کشمیر آج بھی فریاد کناں ہے

جمعہ 31 جولائی 2020

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

معلوم نہیں اہلِ کشمیر محبتوں کے کس لمس اور لذّت سے آشنا ہیں کہ گولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہماری چاہتوں کا بہ بانگِ دہل اعتراف اور اقرار کرتے ہیں۔نہ جانے ان کے دلوں میں ہماری چاہتوں کے کیسے دیپ روشن ہیں کہ ہماری محبتوں میں وہ اپنی جانوں تک کی پروا نہیں کرتے، خبر نہیں اس جنون اور دیوانگی کا ادراک ہمارے احبابِ بست وکشاد کب کر پائیں گے؟ پتا نہیں ہمارا شعور کب اْن عقیدتوں کی سچائی اور گہرائی کو سمجھ پائے گا؟ ہم کشمیریوں کی بے پایاں محبتوں پر کبھی کبھی ہلکی سی جْھرجْھری لے کر سمجھتے ہیں کہ شاید اس محبت کا حق ادا ہو گیا۔

اگر مقبوضہ کشمیر ہماری معاشی، علاقائی اور آبی ضرورت نہ ہوتا تو شاید ہم اْن بے کراں جذبات کے جواب میں موجودہ پھسپھسا اور بودا موقف اختیار کرنے کا تکلّف بھی نہ کرتے۔

(جاری ہے)

مسئلہ ء کشمیر کے متعلق ہمارے سرد رویّے کب ختم ہوں گے، اس کا کوئی اتا پتا ہے ہی نہیں۔

دل سلگتا ہے ترے سرد رویّے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
مودی مقبوضہ وادی میں انتہائی چالاک اور چلتّر باز بنا ہوا ہے جب کہ چین کے سامنے کھسیانی بلّی کی طرح کھمبا نوچنے مجبور ہے۔

جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات سے کم کبھی نہیں ہوا کرتی۔72 سال بیت چلے کشمیر آگ اور خون میں سلگ رہا ہے۔ہماری نحیف ونزار پالیسیوں کے باعث آج تک بھارت کے کان پر جْوں تو کیا کسی لیکھ نے بھی خارش تک نہیں کی۔یہ تو کشمیریوں کی جنوں خیز اور ولولہ انگیز جدوجہد ہے کہ وہ تحریکِ آزادی کو فروزاں اور پاکستان کی محبت کو تابندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ایمان کی چاشنی اور عقیدتوں کی تابانی میں گْندھے ایسے مناظر ساری دنیا دیکھتی رہتی ہے جو سری نگر کے چوک میں بپا ہوتے ہیں۔

ساڑھے آٹھ لاکھ فوج کے حصار میں ہزاروں نہتّے کشمیری لوگ، پاکستان کا سبزہلالی پرچم اٹھائے یہ نعرے لگاتے ہیں... تیری جان میری جان... پاکستان پاکستان، تیرا میرا کیا اعلان... کشمیر بنے گا پاکستان۔یہ عجب تلاطم خیز محبت ہے کہ پاکستان کے لیے نعرے کشمیریوں کے دلوں، زبانوں اور آنکھوں سے نکلتے ہیں۔کشمیر کے اہلِ وفا اور اہلِ جنوں، موت کے مہیب ماحول میں بھی پاکستانی پرچم لہرانے سے نہیں گھبراتے اور ایک ہمارے حکمران ہیں جو آزاد فضاوٴں اور ایٹمی طاقت سے لیس ہونے کے باوجود بھی اْس محبت کا جواب اتنی آب وتاب سے دینے کے لیے ہمیشہ ہی کَنّی کتراتے رہے ہیں، جس کے اہلِ کشمیر متقاضی ہیں۔

میرے ذہن سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم کا یہ بیان آج تک محو نہیں ہو پایا کہ”بھارت کشمیریوں سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ اس کے وفادار رہیں کیوں کہ کشمیر ایک” متنازع“ علاقہ ہے “کشمیر ایک” متنازع“ علاقہ ہے کے جملے کو اپنے اذہان میں محفوظ رکھ کر اْس وقت کے بھارتی وزیرِ خارجہ راج ناتھ سنگھ کے بیان پر بھی طائرانہ نظر ڈال لیں کہ اْس نے سری نگر میں پاکستان کے حق میں گونجنے والے نعروں پر یہ تبصرہ کیا تھا کہ” بھارتی سرزمین پر پاکستان زندہ باد کے نعرے برداشت نہیں کریں گے“ہماری وزارتِ خارجہ کی ترجمان مقبوضہ کشمیر کو” متنازع “علاقہ کہتی رہی ہے جب کہ بھارتی وزیرِ خارجہ اسے بھارتی سرزمین باور کرواتا رہا ہے۔

جب بھارت، مقبوضہ کشمیر کو اپنی سرزمین کہتا ہے تو ہمیں بھی اسے متنازع کہنے کی بجائے اپنا علاقہ کہنا چاہیے۔کوئی تیسرا فریق اسے متنازع کہے تو بات دل کو لگتی ہے، ہم خود کیوں اسے متنازع علاقہ کہ کر اپنے موقف کو کمزور کرتے رہے ہیں؟ کم از کم کشمیری حسب ونسب کے حامل سابق وزیرِ اعظم کو تو سری نگر چوک میں” پاکستان زندہ باد“ کے نعرے سن کر خوشی سے پْھول جانا چاہیے تھا مگر ایسا کوئی ردّعمل کبھی نہیں دیکھنے میں آیا۔

کشمیریوں سے بے وفائی اور بے اعتنائی کا ایک تسلسل ہے جو کبھی کم نہیں ہوا۔آج تو کشمیر کا مسئلہ ہی قصّہ ء پارینہ بنتا نظر آ رہا ہے کہ عملی طور پر موجودہ حکومت کی مسئلہ ء کشمیر میں کچھ بھی دل چسپی نظر نہیں آ رہی۔سری نگر چوک میں گونجنے والے نعرے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سبھی کو سنائی دیتے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کے متعلق گونگی بہری اقوامِ متحدہ نے آج تک کشمیریوں کے زخموں پر پر کوئی ایک پھاہا یا مرہم تک رکھنے کی کوشش نہ کی۔

مودی، کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کو اندر اور باہر دونوں طرح کی مار دے رہا ہے۔اگر ہمارے سیاست دانوں کی یادداشت کھو نہیں گئی تو یاد کیجیے وہ منظر جب مسرّت عالم کو سری نگر سے گرفتار کیا گیا تھا اور اس پر بدامنی پھیلانے، پولیس کے خلاف نوجوانوں اکسانے اور امن وامان میں رخنہ ڈالنے والے الزامات عائد کر کے مقدمات درج کیے گئے تھے اور پھر جب اْس پر کوئی بھی الزام سچ ثابت نہ ہوا تو مسرّت عالم کی پاکستان کے ساتھ وارفتگی دیکھیے کہ رِہا ہوتے ہی پاکستان کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دیے تھے۔

ہمارے بڑے بڑے سیاسی بْرج اور پہلوان، کشمیریوں کے درد کو کیا سمجھیں گے کہ یہ لوگ تو کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدتوں ہی کو سمجھنے سے جان بوجھ کر جان چھڑوائے بیٹھے ہیں۔خبر نہیں یہ سیاسی بازی گر کب تک کشمیریوں کے جذبات واحساسات اور اْن کے زخموں سے بْکّل مار کر دبک کر بیٹھے رہیں گے؟ آخر کب تک یہ سیاسی مداری کشمیر کے متعلق شرمائی اور لجائی پالیسیوں پر گامزن رہیں گے؟ کشمیر کے مسئلے کے متعلق چْپ سادھ کر بیٹھنے والے تمام سیاسی بزرجمہر سن لیں کہ یہ صرف کشمیریوں ہی کی آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور خوش حالی کا بھی مسئلہ ہے۔

کتنی ہی حکومتیں آئیں مگر کشمیریوں کے درد کبھی کم نہ ہو سکے۔سنو! کشمیر آج بھی یوں فریاد کناں ہے۔
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے، مگر
درد کے موسم سہانے تھے، سہانے ہی رہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :