافت سے جڑی برائیوں سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ اسکے تدارک کی گزارش صحافی برادری اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


شعبہ صحافت سے تعلق رکهنے والے لوگ Yellow journalism یعنی زرد صحافت کی ٹرم سے بخوبی واقف ہیں۔  یہ اصطلاح ایسی صحافت کے لیے استعمال ہوتی آ رہی ہے جس کا مقصد بے تکی اور بے بنیاد خبروں کو مرچ مصالحہ لگا کر اور بڑها چڑها کر بیان کرنا ہوتا ہے. یعنی اس سے مراد ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کو پھیلا کر لوگوں میں سنسنی اور اضطراب پیدا کرنا ہے۔

اور یہ تکنیک جنگ کی سب سے جدید اور خطرناک ترین شکل ہے جسے وارفیئر ایکسپرٹ 6Th جنریشن وار کے نام سے منسوب کر رہے ہیں۔ اس میں میڈیا کا کام  بے معنی، من گهڑت اور بے بنیاد خبروں کو عوام میں صرف مشہوری کی غرض سے پهیلانا اور بلا تصدیق سنی سنائی بات کو عوام میں عام کرنا اور پھر اس خبر کے ذریعے عوام میں ایک ہیجانی یا اضطراب کی صورتحال پیدا کرنا ہے. Yellow journalism کے ساتھ اگر صحافت میں قلم فروشی یعنی لفافے کی قبولیت عام ہوجائے تو یہ میڈیا وار کی اور زیادہ خطرناک صورت حال ہے۔

زرد صحافت کے ساتھ پیسے کے امتزاج  کے لیے حالیہ دنوں میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے Deep Pockets کا لفظ CNN کو انٹرویو دیتے ہوئے استعمال کیا ہے۔ جان لیجیئے کہ یہ پیسے والی زرد صحافت پوری دنیا میں عام ہے۔ کوئی ملک اس سے بچا ہوا نہیں ہے وہ چاہے کوئی  سپر پاور  ہے یا کوئی کشکول تهامے بهکاری کی صورت کهڑا ایک غریب ملک۔  ہر میگزین اور اخبار میں چاہے وہ نیویارک ٹائیمز ہی کیوں نہ ہو آپکو زرد صحافت کا رنگ کسی نہ کسی صورت میں نظر آئے گا۔

میڈیا میں اس زرد صحافت کے استعمال اور 6th جنریشن وار کا دنیا کا حالیہ بڑا اسکینڈل ای یو ڈس انفولیب نے انڈینز کرانیکلز کے نام سے پیش کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح انڈیا جھوٹی میڈیا ٹیمز، فیک میڈیا ہاوسز اور بکاو صحافیوں اور دیگر تنظیموں کو پاکستان کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ یہ اسکینڈل دور جدید کی نظریاتی سبقت کے لیے زردصحافت کے استعمال کی ایک بڑی مثال ہے جس میں تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر انڈیا نے مقاصد کے حصول کہ سر توڑ کوشش کی۔


 اگر ادروں سے شخصیات تک کا سفر طے کریں تو صحافی چاہے ڈیکلن والش ہو، ارناب گوسوامی ہو یا کوئی ہمارے دیس کا معتبر نام  آپکو گہری جیبوں (Deep pocketing) کے کالے دهندے میں ملوث زرد صحافت کرتا ہوا مل ہی جائیگا. ہاں یہ ایک الگ بحث ہے کہ کون Yellow Journalism اور Deep pocketing کو اپنے ملک کی جهوٹی شان و شوکت بنانے کیلیے استعمال کرتا اور کون ملکی عزت کی دهجکیاں اڑانے کی غرض سے لفافہ لینے کی لت میں الجھا ہوا ہے. مگر ایک بات طے ہے کہ جس ملک کا میڈیا ایسے ضمیر فروش اور لفافہ بردار صحافیوں کے کنٹرول میں ہو جن کی لگامیں ریاست مخالف عناصر کے ہاتھ میں ہوں تو وہاں پهر دوسری حالت کے غالب امکانات ہوتے ہیں. یوں جب ایک ریاست کا صحافی اپنی جیبیں بھر کر اپنی ہی ملکی سالمیت اور اپنے ملکی اداروں کے وقار کو من گھڑت الزامات سے داغدار کرنے لگے تو ریاست کا یہی سب سے اہم اور کلیدی ہتھیار اس ریاست اور اس قوم کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔

پھر ملکی سالمیت اور بقا کے لیے ایسی صحافت اور صحافیوں کا بروقت تدارک ریاست کے لیے ایک ناگزیر شرط بن جاتا ہے.
 آئیے اب خالصتا" بات کرتے ہیں پاکستانی میڈیا اور صحافی برادری کی جہاں میڈیا مکمل طور پر آزاد اور صحافی برادری مکمل خودمختار ہے۔ مگر یہاں کا میڈیا اب اس آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اصل کام سے منحرف ہوکر ریاست اور آئین مخالف نظریات کو فروغ دینے کی جانب راغب ہوتا جا رہا ہے اور یہاں لفافی صحافت آئے روز بڑھتی جارہی ہے۔

ملکی وقار اور سالیمت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا چینلز اور صحافی محض اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں عوام میں ڈس اور مس انفارمیشن ( بے بنیاد اور نامکمل معلومات) پھیلانے کے دھندے میں مکمل مگن ہیں ۔ ہمارے ہاں خبر کی تصدیق کیے بغیر اسے سب سے پہلے اور مصالحے لگا کر شائع کرنے کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بعض دفعہ خبر سے جڑے اصل حقائق سے عوام آگاہ ہی نہیں ہوپاتی۔

شاید ذائقہ شناس خطے کے صحافی اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ایشائی خطے میں کوئی شے مصالحہ لگے بغیر نہیں چل سکتی یہاں تک کہ خبر بھی لہذا اگر خبر چلانی ہے تو حقائق دکھاو نہ دکھاو فرق نہیں پڑتا مگر خبر کو مصالحے دار لازمی بنا دو۔ یہاں آپکو ایسے صحافی بھی تھوک کے حساب سے میسر آسکتے ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر کو اغیار کے ہاتهوں چند ڈالرز، پاونڈز یا یوروز کے عوض فروخت کر رکھا ہے اور یہ لوگ پاکستان کی سبکی اور یہاں کے اداروں کی تضحیک میں نمایاں کردار ادا کر کے اپنے آقاوں سے داد اور مال وصول کرنے میں بے حد مصروف ہیں. پاکستانی  میڈیا میں بیٹھے یہ لوگ کوئی بهی ایسی خبر ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے پاکستانی ساکھ کو اقوام عالم میں نقصان نہ پہنچے۔

اگر انکو کچھ دن تک ایسی کوئی خبر نہ میسر آئے جس سے اداروں یا ریاست پر کیچڑ اچالا جاسکے تو یہ فنکار لوگ کوئی ایسا خود ساختہ ڈرامہ رچا لیتے ہیں جس سے اپنے مکروہ جذبات کی تسکین کرسکیں. ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک جانب تو بهارتی یا دیگر ملکوں کا میڈیا اور انکے صحافی ایسے واقعات کو شہ سرخیاں بناتے ہیں جن سے ملک کا اچها امیج باہر جاتا ہے مگر یہاں کا باوا تو آدم ہی نرالا ہے جب پاکستان کا اچها امیج بننے لگتا ہے تو یہ ایسی خبر کی ٹو میں لگ جاتے ہیں جس سے ملکی وقار کو نیچا دکھا سکیں۔

ادارے کی کانٹینٹ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مخصوص چینل یا صحافی کا نام نہیں لیا جاسکتا ورنہ پاکستان میں یہ مرض بہت سے چینلز اور صحافیوں کو لاحق ہے جو محض لفافے کی خاطر کسی نامعلوم اسکرپٹ رائٹر کے ریاست مخالف بیانیہ کی تشہیر میں ذرا دیر نہیں کرتے اور پوری ایمانداری سے دیا گیا ٹاسک نبھاتے ہیں ۔ کئی میڈیا چینلز آزادئ صحافت کی آڑ میں ریاست مخالف ایجنڈا اور ریاست مخالف ایسے نظریات کو پروان چڑھا رہے ہیں جس سے ہمارے عوام بالخصوص آئیندہ نسل کی منفی انداز میں ذہن سازی کے ساتھ ساتھ اہم ریاستی اداروں کے وقار پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔

جان لیں یہ ایسی حرکات بھی زرد صحافت میں گہری جیبیں بھرنے کے بعد ہی کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں زرد صحافت کا کینسر پوری صحافتی برادری کو بری طرح متاثر کیے ہوئے اور اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ مستقبل کے صحافی نوجوانوں میں بھی سرائیت کرکے شعبہ صحافت کے جسم پر ناسور بن کر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوجائے گا۔  اس سے بچاو ایک صورت ہی ممکن ہے کہ پیمرا، وزارت داخلہ اور دیگر میڈیا ریگولیٹری اتھارٹیز کو چاہیے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے قوانین ہنگامی بنیادوں پر نافذ العمل کریں اور اس پر  عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

اگر کوئی میڈیا چینل یا کوئی صحافی ریاست اور اسکے اداروں کے وقار کو من گھڑت الزامات کے ذریعے ٹھیس پہنچانے کی کوشش کرے تو اسکا لائنسس فی الفور منسوخ کرکے اسکے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔   
   دوسری جانب میں اپنے صحافی بهائیوں سے ملتمس ہوں کہ ریاستی وفا کا پیکر بنیں کسی ریاستی ادارے میں کوئی خامی یا کمزوری دیکھیں تو اسے مثبت انداز میں ضرور سب کے سامنے لائیں مگر پاکستان کے وقار کو مجروح کرنے والی زرد صحافت کا حصہ بننے سے گریز کریں۔

  میں صحافی برادری سے درخواست کرتا ہوں کہ میڈیا کو ریاست کا ایک اہم ہتھیار ثابت کرو، ملکی وقار اور ریاستی سالمیت کا کبھی سودا نہ کرو۔ اپنے قلم اپنے الفاظ کو کسی غیر کے سامنے مت بیچو اور خدارا خبر ہمیشہ سچائی پر مبنی ہی پھیلاو ۔ نظریہ پاکستان کی ترویج کو شعبہ صحافت کا مقدس فرض سمجھ کر لوگوں تک عام کرو ۔ میڈیا چینلز پر فحاشی اور پاکستان مخالف نظریات دکھا کر لوگوں میں نفرت پهیلانے اور قومی نظریات سے بیزاری پھیلانے سے گریز کرو. ملک و قوم سے وفا کرو اور تم سب پاکستانی ہو تو پاکستانی ہونے کا حق ادا کرو۔

میں اپنی تحریر کا اختتام اس امید کے ساتھ کررہا ہوں کہ میری گزارشات کو سنجیدگی سے دیکھا، پڑھا اور سمجھا جائے گا اور اس دعا کے ساتھ کہ اللہ پاک ہمارے دیس کو اقوام عالم میں سربلندی عطا فرمائے اور اس میڈیا وار فئیر میں ہمیں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمائے۔
آمین
کچھ لوگ میرے لفظوں سے زخم سیتے ہیں
کچھ کو چبتا ہوں میں نوک کی طرح

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :