وزارت سے چنگ چی رکشہ تک کا سفر

ہفتہ 2 فروری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

کل پاکستان مسلم لیگ ن کے بہت سے ارکان اسمبلی اور راہنما اپنے ہر دل عزیز لیڈر جناب میاں محمد نواز شریف صاحب سے ملنے جیل تشریف لے گئے۔ ویسے جیلیں سیاسی لیڈران کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ وہاں اُن کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بلکہ کچھ سیاسی لوگ تو جیل کو اپنا سسرال بھی بتاتے ہیں۔ خیر پاکستان کی سابق وزیر اطلاعات محترمہ مریم اونگزیب صاحبہ بھی اس وفد میں شامل تھیں۔

گھر سے تو یقیناً پراڈو میں آئیں ہوں گیں ۔ مگر جیل کے گیٹ سے بیرک تک کا سفر جو کہ کافی ان لاڈ میں پلے ہوئے لوگوں کے لیے کافی طویل ہے چنگ چی رکشہ میں کیا۔ اگر آپ لاہور کے شاہی قلعہ کی سیر کے لیے جائیں تو وہاں چھوٹی چھوٹی گاڑیاں نظر آتی ہیں۔ اُن کا کام مسافروں کو گیٹ سے قلعہ تک پہنچانا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ہم سوچ رہے تھے کیا ہی اچھا ہوتا اگر میاں صاحب اپنے دور حکومت میں جیلوں میں کم ازکم ان چھوٹی بسوں کا انتظام ہی کروا دیتے ۔

آج ان کے لیڈران کو یوں چنگ چی کی خفت تو نا اُٹھانا پڑٹی۔ دوسری طرف جاوید ہاشمی صاحب بھی کسی موٹرسایکل سوار سے لفٹ مانگتے نظر آئے۔ ایک بات ہے جب سیاستدان اقتدار میں ہوتے ہیں تب یہ کسی کو لفٹ نہیں کرواتے۔ مگر پاکستان کے عوام زندہ گل اور بے حس ہیں لہذا فوراً من پسند لیڈر کو لفٹ دے دی گئی۔
سیاستدانوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے جب تک برسر اقتدار رہیں لوگ جھک جھک کر سلام کرتے ہیں۔

جیسے ہی اقتدار ختم ہوا ان کی ویلیو پاکستان کی کرنسی جیسی ہوجاتی ہے۔ جو دن بدن گھٹتی چلی جارہی ہے۔ اپنے جنرل مشرف کو ہی دیکھ لیں ایک وقت تھا کیسے ہاتھ اور مکہ ہلا ہلا کر دشمن کو للکارا کرتے تھے۔ مگر آج بیچارے گمنام کسی ہسپتال میں پڑئے صحت یابی کی دعاؤں کی اپیل کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہی حال اپنے میاں صاحب کا ہے جب تک وزیرآعظم رہے سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے رہے۔

جیسے ہی منصب گیا آنکھیں جھکا لی۔ پہلے اپنے بیانیہ میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے رہے۔ پھر کہا ووٹ کو نہیں تو مجھے ہی عزت دے دو۔
اور تو اور اپنے چھوٹے میاں صاحب کے فرزندان کو ہی دیکھ لیں وہ پہلے لاہور کے غیر اعلانیہ وزیر آعلی ٰ تھے اور اب ائرپورٹ سے واپس گھر بجھوا دیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں عدالت نے ان کو کچھ ریلیف دے دیا۔

چوہدری نثار صاحب یاد آرہے ہیں ۔ جو لمبی لمبی پریس کانفرسیں کرنے کے بارے میں مشہور تھے۔ اب کہیں دیکھائی نہیں دیتے۔ سنا ہے موصوف اچھے وقت کے انتظار میں ہیں۔ تاکہ دوبارہ میڈیا پر گرچمک سکیں۔ خوب یاد آیا جناب محترم مولانا فضل الرحمان صاحب جو کسی زمانے میں کشمیر کمیٹی کے صد ر ہوا کرتے تھے۔ خوب پروٹوکول انجوائے کیا کرتے تھے۔ آج کل امامت کے فرائض سنبھالیں ہویں ہیں۔


کراچی کا بھائی کون الطاف حُسین جس کے ایک اشارے پر پورئے شہر میں سناٹا چھاجایا کرتا تھا۔ وہ اپنی بے سری آواز میں سارا سارا دن میڈیا کو گانے سنایا کرتے تھے۔ اور مزے کی بات میڈیا والے داد بھی خوب دیا کرتے تھے۔ کسی دوست نے بتایا ہے موصوف آج کل جیب خرچ نا ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔ اور لوگوں سے گلا کر رہے ہیں کہ مجھے کوئی پیسے نہیں دیتا۔

اور ان کی روتے ہوئے کی ویڈیو کو مزئے لے لے کر آگے بھیجا جارہا ہے۔
پھر بھٹو صاحب سیاست میں آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ وزیرآعظم بنے اور لڑنے مرنے پر تیار ہوگئے۔ اُنہوں نے کہا ادھر تم اُدھر تم اور اگر کوئی ادھر آیا تو ٹانگیں توڑ دیں گے۔ اور سب نے دیکھا کہ بھٹو صاحب کو رات کے اندھرئے میں سزائے موت دی گئی ۔ اور ان کو سزائے موت دینے والے جنرل کی حالت بھی سب کے سامنے ہے کہ صرف عنیک کو ہی جنرل سمجھ کر فیصل مسجد میں سپرد خاک کردیا گیا۔

اور پھر نام بھی نا رہا ناموں میں۔
اور بھٹو کے بعد بھٹو کی بیٹی آئی سنا ہے محلوں اور دببی میں کئی جائیدادوں کی مالک تھیں۔ مہنگی ترین عینگ اور گھڑیوں کی شوقین تھیں۔ محترمہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ اور پھر بھرئے جلسے میں لقمہ اجل بن گئیں۔ پوسٹماٹم تک نا ہونے دیا گیا۔
ایک سابق صدر تو اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعوئے کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے تم نے تو تین سال بعد چلے جانا ہوتا ہے۔

یہ ہم ہیں جنہوں نے یہاں مستقل رہنا ہے۔ یار دوست کہتے ہیں پانچ سال صدر صاحب نے خوب عیاشی کی۔ ملک میں دودھ کہ نہریں بہا دیں۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا۔ سنا ہے اُن کے تو گھوڑے بھی مقدس تھے۔ جناب کو بھنڈی کھانے کا بہت شوق ہے۔ کسی دشمن نے بتایا کے آجک کل کسی کے سہارے عدالتوں کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ اور اپنے فرزند کو آگے کیا ہوا ہے کہ لوگوں کو دھمکیاں لگاؤ۔

یعنی صدارت کی کرسی جاتے ہی لوگوں نے اوقات یاد کروا دی۔ پہلے ان کا کہا سر آنکھوں پر ہوتا تھا۔ آجکل جھوٹ ہوتا ہے۔
آجکل ہمارے خان صاحب کا ستارہ عروج پر ہے دیکھتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ بہت سے مفاد پرست اُن کے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے مفاد کی خاطر خان صاحب کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
سیاسی کھیل ایسا ہی ہوتا ہے۔

اردگرد لوگ تب ہی جمع ہوتے ہیں جب اُن کو یقین ہو کہ آپ کی ذات سے کچھ مفاد ملنے کے مواقع ہیں۔ پاکستانیوں کی تو ویسے بھی عادت ہے کہ اُبھرتے سورج کو سب سلام کرتے ہیں۔ جب تک آپ مشہور و طاقت ور ہیں سب آپ کے پاس ہیں۔ بصورت دیگر چنگ چی میں ہی سفر کرنا پڑتا ہے۔ سکندر مرزا سے لے کر نواز شریف تک سیاست نے کسی کو نہیں بخشا۔یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ ایک وقت میں آگے پیچھے گاڑیاں دوڑتی ہیں ایوان تک لے جانے میں اور پھر وہی گاڑیاں دوڑائی جاتی ہیں جیل یا پھانسی گھاٹ پر لے جانے کے لیے۔ اور یقینا یہ نشانیاں عقل مندوں کے لیے ہی ہیں عقل سے پیدل لوگوں کے لیے نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :