امن کا متلاشی افغانستان

پیر 19 جولائی 2021

Hassan Sajid

حسن ساجد

دہائیوں سے مسلط جنگ، بیرونی مداخلت، تباہ شدہ معیشت، زبوں حالی کا شکار انفراسٹرکچر اور غیرسنجیدہ مفاد پرست سیاسی قیادت نے افغانستان کو تھکا کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے احوال بیان کرنے کے لیے میں 1979 کی سوویت یونین کی جنگ کے واقعات لکھوں یا نائن الیون (9/11) کے واقعہ کے بعد جاری ہونیوالے اس طویل جنگ کو زیر بحث لاوں جس نے پوری دنیا کو جغرافیائی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر متاثر کیا ہے۔

  دہائیوں طویل اس خانہ جنگی نے افغانستان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں خانہ جنگی کے باعث گزشتہ بیس برس میں تقریبا 4 ملین افغانیوں کو اپنا وطن اپنی زمین چھوڑ کر قریبی ممالک میں ہجرت کرنا پڑی۔

(جاری ہے)

اعداوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں اڑھائی لاکھ سے زائد جانیں اس خانہ جنگی کی نظر ہوگئیں جس میں کثیر تعداد سویلین آبادی کی تھی جو بنا کسی قصور کے تہ تیغ کردیئے گئے۔

امریکہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق امریکہ افغانستان میں جاری جنگ پر تقریبا ایک ٹریلین ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرچکا ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے کروڑوں ڈالر افغانستان میں جمہوری حکومت کے قیام اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی خرچ کیے مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
اگر ہم افغانستان کے 1979 سے لے کر اب تک کے حالات کا بغور مشاہدہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ محفوظ، خوشحال اور پرامن زندگی افغانی عوام کے لیے ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔

اور اب تو یہ خواب بھی انہیں ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ کیونکہ  جوبائیڈن نے امریکی صدارت کا قلمدان سنبھالتے ہوئے اپنی قوم سے کیے وعدے وفا کرنا شروع کردیے ہیں۔  بائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا وعدہ بھی پورا کردیا ہے جس کے باعث افغانستان میں غیریقینی صورت حال ایک بار پھر سے بڑھ گئی ہے اور افغانستان پر خونی جنگ کے سائے پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔

کیونکہ امریکی انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان اور افغان آرمی کے مابین جھڑپیں جاری ہیں اور جانوں کا ضیاع ایک بار پھر سے طول پکڑ رہا ہے۔
زیادہ قابل تشویش امر یہ ہے کہ اس غیر یقینی صورت حال کو برادر ہمسایہ ممالک کی مدد سے حل کرنے لیے موجودہ افغان حکومت بلکل بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ افغانستان کی سیاسی قیادت قیام امن کی کوشش کرنے سے زیادہ ذاتی مفادات کے تحفظ میں مگن ہے۔

برسراقتدار طبقہ ایک بیرونی طاقت کے انخلاء کے بعد دوسری طاقت کے ہاتھوں یرغمال محض اس غرض سے بن رہا ہے کہ انکی کرسی اور ان کا اقتدار سلامت رہے۔  اب جب کہ افغان حکومت اپنی عوام سے مخلص نہیں اور نہ ہی وہ جنگ بندی یا قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے تو ایسی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ افغان عوام کو خود کرنا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں یا وہ آئیندہ نسلیں بھی جنگ میں جھونکنے کے خواہاں ہیں۔

افغانستان کی عوام پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جانی چاہیے کہ جب امریکی افواج اپنا بیش قیمت سامان چھوڑ کر بھاگ جانے میں عافیت سمجھ رہیں ہیں تو قیام امن کی کوئی بیرونی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک جنگ بندی کے لیے اندرونی طور پر کوشش نہ ہوگی۔ یعنی اب افغانستان میں قیام امن کی وہی کوشش کامیاب ہوگی جو افغان قوم کی جانب سے ہوگی۔

اغیار کی مدد کے تحت امن قائم کرنے کی امید پر افغانستان نے اپنی کم از کم تین نسلیں خانہ جنگی کی نظر کردی ہیں لہذا اب انہیں چاہیے کہ غیر ملکی امداد اور بیرونی تعاون سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت قیام امن کی سنجیدہ کوشش کریں۔
قیام امن کی خاطر کوشش کی ذمہ داری جہاں افغان عوام پر عائد ہوتی ہے وہیں ہیومن رائٹس اور انسانی ہمدردی کے ناطے عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طویل جنگ و جدل سے تھکا ہارا افغانستان اب آرام و سکون اور امن چاہتا ہے۔

برادر ہمسایہ ممالک (پاکستان اور ایران) اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ اب اس بات کو محسوس کریں کہ افغانستان کے لوگ بھی اپنے وطن میں خوش و خرم اور خوشحال زندگی بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بااثر عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کو باہمی اشتراک اور تفصیلی گفت و شنید کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ سے افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے تعمیری اور مثبت کردار ادا کیا ہے  مگر اس بار پہلے کی نسبت زیادہ متحرک کاوشوں کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ چین، ایران اور دیگر ایشیائی ممالک کے باہمی تعاون اور اشتراک سے اس پیدہ شدہ صورت حال میں قیمتی جانوں کے ضیاع اور معاشی و معاشرتی نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے متحرک، مثبت اور تعمیری کردار ادا کرے۔   اب ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے راقم الحروف پاکستانی قیادت اور  ارباب اختیار قوتوں سے اپیل کرتا ہے کہ افغانستان  کو ایک بار پھر سے میدان جنگ بننے کے بچایا جائے۔ کیونکہ امن کا متلاشی اور حالات کا مارا۔۔۔۔۔
"افغانستان اب امن چاہتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :