نئی خبر آئی ہے..

ہفتہ 3 اپریل 2021

Hussain Jan

حُسین جان

پاکستانی قوم بھی بری عجیب ہے مشکل وقت میں حکومت  کا ساتھ نہیں دیتی اور جب حکومت کی طرف سے کوئی مشکل فیصلہ لے لیا جائے تو مچلنا شروع کردیتی ہے. میرے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے بیتا پاکستانی قوم کا مزاج سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے. وہ لوگ جو کبھی مسجد میں نہیں جاتے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل نہیں کرتے لیکن جیسے ہی مسلک کی باری آئے گی تو تلواریں اٹھا لیں گے.
درگاہوں میں دفن صوفیا اکرام کی تعلیمات کو پس پست ڈال دیں گے مگر کرونا پر درگاہ کو وقتی بند کیا جایے تو گاڑیوں کو اگ لگا دیں گے.
حکومت کی طرف سے جب فیصلہ آیا کہ چینی بھارت سے منگوانی پڑے گی تو آزاد کشمیر کے ایک اخبار نے سرخی لگائی کہ" نئی خبر آئی ہے مودی ہمارا بھائی ہے.

(جاری ہے)

" اس سرخی کو دیکھ کر مرحوم عباس اطہر کی لگائی گئی آگ نما سرخی یاد آگئی جس نے بنگلہ دیش بننے میں اہم کردار ادا کیا تھا سرخی تھی "ادھر تم ادھر ہم" صحافت کا جنازہ ایسے ہی نہیں نکلا اس کے لیے صحافیوں اور لفافیوں نے بڑی سخت محنت کی ہے.
موجودہ مرکزی حکومت نے پہلے فیصلہ کیا کہ انڈیا سے چینی درآمد کی جائے گی لیکن سخت عوامی ردعمل کی وجہ سے یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا.

سب سے پہلے تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جب پاکستان گنا پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں 6 نمبر پر ہے تو اس کے باوجود چینی کو درآمد کرنے کی  ضرورت کیوں پیش آئی. دوسرے نمبر پر عوام کو پوچھنا چاہیے کہ کیا چینی کا استعمال کم نہیں کرسکتے. چینی کا زیادہ استعمال صحت کے لیے ویسے بھی خطرناک ہے. لیکن نہیں ہم سے کوئی یہ توقع نا رکھے کہ ہم چینی یا دیگر چیزوں کے استعمال میں اعتدال سے کام لیں.
یہی حال گندم کا ہے.

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریبا 24 میلین ٹن گندم پیدا ہوتی ہے. لیکن اس کے باوجود مہنگی گندم دیگر ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہے. کوئی سسٹم کوئی نطام یہان ایسا نہیں جو واضح پالیسی دیتا ہو. ہر قانون میں کوئی نا کوئی ابہام جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے کہ مشکل وقت میں اس شقم کا فائدہ اٹھایا جاسکے.
سونے پہ سوھاگہ پاکستانی میڈیا بھی ہمیشہ منفی کردار ادا کرتا ہے.

مختلف میڈیا ہاوسز نے اپنے اپنے پسندیدہ لیڈر اور سیاسی جماعتیں چن رکھی ہیں. ذاتی مفاد کے لیے یہاں کچھ بھی آن ائیر کردیا جاتا ہے یا پھر چھاپا جاتا ہے. آزاد کشمیر کے اخبار کی لگائی گئی لیڈ سرخی کیا کسی نئے بحران کو جنم نہیں دے گی؟ حکومت نے چینی درآمد کرنے کا فیصلہ عوامی مفاد مین دیا تھا نا کہ زاتی مفاد میں. ایسے میں میڈیا کو چاہیے کہ حقائق عوام کے سامنے رکھے نا کہ لگائی بجائی کا کردار ادا کرئے.

ویسے بھی انڈیا سے اگر آپ کو سستی چینی مل رہی ہے تو اسے درامد کرنے میں کیا قباھت ہے. تجارت تو آپ کسی سے بھی کرسکتے ہیں. کشمیر کا ایشو الگ حثیت رکھتا ہے. چینی درآمد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان خدانخواستہ کشمیر پر اپنے موقف سے پیچے ہٹ رہا ہے. بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ چند دن میں آنے والے رمضان چونکہ گرمیوں میں آرہے ہیں جس کی وجہ سے میٹھے مشروبات کا استعمال بڑھ جائے گا لہذا چینی وافر مقدار میں ہونی چاہیے تاکہ لوگوں کو قلت کا سامنا نا کرنا پڑے. اگر ایسی صورتحال ہوگئی تو نزلہ پھر بھی حکومت پر ہی گرنا ہے.
پاکستانیوں کو چاہیے کہ ہمیشہ خزباتی انداز اے سوچنے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے سوچا کریں انشاءاللہ نتائج مثبت ہوں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :