تو پھر اس شال کے اوپر ستارے میں بناؤں گا

جمعرات 2 اپریل 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

سبھی اک دوسرے سے چُھپ رہے ہیں
وبا بستی میں ایسی آ گئی ہے
یہ سارا عالَمِ رنگ وبُو وحشتوں سے اَٹ چکا ہے۔خوف اور ہراس اپنے دانتوں کو کٹکٹاتے ہر شخص کو نگل جانے کے در پَے ہیں۔صحنِ گلشن کی گنجان گلیاں، سنسان دکھائی دیتی ہیں۔بے بس انسان کے اوسان خطا ہو چکے۔ایک نادیدہ مخلوق نے انسان کے قلب ونظر اور ہواس کو مختل کر کے گھروں میں مقفّل ہو جانے پر مجبور کر دیا ہے۔

ساری خلقت کے پاس جلوت ترک کر کے، خلوت اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ ء کار بھی تو نہیں بچا۔
گھوم پِھر کے نہ قتلِ عام کرے
جو جہاں ہے وہیں قیام کرے
دنیا اس قدر سنّاٹے میں ہے کہ انسان اپنے چہیتے اور پیارے لوگوں سے بھی ہاتھ ملانے کو ترس گیا ہے۔

(جاری ہے)

فاصلے اتنی مہیب شکل اختیار چکے ہیں کہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے ہی چہروں کو چُھونے سے بھی گریز پائی برتنے لگا ہے۔

وہ جو اپنے جسم پر اپنی مرضی جیسے مکروہ نعرے لے کر غل غپاڑے کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے، آج کونوں کھدروں میں دبکے بیٹھے ہیں اس لیے کہ
جب خزاں آئے تو پتّے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے
وہ ممالک جنھوں نے سب سے پہلے عورتوں کے برقعے کھینچے اور نقاب نوچے، آج اُن کی عورتیں حتی کہ مرد بھی نقاب لگائے پھرتے ہیں۔

ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی وہ اداکارائیں جو عریانی کی ہر حد کو پھاند لینا چاہتی تھیں، آج بہ صد شوق اپنے پورے بدن کو ڈھانپے اور منہ پر ماسک چڑھائے پھرتی ہیں۔سنی لیون جیسی اداکارہ بھی تن ڈھانپے اور منہ چُھپائے پھرتی ہے۔قدرت نے اس کرہ ء ارض کے باسیوں کی سوچ کا پانسا ایسا پلٹ کر رکھ دیا ہے کہ سہمی سمٹی نسلِ انسانی آج آسمان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر ربّ کی رحمت کے لیے ملتجی اور ملتمس دکھائی دیتی ہے۔

انسان کی تمام تر شوریدہ سری اور پھوں پھاں، عاجزی اور انکساری میں ڈھل چکی۔لوگوں کی ساری بغاوت اب عبادت کا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے۔اٹلی کا وزیر اعظم اور امریکا کا صدر بھی صرف ایک اللہ کی جناب میں یومِ دعا منانے پر مجبور ہیں۔یہی بات تو اللہ نے سورہ آلِ عمران کی آیت 150 میں ارشاد فرمائی ہے کہ
”بلکہ اللہ تمھارا مددگار ہے اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے“
حکومتی اقدام قابلِ تحسین اور عوام الناس کی غایت درجے کی غیر سنجیدہ طبیعت قابلِ تشویش ہے۔

اگر کچھ لوگ یوں ہی چکنے گھڑے بنے رہے تو پھر اِن بے اعتبار موسموں اور مہلک رُتوں کو کس طرح مات دی جا سکے گی؟ میں مانتا ہوں کہ دیہاڑی دار طبقے کے لیے گھر میں مقیّد ہو جانا انتہائی دشوار ہے مگر طوعاً او کرہاً ان کڑے اور جاں گسل لمحات کو برداشت کر لینا ناگزیر ہو چکا ہے کہ یہی اس بیماری کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔
 دشمنِ جاں کا مات کر لیجیے
چار دن احتیاط کر لیجیے
اپنے گھر کے حسیں مکینوں کو
اپنی کُل کائنات کر لیجیے
اپنے خالق کے ساتھ سرکشی اور بغاوت کے لیے مخلوق نے کوئی لمحہ بھی تو خالی نہ جانے دیا۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ شاید ہم دھتکارے ہوئے لوگ ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کہ وہ خدا جس نے حضرت موسی علیہ السّلام کو پانی سے بہ حفاظت گزار دیا، وہی اللہ جس نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لیے آگ کو گل و گل زار بنا دیا، وہی ربّ جس نے مچھلی کے پیٹ سے حضرت یونس علیہ السّلام کو زندہ سلامت نکال لیا، وہ آج بھی سسکتی تڑپتی انسانیت کو بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔

جی ہاں! اللہ کی رحمتیں اتنی وسیع اور فراخ ہیں کہ انسان تصوّر تک نہیں کر سکتا۔صرف احساسِ ندامت کے حُسن میں لپٹے چند آنسوؤں کو دیکھ کر اللہ نہ صرف گناہوں کو معاف کر دیتا ہے بلکہ انھیں نیکیوں میں بدل ڈالتا ہے۔
آئیں! آج ہمارے طنطنے کی ساری طنابیں کھینچ لینے والے اس تیور بدلتے ماحول سے سبق سیکھیں۔سوچ اور فکر کے وہ زاویے جو بالکل ہی مدھم پڑ چکے ہیں ان میں خوفِ خدا پر مشتمل فہم وفراست کے دیپ جلائیں۔

تنہائی میسّر آ ہی گئی ہے تو کیوں نا اپنے اُن عصیاں کو یاد کر کے آنکھیں اشکوں سے تر کر لیں جو ہمارے نِسیان سے بھی محو ہو چکے ہیں۔آئیں! اپنے خالق کی محبت اپنے اوپر اوڑھ لیں۔نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور تابع فرمانی کی چادر اپنے کرداروعمل پر تان لیں اور گِڑگِڑا کر اللہ سے دعا کریں کہ اے اللہ! سب کچھ تیرا ہی ہے اور مرضی بھی فقط تیری ہی ہے۔یقیناً اللہ ہمیں کڑی آزمایشوں کے گرداب سے نکال لے گا، پھر اللہ اپنی محبت کی اس چادر پر ستارے اور کہکشاں لگا کر نور کا ہالہ بنا دے گا ان شائاللہ!
اگر تم فیصلہ کر لو محبت اوڑھ لینے کا
تو پھر اس شال کے اوپر ستارے میں بناؤں گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :