عوام بنام خان

منگل 6 اکتوبر 2020

Humayun Shahid

ہمایوں شاہد

پیارے عمران خان آج کے دن 5 اکتوبر 1952 کو آپ نے شہر لاہور میں پشتون خاندان کے اندر اکرام ﷲ خان نیازی کے گھر آنکھ کھولی. عمران خان آپ کی شخصیت شروع ہی سے پرکشش تھی. آپ نے ہمیشہ اپنی ماں شوکت خانم سے پیار بٹورا اور آپ نے بھی ان کے نام سے کارخیر کرکے اس پیار کا حق ادا کیا. شائد اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ ان کے اکلوتے بیٹے بھی تھے.

خیر یہ بات سچ ہے کہ آپ بچپن اور نوجوانی ہی سے لوگوں کا پیار بٹور رہے ہیں. بیشک وہ کرکٹ کا میدان ہو یا شوکت خانم اسپتال کے لئے چندہ اکٹھا کرنا ہو ہر جگہ عوام نے آپ کی دل کھول کر مدد کی. اس سلسلے میں اس وقت کے حکمران بھی آپ کے مددگار ثابت ہوئے.

(جاری ہے)

بیشک وہ جنرل ضیاء الحق ہو جن کی بدولت آپ نے کرکٹ ٹیم میں دوبارہ شمولیت اختیار کی اور آخر کار پاکستان کو پہلا اور واحد کرکٹ ورلڈ کپ جتوایا تھا.

یا پھر انھی کے دست راست میاں نواز شریف ہوں. جنھوں نے آپ کی کافی مدد کی اور شوکت خانم اسپتال کی تعمیر میں آپ کے مددگار ثابت ہوئے تھے.
لہذا یہ محبت تو عوام نے آپ کو بطور کپتان دی تھی. لیکن پھر اس کپتان نے اپنی عوام کے لئے سیاست میں حصہ لیا اور تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی. گو کہ اس سلسلے میں عوام سے آپ کو اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی آپ نے اس وقت توقع کی ہوگی.

لیکن پھر بھی آپ کو پارلیمنٹ تک پہنچا ہی دیا تھا. خیر آپ نے بھی ہمت و حوصلے اور جہد مسلسل کی بدولت دن بہ دن عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی. اس سلسلے میں آپ نے سب سے پہلے مشرف کی پیشکش کو مسترد کیا اور جیل جانا قبول کیا. گو کہ یہ آپ کے مزاج کے خلاف تھا. اس لئے بہت مشکل سے آپ نے جیل کے اندر چند ایام ہی گزارے تھے. خیر ہمارے ہاں تو سیاستدان کا سیاسی حوالے سے جیل جانا عزت اور شرف کا باعث سمجھا جاتا ہے.

اس لئے آپ کی عزت اور وقار میں ان واقعات کے بعد مزید اضافہ ہوتا گیا.
خیر اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہم عوام نے آپ کو اس قابل بنا دیا کہ آپ سیاسی حلقوں کی نظر میں آنے لگے. اور پھر آپ نے پہلی بار 2013 کے الیکشن میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا. نیز آپ نے خیبر پختونخوا میں حکومت بھی قائم کرلی تھی.

عوام کے اعتماد اور پیار کا اصل اظہار تو تب ہوا جب آپ نے اس وقت کی حکومت کے خلاف دھرنا دے ڈالا. اس دوران تین ماہ تک یہی عوام آپ کے ساتھ بارش، دھوپ، آندھی گو کہ ہر حالات میں آپ کے ساتھ مستحکم کھڑی رہی. آپ کے آس دھرنے نے گو کہ ملک کا نقصان بھی کیا. لیکن اصل چیز جو آپ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ آپ اس وقت حاصل کرچکے تھے.آپ نے ہم عوام کو اس دھرنے کی سیاست سے وہ شعور دیا جو کہ عوام کے پاس آج سے پہلے نہیں تھا.

آپ نے بتایا کہ اگر ملک میں مہنگائی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران چور ہے. آپ نے ہمیں ہمارے حقوق کے متعلق بتایا. نیز آپ نے ہماری سیاسی آبیاری کی. اس کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ نے اگلے الیکشن میں ایک کروڑ ستر لاکھ ووٹ حاصل کرکے ملک میں اپنی اکثریت کا اظہار کیا اور وفاق سمیت ملک کے تینوں بڑے صوبوں میں اپنی حکومت قائم کی . آپ نے اقتدار میں آکر ہم عوام کے لئے سو دن میں تبدیلی  لانے کا اعلان کیا.

جس پر ہم عوام  یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہمارے لئے شائد کچھ انقلابی اقدام ہوں گے اور ملک کا پہیہ درست سمت کی جانب گامزن ہوگا.
لیکن پھر وہ سو دن بھی گزر گئے اور عوام الناس سے کیا ہوا وعدہ وفا نہ ہوسکا. خیر آپ نے شروع ہی سے ہم عوام کو ایک بات سمجھا دی تھی کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے. نیز ہم عوام گھبراتے ہوئے بھی نہ گھبرائے اور آپ پر اعتماد جاری رکھا.

اب آپ نے تین ماہ میں تبدیلی لانے کا اعلان کیا. لیکن پھر بادل ناخواستہ سے آپ کا یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا. بلکہ اس دوران مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا. خیر یہ سب تو آپ کے وعدے تھے جو کہ غیر ضروری سی بات تھی. کیونکہ آپ کے دیے ہوئے شعور کو حاصل کرکے ہم اس چیز کا تدارک کرچکے تھے کہ انقلاب یا تبدیلی آج کے زمانے میں جلدی سے نہیں آتی.


معلوم نہیں عمر بن عبدالعزیز رح محض اپنے ڈھائی سال کی حکمرانی میں تبدیلی کیسے لے آئے تھے . محقق اور تاریخ دان بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رح کے دور حکمرانی سے پہلے  لوگ آپس میں یہ گفتگو کیا کرتے تھے کہ میری اتنی زمین ہے میرے پاس اتنا سونا ہے. لیکن عمر بن عبدالعزیز رح کے دور حکمرانی میں جہاں بنو امیہ میں انقلاب برپا ہوگیا تھا.

وہاں عوام کا طرز زندگی بھی بدل گیا تھا. اب یہی لوگ جب کبھی آپس میں ملتے اور گفتگو کرتے تو ان کا موضوع مال و متاع نہیں بلکہ ان کا موضوع یہ ہوتا کہ آج تم نے کتنی نمازیں ادا کی، قرآن مجید کتنا پڑھ لیا، روزہ رکھا یا نہیں. یعنی کہ عمر بن عبدالعزیز رح نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اگر آپ اصل میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو وقت نہیں بلکہ ارادے کی پختگی اور طاقتور ترین حلقوں کے مفادات کے خلاف جاکر عوام کے لئے کچھ کرنا ہوتا ہے.


یہی کچھ عمر بن عبدالعزیز رح نے کیا تھا انھوں نے اپنے ہی رشتے داروں عبدالملک کے بیٹوں سے غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی زمینوں کو واگزار کروا کر ان کے اصل حق داروں کو وہ زمینیں واپس کردی تھیں. نیز ان حق داروں میں غیر مسلم بھی شامل تھے. لیکن عمر بن عبدالعزیز رح نے قانون کی بالادستی قائم کرکے عوام کو انصاف فراہم کیا. بس یہی چیز آج اگر عمران خان کرلیں تو امید ہے کہ عام عوام یعنی ہمیں کچھ حقوق اور انصاف مل سکتا ہے.

اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ قانون کا نفاذ سختی سے عمل میں لایا جائے. نیز ریاست کی رٹ بھی قائم کی جائے. تاکہ تمام مجرمان کوئی بھی فعل انجام دینے سے پہلے اپنے انجام کو دیکھ کر خوف محسوس کریں.
عمران خان صاحب ہمیں آپ کی نیت پر بھی کوئی شک نہیں تھا. جب آپ کہتے تھے کہ ہم اس ریاست کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے تو عام عوام نے آپ کے اس جذبہ کو داد دی.

کہ چلو کوئی تو اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کرکے ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہے. لیکن آپ نے مدینہ کی ریاست کے بنیادی اصول کو ہی خاطر خواہ نہ رکھا. مدینہ کی ریاست میں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل تھے. کوئی اگر غلط عمل کرتا تھا تو اس کو اس کے عمل کے مطابق انجام دیکھنا پڑتا تھا. یہاں تک کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ یہ ارشاد فرمایا تھا کہ " اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو لازماً میں اسکا  ہاتھ کاٹ دیتا".  یعنی قانون پر عملدرآمد اس حد تک تھا کہ جانور بھی اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے تھے.


کیونکہ مدینہ کی ریاست میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور دیگر مخلوقات کے حقوق بھی محفوظ تھے.
لیکن خان صاحب آپ کی مدینہ کی ریاست میں جانور تو پریشان ہیں ہی بلکہ عام انسان بھی اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے ہیں. آپ کی مدینہ کی ریاست میں ہوا کی بیٹی کو اندھیری رات میں سرعام بے آبرو کردیا جاتا ہے. آپ کی مدینہ کی ریاست میں عام آدمی بے روزگاری کا شکار ہے.

آپ کی مدینہ کی ریاست میں اگر کوئی وزیر نا اہلی کا ثبوت دیتا ہے تو اس کو سزا کے طور پر ایک وزارت سے ہٹا کر دوسری دے دی جاتی ہے. آپ کی مدینہ کی ریاست میں پیٹرولیم بحران کا سبب بننے والے اپنی گدی پر موجود رہتے ہیں. آپ کی مدینہ کی ریاست میں بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے. یہ سب ریاست کی ذمہ داری ہے. کیونکہ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے.
خان صاحب آپ سے عرض یہ ہے کہ اب آپ اپنا بیانیہ تبدیل کر لیں.

کیونکہ جس بیانیے پر آپ کو عام عوام نے ووٹ دیا تھا. اس کو آپ نے کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا. جیسے آپ آج ڈٹ گئے ہیں کہ مریم نواز شریف کو یا کسی اور کو ڈیل نہیں ملے گی. کاش آپ یہی سختی اس وقت بھی دکھاتے جب نواز شریف صاحب کو پس پردہ منصوبے کے تحت باہر لندن روانہ کردیا گیا تھا. اگر آپ وہاں کمزوری نہ دکھاتے تو آپ کے بیانیے کو نقصان نہ پہنچتا.

یہی کچھ جہانگیر خان ترین کے ساتھ کیا گیا اور وہاں بھی آپ نے خاموشی اختیار کر لی اور انھیں بھی لندن جانے دیا . خیر اب بھی آپ کے پاس موقع ہے ملک کے سابقہ اور موجودہ ڈاکوؤں اور بدعنوان لوگوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں. خاص طور پر اپنے اندر کالی بھیڑوں کو تلاش کرکے کیفرکردار تک پہنچائیں. نیز مافیا مافیا کا راگ الاپنا بھی چھوڑ دیں اور کچھ اس مافیا کے خلاف عملی اقدام کریں.

تاکہ ہمیں آپ کی طاقت اور گڈ گورنس کا مظاہرہ دیکھنے کو ملے.
آج ہم مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں لیکن ہم آپ سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ آپ ہمیں یوں پریشان نہیں رہنے دیں گے. بلکہ ہمارے لئے کچھ اقدام کریں گے تاکہ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلوں کو بہترین معیار کا پاکستان ملے. جہاں حقیقت میں مدینہ کی ریاست قائم ہو اور انصاف کا بول بالا ہو.

امید کرتے ہیں کہ آپ کو ہماری گفتگو سے ہمارے حالات کا تدارک ہوگیا ہوگا.
خان صاحب آپکی شعور یافتہ، ستائی ہوئی عوام آپ کے اٹھسٹھ ویں جنم دن کے موقع پر آپ کو مبارک باد پیش کرتی ہے. نیز یہ امید بھی کرتی ہے کہ اب سے بیان نہیں عمل ہوتا ہوا نظر آئے گا. کیونکہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ؛
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :