"اعصاب کی جنگ"

پیر 31 مئی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

یورپ میں قائم مختلف امریکی جوہری ہتھیاروں سے لیس فوجی اڈوں سے متعلق ایک انتہائی اہم خبر لیک ہوئی ہے جس میں بقول وائس آف امریکہ کے امریکی فوجی افسران کی جانب سے غیر دانستہ طور پر اہم جوہری معلومات لرننگ ایپلیکیشنز کے ذریعے لیک ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہاں یہ ہے کہ یہ خبر تب سامنے آئی ہے جب امریکی افواج کی جانب سے پینٹاگون پیپرز میں غیر مخفی ہونے والے اس دستاویز کا ذکر زور وشور سے ہورہا ہے کہ جس میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ 1958 میں امریکہ نے کمیونسٹ چین کی جانب سے تائیوان کا قبضہ روکنے کے لئے جوہری حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ امریکہ جیسی طاقتور اور پروفیشنل فوج سے اتنی سنگین غلطی کیسے سرزد ہوئی وہ بھی ایسے وقت میں جب چین کا ردِ عمل پنٹاگون پیپرز پر آنا باقی تھا ؟
اس سوال کو سمجھنے کے لئے ہمیں خطے کے موجود سیاسی حالات کو سمجھنا ہوگا۔

(جاری ہے)

یورپ میں امریکہ کے نیوکلیئر بیسز مختلف ممالک بشمول جرمنی اور ترکی میں قائم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے یہ تمام اڈے روس کے خطرے کو ذہن میں رکھ کر ہی بنائے ہیں۔

روس جوکہ پہلے ہی کرائمیا پر قبضہ کرچکا ہے اور اب اس کی نظریں یوکرین کے شورش زدہ علاقے ڈونباس پر ہیں جس کے لئے اس نے حال ہی میں اپنا جدید اینٹی میزائل سسٹم (S-500) بھی یوکرین سے ملحقہ سرحد پر تعینات کیا تھا جو اس بات کا ہے ثبوت ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کو پہلے ہی روس کی جانب سے کرائمیا پر قبضہ کرنے سے نا روکنے کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہے اور اب اگر یوکرین کا مزید علاقہ روس کے قبضے میں جاتا ہے تو یہ امریکہ کی طاقت پر مزید سوالیہ نشانوں کو جنم دے گا۔

لہذا امریکہ کے پاس اب دو راستے ہونگے۔ یا تو جنگ کرکے روسی توسیع پسندی کا سلسلہ روکا جائے یا پھر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کی جائے۔ تاہم معاشی پابندیاں تو کارآمد ثابت نا ہوئی کیونکہ اس سے روس کے کان پر جوں تک نا رینگی۔ اس کے بعد امریکہ کے پاس ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ جنگ کے ذریعے روس کو روکا جائے۔ چونکہ امریکہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ جنگ بھی ممکن نہیں لہذا روس کو اس پر طرح کی خبروں کے ذریعے متنبہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ ان پر کن کن مقامات سے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔


اس لیک شدہ خبر سے بظاہر امریکہ نے ایک ہی تیر سے دو نشانے لگادیئے ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں جرمنی نے روس سے نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا جس پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے سخت ناراضگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی اور روس کے درمیان قربتیں اسقدر بڑھ گئی تھی کہ ترکی نے امریکہ کے تحفظات کو خاطر میں نا لاتے ہوئے روس سے ایس 400 اور دیگر فوجی ساز و سامان خریدنے کے معاہدات بھی کرلئے جس کی وجہ سے انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اب ان خبروں میں چونکہ جرمنی اور ترکی میں قائم امریکی نیوکلیئر اڈوں کو ذیادہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جرمنی اور روس اور ترکی اور روس کے درمیان تعلقات کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چین کے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو وہاں امریکہ پہلے ہی بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر قواڈ گروپ کے ذریعے چین کے لیئے بحیرہ جنوبی الکاہل میں ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے جبکہ تائیوان کے ساتھ تعلقات بڑھا کر چین کی دکتی رگ پر نمک چھڑکتا ہے جو چین کے لیئے ہمیشہ سے ہی حساس مسئلہ رہا ہے۔

حال ہی میں چین نے تائیوان پر قبضہ کرنے کے لئے باقائدہ فوجی مشقوں کا بھی آغاز کیا جس کا مقصد تھا کہ واشنگٹن کو پیغام دیا جاسکے کہ تائیوان میں مداخلت کرنے سے گریز کریں۔ لہٰذا چین سے متعلق 1958 کی دستاویز کا غیر مخفی کرنا امریکہ کی جانب سے چین کو تنبیہ برائے تنبیہ کا ایک عمل ہوسکتا ہے تاکہ چین مستقبل میں تائیوان پر قبضہ کرنے سے باز رہے۔
ان تمام زمینی حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نا صرف ان دونوں حریفوں کو سائیکولوجیکل وارفیئر کے ذریعے پسپہ کرنا چاہتا ہے بلکہ یورپ میں جن ممالک کا جھکاؤ چین اور روس کی جانب بڑھ رہا ہے انہیں بھی انہی حربوں کا استعال کرکے روکنا چاہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے جواب میں چین اور روس کا کیا ردعمل آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :