"ایران میں سخت گیر قدامت پسندی کا دور"

بدھ 30 جون 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

ایران میں حال ہی میں صدراتی انتخابات کا انعقاد ہوا جس پر مختلف تجزیہ کاروں کے تجزیے اور تبصرے شائع ہورہے ہیں۔ کچھ کے مطابق جیتنے والے امیدوار ابراہیم رئیسی ملک میں جاری معاشی بحران سے نمٹنے کے لیئے اقدامات اٹھائیں گے اور کچھ کے مطابق وہ اپنے پیش رو کے نقشِ قدم پر ہی چلیں گے کیونکہ ایرانی اقتدار میں طاقت کا منبع صدر کے بجائے سپریم لیڈر کے پاس ہوتا۔

تو پھر ابراہیم رئیسی میں وہ کیا خاص بات ہے جو اسے اس کے پیش رو سے مختلف بنائے گی اور ان کی خارجی و داخلی پالیسی کس نوعیت کی ہوگی ؟
ابراہیم رئیسی ایرانی کی ایک ایسی جماعت سے ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں جو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایران کے پائے کے علماء پر مشتمل ایک انجمن ہے جس کا بنیادی مقصد اسلامی انقلاب سے حاصل ہونے والے اداروں اور ولایت فقیہ کا تحفظ کرنا۔

(جاری ہے)

ابراہیم رئیسی کی اس بنیاد پر اہمیت میں اس لیئے اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی جماعت جامعہِ روحانیت مبارز کو ایران کے سپریم لیڈر کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے اور اس کی اثر و رسوخ نا صرف ایران کی شوریِٰ نگہبان اور عدالتی نظام پر قائم ہے بلکہ ایران کا سب سے اہم عسکری ادارہ پاسدارانِ انقلاب بھی اس کے زیرِ اثر ہے جس کی وجہ سے ابراہیم کی اہمیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔


ابرہیم رئیسی کی شخصیت کی بات کی جائے تو انہیں انتہائی دائیں بازوں کی سوچ رکھنے والا لیڈر سمجھا جاسکتا ہے۔ 1985 میں جب انہیں تہران کا استغاثہ مقرر کیا گیا تو اس کے تین سال میں ہی انہوں نے اپنی کارکردگی سے روح اللہ خمینی کو مثاثر کیا جس کی وجہ سے انہیں 1988 میں اس کیٹی کا ممبر بنایا جس نے ہزواروں کی تعداد میں سیاسی قیدیوں کو موت کی سزا سنائی جس میں بائیں بازوں کی کمیونسٹ جماعت حزبِ تودہَ ایران اور فدائیان سمیت مغرب اور سعودی یافتہ جماعت مجاہدین خلق کے ہزاروں کارکنان بھی شامل تھے۔

ایمنیٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کمیٹی کی جانب سے 30 ہزار سے زائد سیاسی کارکنان کو پھانسی دی گئی تھی جسے ایران کی حکومت نے رد کرکے صرف 3800 بتایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابراہیم رئیسی بطور صدر کس قدر سخت فیصلے کر سکتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کے بطور صدر اس لئے بھی طاقتور ہونے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے چیف چسٹس ہونے کے ساتھ اور بھی کئی ذمے داریاں سنبھال رہے ہیں جن میں استانِ قدس کی چیرمینی بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ ان کا مجلسِ خبرگانِ رہبری کا رکن ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اختیارات کیا ہونگے کیونکہ جس شخص کے پاس ایران کے سپریم لیڈر کی مقرری کا اختیار ہو اور جو موجودو سپریم لیڈر کا ممکنہ جانشین بھی تصور کیا جاتا ہو تو بعید از خیال نہیں کہ ان کی عاملہ کے فیصلے بھی مضبوط ہونگے۔
ان کی خارجہ پالیسی پر بات کی جائے تو رئیسی کی جماعت واضح طور پر اسرائیل اور امریکہ سے تعلقات کو تسلیم ہی نہیں کرتی جبکہ انتخابات جیتنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں ہی انہوں نے واضح کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی صدر سے ملاقات نہیں کریں گے البتہ نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت کے لیئے وہ تیار ہیں۔

دوسرا یہ کہ رئیسی پر ان کے 1988 کے جوڈیشل فیصلوں کے باعث امریکہ نے پابندی عائد کی تھی اور ان کے تمام اثاثے بھی منجمد کیئے تھے جو اب تک یہ پابندی قائم ہے۔ اور نا ہی بائڈن انتظامیہ کی جانب سے پابندی ہاٹائے جانے کا کوئی اشارہ ملا ہے البتہ امریکہ نے قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد سے اب دوبارہ ایرانی اڈوں پر عراق میں ہوائی حملے شرع کردیئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات مزید بگاڑ کی جانب جائیں گے۔

دوسری جانب اگر سعودی اور اسرائیل کے حوالے سے بات کی جائے تو ان سے بھی حالات مزید کشیدہ ہونگے کیونکہ ابراہیم رئیسی اور اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینٹ دونوں ہی انتہائی دائیں بازوں کے نظریات کے حامل ہے لہذا ان دونوں کے درمیان برف پگھلنے کا بھی امکان بعید ہے۔ بہرحال ابراہیم رئیسی کے ماضی میں کیئے جانے فیصلوں اور ان کی پارٹی پالیسی سے اور امریکہ کے ردِ عمل سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ابراہیم رئیسی ایران میں زید سخت گیر پالیسیاں لائیں گے جس سے ایران سمیت ان کے پڑوس پر بھی اثر پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :