شیطانی مجسمے

جمعرات 24 جنوری 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

زیست کے کینوس پر ہم نے اپنے من چاہے رنگ اتنے عجیب ڈھنگ کے ساتھ بکھیر دیے ہیں کہ ہم سطحی باتوں پر ریجھ بیٹھتے ہیں اور کن اکھیوں سے بھی زندگی کی حقیقی سندرتا کی جانب دھیان نہیں دیتے، میں بھی کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا مگر لاہور کے عجائب گھر میں 12 فٹ طویل شیطانی مجسمہ گاڑ دیا گیا۔ شاید میوزیم کی انتظامیہ اس بات سے بالکل ہی بے خبر تھی کہ انتہائی حساس نظریاتی اساس پر ذرا بھی آنچ اور خراش ہمیں اداس کر جاتی ہے، ممکن ہے عجائب گھر کے اہل حل و عقد کو پتا ہی نہ ہو کہ یہ قوم تو سرے سے بتوں کو گوارا ہی نہیں کرتی ایسے شیطانی مجسمے کو کیوں کر اپنی مملکت میں برداشت کر سکتی ہے۔


یہ ساہیوال ہے یہاں ایک گلشن مکمل طور پر اجاڑ دیا گیا۔ ایک کھلکھلاتا گھرانہ بالکل ہی اجاڑ خانہ اور ویرانہ بنا دیا گیا۔

(جاری ہے)

قہر برساتے لمحات میں عمیر خلیل اور دو معصوم بچیوں کی خوف زدہ آنکھوں نے مدینہ بننے جانے والی ریاست میں اپنے پاپا کو پانچ اپنی ماما کو تین اپنی بہن اریبہ کو چھ اور ذیشان کو پانچ گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا ہے۔

ان معصوم بچوں کے بھاگ ایسے پھوٹے کہ ان کے چہروں پر ان کے ماں باپ کے خون کے چھینٹے بکھرے تھے خون کی پیاسی پولیس کے وحشی جوان اب ان معصوم پریوں کے آنسوؤں کا گلا بھی دبا رہے ہیں۔ اب طرح طرح کے جھوٹ تراش کر ان بچیوں کی سسکیوں کا ٹیٹو ابھی دبایا جا رہا ہے۔ ان غم سے نڈھال ننھی آنکھوں نے اپنی دادی کو بھی مرتے دیکھا ہے۔ پولیس کے موجودہ مکروہ کردار کو دیکھ کر یہی خیال جسم و جاں پر حاوی ہے کہ کوئی امید، کوئی لگن اور کوئی جنون پولیس کے پتھریلے دل کو موم نہیں کر سکتا۔

بچوں کے اجڑے پجڑے چہروں پر کرب اور ملال دیکھا نہیں جاتا۔ طاقت کے خمار میں مبتلا پولیس کو کیا خبر کہ انسانی جانوں کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے؟ سنگلاخ دل پولیس اہل کاروں کو کیا پتا کہ معصوم بچوں کی یتیمی کے کرب کا احساس کس قدر گھائل کر جاتا ہے۔ کیا 13 سالہ اریبہ بھی داعش کی تربیت یافتہ دہشت گرد تھی؟
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں پڑے ہیں برف سے بچے
فواد چودھری کہتا ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کا موقف غلط ہوا تو انہیں نشان عبرت بنا دوں گا سوال یہ ہے کہ پولیس کا موقف آخر ہے کیا؟ یہی کہ مقتولوں کا تعلق داعش کے ساتھ تھا، کیا پولیس کو اپنا موقف عدالت میں ثابت کرنا چاہیے تھا یا خود ہی انہیں گولیوں سے بھون دینا چاہیے تھا؟ آج جس طرح پولیس کے متعلق تحقیق و تفتیش اور معاملے کی چھان پھٹک کی جا رہی ہے کیا بعینہ ان مقتولوں کو بھی زندہ گرفتار کر کے عدالتی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے تھیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جنہیں جرائم کا خاتمہ کرنا تھا وہ خود ہی بھیانک جرائم میں مبتلا ہیں۔

یہ تو صرف پولیس کے ہی بوسیدہ کردار کی ایک خفیف بلکہ نحیف سی جھلک ہے۔ آئیے! معاشرے میں پلتے کچھ مزید اندوہناک جرائم پر بھی غور کریں۔ اکتوبر 2018ء میں لاہور کے قائداعظم انڈسٹریل ایریا میں جائیداد کے لالچ میں بیٹے نے اپنے 45 سالہ باپ اور 70 سالہ دادی کو قتل کر ڈالا۔ فیصل آباد میں جائیداد کے تنازع پر ایک بھائی نے اپنی دو بہنوں کو فائرنگ کر کے قتل کر ڈالا۔

چارسدہ میں بیٹا نہ ہونے پر سفاک شوہر نے اپنی بیوی اور بیٹی قتل کر ڈالی۔ ہارون آباد میں ایک شخص نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے منہ پر کپڑا ڈال کر سانس روک کر مار ڈالا۔ زندگی کی رعنائیوں پر اتنی سلوٹیں پڑی ہیں کہ پولیس کا وہ ادارہ جسے جرائم کی بیخ کنی کرنی تھی۔ سے لے کر عام شخص تک جرائم کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔
ہمیں لاہور کے عجائب گھر میں کھڑا شیطانی مجسمہ تو دکھائی دیتا ہے مگر اپنے اپنے دل کے مضافات میں ایستادہ شیطانی بت کھڑے دکھائی نہیں دیتے، ہمیں لاہور کے میوزیم میں شیطانی بت تو گوارا نہیں ہوتا مگر اپنے اندر وہ شیطانی بت کھڑا دکھائی نہیں دیتا جو ہمیں ہر روز بھیانک جرائم پر اکساتا ہے۔

یقینا ہم میں سے ہر شخص قاتل اور مجرم نہیں ہے مگر ہم اپنے اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں تو ہر شخص کے دل میں کسی نہ کسی کے لیے نفرت، حسد، عناد اور بغض کے طوفان اٹھتے واضح دکھائی دیں گے۔ ہمارے اندر کا شیطان ہمارے کتنے ہی اجلے رشتوں کو دھندلا چکا، ہمارے اندر کا ابلیسی مجسمہ کتنی ہی محبت آمیز حلاوتوں کو پامال کر چکا مگر ہمیں فقط لاہور عجائب گھر کا ہی مجسمہ دکھائی دیتا ہے۔

یقینا لاہور کے عجائب گھر میں کوئی شیطانی بت نہیں ہونا چاہیے مگر ہمارے من میں بھی کوئی شیطانی مجسمہ بہ درجہ اولیٰ نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ ہمارے اندر پلے بڑھے ہٹے کٹے شیطانی مجسمے لاہور کے عجائب گھر میں کھڑے شیطانی بتوں سے کہیں زیادہ خطرناک اور نقصان دہ ہیں۔ عجائب گھر کا مجسمہ تو اتار دیا گیا مگر ہمارے اندر کے شیطانی مجسمے کو ہم نے خود جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔

البتہ اگر عمران خان نے ساہیوال پولیس کے شیطانی کرداروں کو سزا نہ دی اور پولیس کے محکمے سے بھیانک شیطانی مجسموں کو نہیں نکالا تو عمران خان کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر لب کشائی کرے یا ”تبدیلی آئی رے“ کا کوئی مژدہ اس قوم کو سنائے۔
اٹھیے غریب شہر کا لاشہ اٹھائیے
اٹھتی نہیں یہ خاک خدارا اٹھائیے
دفنا کے ایک لاش بہت مطمئن ہیں آپ
اک اور آ گئی ہے دوبارہ اٹھائیے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :