امریکہ صیہونیت کے گھیرے میں اور مسلم دنیا کے آپشن

منگل 8 جون 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیلی پولیس کی کارروائی کے بعد جن جھڑپوں کا آغاز اسرائیل اور حماس کے درمیان ہوا وہ اب ایک باقائدہ روایتی جنگ کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت دیکھنے کے باوجود مغرب سمیت اقوامِ متحدہ کی خاموشی یہ علی الاعلان بتارہی ہے کہ اسرائیل ایک بِگڑا ہوا بچہ ہے جسے یہ کبھی بھی شرارت کرنے سے نہیں روکیں گے۔

جبکہ امریکی صدر کا یہ کہنا کہ "اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق حاصل ہے" نے اس بات پر مہر لگادی ہے کہ مسلمانوں کو اپنا بندوبست خود کرنا ہوگا۔
آخر امریکہ کیوں ہمیشہ اسرائیلی جارحیت کے سامنے سرِ خم تسلیم کردیتا ہے اور ان کے خلاف ایک مذمت تک کرنے سے کتراتا ہے ؟ اس کی تہہ تک پہنچ کر ہی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح عیسائی صیہونی لابی نے امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ اور اداروں میں اپنی جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں جس نے واشنگٹن کو اپنا تابع بنائے رکھا ہے جو امریکہ کے ہر فیصلے میں مذہب کا عنصر شامل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے کیا اقدامات کرنے چاہیے جس سے وہ امریکہ میں قائم اس صیہونی لابی کا مقابلہ کرکے فلسطین کے حق میں رائے عامہ قائم کرسکیں۔
یہودیوں کا اثر و رسوخ اٹھارویں صدی سے ہی امریکہ میں قائم ہونا شروع ہوا تھا جب روس کے زار الیگزینڈر سوئم نے انہیں اپنے والد کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا کر 20 ہزار سے زائد یہودیوں کو ملک بدر کیا۔

روس میں یہودیوں کے خلاف نفرت کے باعث 20 لاکھ یہودیوں نے امریکہ کا رخ کیا اور وہی آباد ہوگئے۔ اس کے بعد جب پرشیا 1871 میں دیگر جرمن سٹی اسٹیٹس کے ساتھ شامل ہوکر جرمن ایمپائر کی صورت میں ابھرا تب اس وقت کے جرمن چانسلر اوٹو وان بسمارک نے بھی یہودیوں سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ یہ وہ دور تھا جب تھیوڈور ہرزل صیہونیت کی تحریک کا آغاز کر رہے تھے جن کا مقصد تھا یہودیوں کے لئے ایک الگ ریاست قائم کرنا جہاں یہودیت سرکای مذہب ہوگا اور وہ اپنے مذہبی عبادات آزادی سے کرسکیں گے۔

چونکہ اس وقت یہودیوں کی تعداد جرمنی میں سب سے زیادہ تھی اسی لئے اوٹو وان بسمارک ہو یا ایڈولف ہٹلر ہر ایک جرمن رہنما کو یہی ڈر تھا کہ کہی جرمنی پر صیہونیت کا غلبہ نا ہوجائے۔ یہی وجہ تھی کہ جرمنی میں یہودیوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوتا گیا جو بالآخر اس بھڑاس کو ہولوکاسٹ کی شکل میں نازیوں نے نکالا۔ امریکہ میں چونکہ پہلی ہی روسی یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے مگر اب جنگِ عظیم دوئم کے بعد مزید یہودی پولینڈ، لیتھوانیا، جرمنی اور دیگر یورپین ممالک (جہاں ہٹلر نے قبضے کیئے) سے بھاگ کر امریکہ چلے گئے جو وہی آباد ہوگئے۔


ویسے تو یہودی صیہونیت کا آغاز تھیوڈور ہرزل نے انیسویں صدی کے آخر میں کیا تھا مگر عیسائی صیہونیوں نے امریکہ میں 1844 سے ہی اسرائیل کی ریاست کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا اور ایک عیسائی ریسٹوریشنسٹ جورج بش نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کے حوالے سے ایک کتاب لکھی جس میں اُنہوں نے کہا کہ عیسائی معادیات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ سلام کا دوبارہ آنا طے ہے مگر یہ تب تک ممکن نہیں ہوسکے گا جب تک اسرائیل کی ریاست قایم نا ہوجائے۔

لہذا جنگِ عظیم دوئم کے بعد امریکہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد بسنے کے بعد ان عیسائی صیہونیوں کے لئے راستہ مزید ہموار ہوا اور بالآخر 1947 میں اسرائیل کی ریاست فلسطین کی زمین پر قائم کردی گئی۔ جورج بش کا خواب تو پورا ہوگیا مگر اسرائیل کی حفاظت کے لئے 1975 میں ایک امریکی پادری جون ہیگی نے امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں کرسچنز یونائیٹڈ فار اسرائیل (Christians United For Israel)  نام سے باقائدہ ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد تھا کہ اسرائیل کی حفاظت کے لئے تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو متحد کیا جائے۔

اس تنظیم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہیگی نے امریکہ بھر کے 400 پادریوں کو اس تنظیم میں شامل کیا اور امریکہ کے 225 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس تنظیم کو پھیلایا جس میں اس وقت 70 لاکھ سے زائد ایکٹیو ممبرز اس کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ اسی گروپ کے ماتحت ایک کمیٹی کام کرتی ہے جسے امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز (American Israel Public Affairs Committee) یا اے آئی پی اے سی بھی کہا جاتا ہے جو امریکی کانگریس میں اسرائیل نواز پالیساں تشکیل دیتی ہے اور امریکی حکومت پر ہمہ وقت دباؤ برقرار رکھتی ہے تاکہ اسے اسرائیل کی جارحانہ کاروائیوں کے خلاف کاروائی کرنے سے روکا جاسکے اور اس کا ہر بین الاقوامی فورم پر دفاع کرے جس سے یہ اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس میں قانون سازی کا عمل ہو یا کوئی بھی مسئلہ یہ گروپ اس میں کس قدر اثر انداز ہوتا ہوگا۔


ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد یہ بات تو طے ہے کہ جب تک امریکہ کے اداروں اور یونیورسٹیوں میں ان صیہونی پادریوں کا غلبہ قائم رہے گا تب تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ جب جب بھی مسلمان ممالک میں مذہب کے نام پر اشتعال بڑھتا ہے اس کے نتیجے میں مخالف سمت میں بھی بنیاد پرستی میں اضافہ ہوتا ہے لہذا مسلمان ممالک کو بھی بنیاد پرستی ترک کرکے ترقی پسند سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔

کیونکہ اس صیہونی لابی کا مقابلہ صرف لبرل اور انتہائی بائیں بازوں کی تنظیموں کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کو عیسائی معادیات کے نام پر دباؤ میں ڈال کر فیصلے کرواتی ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے ہر مسئلے کے حل کے لئے واشنگٹن یا پھر یورپین یونین کی جانب دیکھنے کے بجائے خود کو معاشی و عسکری سطح پر مضبوط کرکے سب سے پہلے اپنے آپسی اختلاف ختم کرنے ہونگے اور نئے طاقتور اتحادی تلاش کرنے ہونگے جس سے مسلمان اور مغربی دنیا کے درمیان جو طاقت کا توازن اٹھارویں صدی کے بعد سے ہی بِگڑا تھا وہ دوبارہ قائم ہوسکے جس کی سب سے بڑی مثال 1973 کی یوم کیپور جنگ (Yom Kippur) ہے جس میں اسرائیل کو شام کے گولان ہائٹس کا علاقے قبضہ کرنے پر امریکہ اور مغرب کی جانب سے مکمل حمایت حاصل تھی مگر تمام عرب ممالک نے متحد ہوکر مغربی دنیا کو سکتے میں ڈال دیا تھا جب اوپیک (OPEC) نے امریکہ اور یوپین یونین کو تیل کی سپلائی پر پابندی عائد کردی تھی۔

نتیجتاً امریکی معیشت کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا۔ تو اسی طرح آج بھی مسلم دنیا امریکہ کو دباؤ میں ڈال سکتی ہے اور تب ہی مسلم دنیا ایک چھوٹے سے اسرائیل کے پیچھے کھڑی ہوئی پوری مغربی دنیا کا مقابلہ کرسکے گی جن کی خارجہ پالیسی کا مہور ہی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آمد پر مبنی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :