ہجروفراق کا استعارہ دسمبر اور مشرقی پاکستان

جمعہ 20 دسمبر 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

ہجر کے مارے اور فراق کے ستائے لوگوں کے لیے دسمبر کا مہینا ایک استعارہ بن چکا ہے کہ جن کی زندگیوں میں وصال والتفات کا کوئی لمحہ رہا نہ امکان، اُن ستم زدہ لوگوں کے احساسات میں دسمبر دردِ ہجر کو جگا دیتا ہے۔دسمبر کے آتے ہی ان اجڑے دلوں میں یادوں کی نوکیلی کسک خود بہ خود اُگنے لگتی ہے۔ایسے میں کرب اور سِوا ہونے لگتا ہے اور ماضی کی دل نشیں اور سرمگیں ساعتیں ستانے لگتی ہیں۔

بالآخر گم گشتہ لوگوں کو کھوجتے اور تلاشتے دسمبر گزر جاتا ہے۔
 وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
 بس اتنا یاد ہے کہ تھا دسمبر
وطن کی محبت ان سب محبتوں سے زیادہ نزہت، پاکیزگی اور جذبوں کی نفاست اور لطافت میں گُندھی ہوتی ہے۔دسمبر کے مہینے میں، وطن کے ایک حصّے اور قوم کے ایک جسد کو کاٹ کر رکھ دینا اور اُس ایک حصّے پر ایسے گھناؤنے لوگوں کو بہ طورِ حکمران مسلّط کر دینا کہ جو ہمارے متعلق اپنے دلوں میں مخاصمت کے الاؤ دہکائے بیٹھے ہیں، ایک ایسا گھاؤ ہے کہ دسمبر لگتے ہی جس کے زخموں میں درد ابلنے لگتا ہے۔

(جاری ہے)

اتنا گہرا زخم ہمارے تن بدن پر لگا دینے والوں کے ساتھ آج دوستی اور محبت کے رشتے استوار کرنے کی گلے پھاڑ کر صدائیں لگانے والے ہر شخص کو میں غدارِ وطن سمجھتا ہوں۔مانا کہ کچھ پاکستانی سیاست دان بھی اس بھیانک کھیل کو مکمل کرنے میں اپنے فن کارانہ اور غدارانہ کردار کے ساتھ موجود تھے مگر اس کا اصل ہدایت کار بھارت تھا، جس نے ہمیں دولخت کر کے رکھ دیا۔

پاکستان کے وہ تمام سیاست دان جو بھارت کے ہاتھ کی کٹھ پُتلی بنے وہ ہمیشہ ننگِ آدم، ننگِ دیں اور ننگِ وطن ہی سمجھے جائیں گے۔بھارت ازل ہی سے پاکستان کے متعلق عنادوفساد کے خونیں کھیل کھیلنے میں مصروف ہے۔16 دسمبر 1971 کو اندرا گاندھی نے علی الاعلان کہا کہ”آج ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلا لے لیا اور نظریہ ء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا“ لیکن نظریہ ء پاکستان تو آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک بھارت کی چھاتی پر مونگ دَلتا رہے گا(ان شاء اللہ) مگر معلوم نہیں ہمارے وجود کے دو حصّے ہمیں کب تک صعوبتوں کے باعث آزار اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا رکھیں گے؟ 
پاکستان توڑنے کا اعتراف صرف اندرا گاندھی نے ہی نہیں کیا بلکہ بنگلہ دیش میں ایک تقریب کے دوران مودی بھی تسلیم کر چکا ہے کہ 1971 میں بھارت نے ہی پاکستان کو دولخت کیا۔

اس کام کے لیے مکتی باہنی کی بھرپور مدد کی گئی تھی۔”جنگ نہ ہونے دیں گے“جیسی کویتا سنانے والے اٹل بہاری واجپائی نے بنگلہ دیش کے قیام میں مذموم کردار ادا کیا۔سو اُسے بنگلہ دیش وار آنر سے نوازا گیا، 16 دسمبر 2009 کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے بھی واضح اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ 1969 میں لندن میں اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی”را“ کے اعلی افسروں کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمتِ عملی طے کی۔

بھارتی حکمران آج پاکستان توڑنے کا اعتراف ہی نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں۔وہ اپنے اس کارنامے پر خوب چھاتی چوڑی کرتے ہیں۔اُس کے آرمی افسران اس کامیابی کا سہرا اپنے منہ پر سجانے کی کوششیں کرتے ہیں۔بھارتی لیفٹیننٹ جنرل جے ایف جیکب، 1971 کی جنگ کے دوران میجر جنرل تھا اور بھارتی فوج کا مشرقی کمانڈ کا چیف آف سٹاف تھا۔

1971 میں جنرل جیکب نے”سرینڈر ایٹ ڈھاکہ، برتھ آف اے نیشن“ کے عنوان سے کتاب لکھی اور پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش کے قیام کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کی کوشش کی، جس کے جواب میں میجر جنرل کلدیپ سنگھ نے جوابی کتاب لکھ ماری جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ یہ کریڈٹ جیکب کا نہیں، فیلڈ مارشل مانک شا اور جنرل اروڑا کو جاتا ہے۔یعنی جس بھارتی حکمران یا آفیسر نے پاکستان توڑنے میں ایک فی صد بھی کردار ادا کیا وہ اس پر فخر کرنا ناگزیر سمجھتا ہے۔

سانحہ ء مشرقی پاکستان کے تمام پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور ایکٹرز کے نام آج کسی سے ڈھکے چُھپے نہیں ہیں مگر ہم المیوں میں گھری قوم ہیں سو ایک المیہ یہ بھی ہے کہ آج تک ان تمام مجرموں کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مجرم کے طور پر اجاگر نہ کیا گیا۔اگرچہ اس؛ خونیں کھیل کے تمام کردار اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے۔شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیش بننے کے بعد بنگالیوں نے مار ڈالا۔

اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو سکھوں نے قتل کر دیا اور وہ پاکستانی سیاست دان جو پاکستان توڑنے کے جرم میں شریک تھے، وہ بھی بھیانک انجام سے دوچار ہو چکے۔مگر اُن تمام ناموں اور کرداروں کو قومی مجرم آج تک قرار نہ دیا جا سکا۔اس حقیقت میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس سانحے کا اصل مجرم بھارت ہے مگر اس کے باوجود بھارت کے ساتھ پیار، محبت اور دوستی کے لیے جتن پر جتن کیے جا چکے ہیں۔

وہ دسمبر کی یخ بستہ راتیں تھیں، جب مشرقی پاکستان کے ہمارے بھائی، بہنوں کو ہم سے جدا کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ہجروفراق کی جان کاہ راتیں گزارتے ہمیں 48 سال بیت چلے مگر وصال کا کوئی لمحہ، امکانات کی دسترس میں نہیں۔ہجروفراق کی علامت بنے دسمبرکی ٹھٹھرتی راتوں میں ہم اپنے دل پر لگے چرکے کو یاد کر کے حالات کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔
 ہم ازالہ نہ کر سکے جن کا
 لوگ ایسے بھی ہم نے کھوئے ہیں
کتنے ہی سال بیت چلے کہ ہم ہر سال دسمبر میں اس سانحے کی نوحہ خوانی اور اشک فشانی کر کے سمجھتے ہیں کہ بس لفظوں کے ذریعے آنسو بہا کر ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔

یہ تو ہمارے زخموں اور محرومیوں کا ازالہ نہیں۔محض اس طرح کی سینہ کوبی کرنے سے تو ہمارے کرب کا مغموم ڈھنگ، طرب کے شوخ وچنچل رنگ میں نہیں ڈھل سکتا۔
یقیناً اب بنگلہ دیش کے دوبارہ پاکستان میں شامل ہونے کے امکانات دُور دُور تک نہیں مگر ہم دو قومی نظریے کو بھارت میں پھر سے ایک نئی روح کے طور پر پھونک کر بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک نیا پاکستان بنانے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کر سکتے ہیں۔

جب بھارت 48 سالوں سے یہ تسلیم کرتا آ رہا ہے کہ پاکستان کو ہم نے توڑا تو ہم بھارتی مسلمانوں کے لیے نیا پاکستان اور سِکھوں کے لیے خالصتان بنانے کے لیے کمر بستہ کیوں نہیں ہو سکتے؟ بھارتی ہندوؤں کے ظلم وجبر سہتے بھارتی مسلمان اور سِکھ تو اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ کہ اُن کے لیے الگ وطن بنا کر نہ صرف بھارت کے جبروظلم سے آزاد کروایا جائے بلکہ سانحہ ء مشرقی پاکستان کا بدلا بھی چکایا جائے۔اگر دسمبر کی کُہر آلود شاموں میں ہماری بصیرت اور فراست پر اوس نہیں پڑی تو ہم ایسا کر سکتے ہیں۔پھر نہ صرف مشرقی پاکستان بلکہ بھارتی مسلمانوں کے ہجروفراق کے طویل لمحات بھی وصال میں بدل جائیں گے۔(ان شاء اللہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :