صحت انصاف کارڈ ، کچھ سوالات

ہفتہ 2 نومبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

عمران خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ صحت انصاف کارڈ کا اجرا کریں گے۔ کارڈ ہولڈر سات لاکھ بیس ہزار تک کا مفت علاج کروا سکیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب نے قوم سے کیا گیا یہ وعدہ پورا کردیا۔ پورئے پاکستان میں صحت کارڈز تقسیم ہورہے ہیں۔ مگر اس کی تقسیم کے حوالے سے بہت سے سوالات و تحفظات جنم لے رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جن افراد کو یہ کارڈ دیے جارہے ہیں ان کا ڈیٹا کہاں سے لیا گیا۔

اور کارڈ ہولڈر کے لیے معیار کیا رکھا گیا ہے۔ کیونکہ بہت سے ایسے لوگوں کو بھی کارڈ مل رہے ہیں جو شائد اہل نہیں۔ اور لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو کارڈ کی ضرورت ہے مگر وہ اہل قرار نہیں دیے گے۔ اس سوال کا کچھ لوگ اس طرح جوا ب دیتے ہیں کہ یہ ڈیٹا بے نظیر انکم سپورٹپروگرام سے لیا گیا۔

(جاری ہے)

اور اگر یہ سچ ہے تو یقین کریں کرپشن کا اتنا بڑا سکینڈل نکلے گا کہ پوری قوم دھنگ راہ جائے گی۔

کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو کارڈ تو مل گئے مگر انہوں نے کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسے نہیں لیے۔ اور اگر ان لوگوں کو سپورٹ پروگرام کے پیسے نہیں مل رہے تو آخر یہ پیسے کہاں جارہے ہیں۔ یقینا یہ پیسے سرکاری افسران اور ملازمین کی جیبوں میں جارہے ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان میں گھوسٹ بہت مشہور ہیں کیونکہ بہت سے گھوسٹ ملازمین کی بھی تنخوائیں لی جارہی ہیں۔


اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انصاف صحت کارڈ کا ڈیٹا نواز شریف کے دور میں جو صحت کارڈ بنے تھے ان سے لیا گیا ہے۔ اور اس میں تمام ایم این اے اور ایم پی ایز کو کوٹہ دیا گیا تھا۔ ایک یہ چیز بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ زیادہ تر ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اس کارڈ کے اہل قرار دیے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے ایک سینئر کارکن کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی صاحب کے توسط سے کسی عمران نامی شخص کو نئے سروئے کا کانٹریکٹ دیا گیا تھا۔

اب اس میں کتنا سچ ہے یہ تو شاہ صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ لوگوں کو ان کے سوالات کے جواب دے تاکہ کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نا رہے۔ یہ ایک سنجیدہ اور احساس معاملہ ہے بہت سے لوگوں کی زندگی اس سے جڑی ہوئی ہے۔ کئی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے لیے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہے مگر ان تک بھی کارڈ نہیں پہنچ پارہے کیونکہ وہ اس کے لیے اہل قرار نہیں پائے۔

ہوسکتا ہے عمران خان نے یہ فیصلہ جلد بازی میں کیا ہو کہ چلو صحت کارڈ کے حوالے سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے تو پورا کیا جائے۔ اور اس کے لیے کسی پرانے سروئے پر ہی انحصار کرلیا گیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو سیاسی طور پر اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔ کارکنان اور پی ٹی آئی کے ووٹر ناراض ہوں گے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ ایک احسن اقدام بھی ہے کہ بغیر کسی سیاسی وابستگی کے صحت کارڈ تقسیم کیے جارہے ہیں۔

لیکن تاریخ شاہد ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ نے کبھی میرٹ پر کام نہیں کیا بلکہ اپنے کارکنان کو نوازا ہے۔ اسی لیے تو زیادہ تر ن لیگ اور پی پی پی کے کارکنان کو ہی صحت کارڈ مل رہے ہیں۔
اپوزیشن اس وقت عمران خان کو اپنی طرف سے پریشان کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ نام نہاد آزادی مارچ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں خان صاحب کو ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اُٹھانا ہوگا۔

سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ لیکن عوام کی فلاح پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا خان صاحب کو چاہیے کہ جن لوگوں کو کارڈ مل گئے ہیں وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک نیا سروئے بھی کروایا جائے جس میں پارٹی ورکرز کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ مستحق افرادتک یہ سہولت بہم پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے بھی عوام کو کافی پریشان کررکھا ہے۔

دکاندار حضرات اپنی مرضی کے ریٹ لے رہے ہیں۔ اگر بلدیاتی سطح پر کچھ کمیٹیاں بنا دی جایں تو بہتر نتائج نکل سکتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جب کسی دکاندار کا چالان کیا جاتا ہے تو وہ سب سے پہلے سیاسی لوگوں کی مدد ہی لیتا ہے اور وہ اسے تھانے کچہری سے نکال بھی لاتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کو چاہیے کہ ایسے کسی انسان کی مدد نا کریں جو مہنگائی کا زمہ دار ہو۔


ایک خبر یہ بھی چل رہی ہے کہ اینٹون کے بھٹوں پر زیگ زیگ ٹیکنالوجی کو پرموٹ کیا جارہا ہے۔ لیکن ایک دم یہ کام مت کریں کیونکہ اس سے کثیر تعداد میں بھٹے بند کردیے جاتے ہیں اور اینٹوں کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ سموگ سے ایک دم تو لڑ ا نہیں جاسکتالہذا بھٹا مالکان کو کہیں کہ وہ آہستہ آہستہ اس ٹیکنالوجی کو اپنائیں۔ کیونکہ جب اینٹ ،بجری، سیمنٹ اور ریت مہنگی ہوتی ہے تو تعمیرات کا خرچہ دگنا ہوجاتا ہے۔

کام ضرور کریں مگر لوگوں کے دماغ اور سوچ کو مدنظر رکھ کر کریں۔ جلد بازی کی یہ قوم عادی نہیں۔ ایک عرصے کے بگڑئے ہوئے لوگ ہیں۔ ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ جب ایک دم کوئی کام کہا جاتا ہے تو چیخنے چلانے لگتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو مندرجہ بالا سوالات کے جواب ضرور دینے چاہیے اور باقی تجاویز پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ایک دفعہ اگر آپ نے مہنگائی کو کنٹرول کر لیا تو عوام میں آپ کی مقبولیت دگنا ہوگی ہے۔ کرپٹ لوگوں کی زبان صرف اور صرف عوامی خدمت سے ہی دی جاسکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :