
"اعصاب کی جنگ"
پیر 31 مئی 2021

عمران خان شنواری
اس سوال کو سمجھنے کے لئے ہمیں خطے کے موجود سیاسی حالات کو سمجھنا ہوگا۔
(جاری ہے)
یورپ میں امریکہ کے نیوکلیئر بیسز مختلف ممالک بشمول جرمنی اور ترکی میں قائم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے یہ تمام اڈے روس کے خطرے کو ذہن میں رکھ کر ہی بنائے ہیں۔
روس جوکہ پہلے ہی کرائمیا پر قبضہ کرچکا ہے اور اب اس کی نظریں یوکرین کے شورش زدہ علاقے ڈونباس پر ہیں جس کے لئے اس نے حال ہی میں اپنا جدید اینٹی میزائل سسٹم (S-500) بھی یوکرین سے ملحقہ سرحد پر تعینات کیا تھا جو اس بات کا ہے ثبوت ہے کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کو پہلے ہی روس کی جانب سے کرائمیا پر قبضہ کرنے سے نا روکنے کی وجہ سے دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہے اور اب اگر یوکرین کا مزید علاقہ روس کے قبضے میں جاتا ہے تو یہ امریکہ کی طاقت پر مزید سوالیہ نشانوں کو جنم دے گا۔ لہذا امریکہ کے پاس اب دو راستے ہونگے۔ یا تو جنگ کرکے روسی توسیع پسندی کا سلسلہ روکا جائے یا پھر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کی جائے۔ تاہم معاشی پابندیاں تو کارآمد ثابت نا ہوئی کیونکہ اس سے روس کے کان پر جوں تک نا رینگی۔ اس کے بعد امریکہ کے پاس ایک ہی راستہ رہ جائے گا کہ جنگ کے ذریعے روس کو روکا جائے۔ چونکہ امریکہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ جنگ بھی ممکن نہیں لہذا روس کو اس پر طرح کی خبروں کے ذریعے متنبہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ ان پر کن کن مقامات سے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس لیک شدہ خبر سے بظاہر امریکہ نے ایک ہی تیر سے دو نشانے لگادیئے ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں جرمنی نے روس سے نورڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا جس پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے سخت ناراضگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ترکی اور روس کے درمیان قربتیں اسقدر بڑھ گئی تھی کہ ترکی نے امریکہ کے تحفظات کو خاطر میں نا لاتے ہوئے روس سے ایس 400 اور دیگر فوجی ساز و سامان خریدنے کے معاہدات بھی کرلئے جس کی وجہ سے انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اب ان خبروں میں چونکہ جرمنی اور ترکی میں قائم امریکی نیوکلیئر اڈوں کو ذیادہ ہائی لائٹ کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جرمنی اور روس اور ترکی اور روس کے درمیان تعلقات کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چین کے گرد و نواح میں نظر دوڑائیں تو وہاں امریکہ پہلے ہی بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر قواڈ گروپ کے ذریعے چین کے لیئے بحیرہ جنوبی الکاہل میں ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے جبکہ تائیوان کے ساتھ تعلقات بڑھا کر چین کی دکتی رگ پر نمک چھڑکتا ہے جو چین کے لیئے ہمیشہ سے ہی حساس مسئلہ رہا ہے۔ حال ہی میں چین نے تائیوان پر قبضہ کرنے کے لئے باقائدہ فوجی مشقوں کا بھی آغاز کیا جس کا مقصد تھا کہ واشنگٹن کو پیغام دیا جاسکے کہ تائیوان میں مداخلت کرنے سے گریز کریں۔ لہٰذا چین سے متعلق 1958 کی دستاویز کا غیر مخفی کرنا امریکہ کی جانب سے چین کو تنبیہ برائے تنبیہ کا ایک عمل ہوسکتا ہے تاکہ چین مستقبل میں تائیوان پر قبضہ کرنے سے باز رہے۔
ان تمام زمینی حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نا صرف ان دونوں حریفوں کو سائیکولوجیکل وارفیئر کے ذریعے پسپہ کرنا چاہتا ہے بلکہ یورپ میں جن ممالک کا جھکاؤ چین اور روس کی جانب بڑھ رہا ہے انہیں بھی انہی حربوں کا استعال کرکے روکنا چاہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے جواب میں چین اور روس کا کیا ردعمل آئے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران خان شنواری کے کالمز
-
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022
-
پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021
-
"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"
منگل 3 اگست 2021
-
"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"
بدھ 28 جولائی 2021
عمران خان شنواری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.