
"ایران میں سخت گیر قدامت پسندی کا دور"
بدھ 30 جون 2021

عمران خان شنواری
ابراہیم رئیسی ایرانی کی ایک ایسی جماعت سے ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں جو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ ایران کے پائے کے علماء پر مشتمل ایک انجمن ہے جس کا بنیادی مقصد اسلامی انقلاب سے حاصل ہونے والے اداروں اور ولایت فقیہ کا تحفظ کرنا۔
(جاری ہے)
ابرہیم رئیسی کی شخصیت کی بات کی جائے تو انہیں انتہائی دائیں بازوں کی سوچ رکھنے والا لیڈر سمجھا جاسکتا ہے۔ 1985 میں جب انہیں تہران کا استغاثہ مقرر کیا گیا تو اس کے تین سال میں ہی انہوں نے اپنی کارکردگی سے روح اللہ خمینی کو مثاثر کیا جس کی وجہ سے انہیں 1988 میں اس کیٹی کا ممبر بنایا جس نے ہزواروں کی تعداد میں سیاسی قیدیوں کو موت کی سزا سنائی جس میں بائیں بازوں کی کمیونسٹ جماعت حزبِ تودہَ ایران اور فدائیان سمیت مغرب اور سعودی یافتہ جماعت مجاہدین خلق کے ہزاروں کارکنان بھی شامل تھے۔ ایمنیٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کمیٹی کی جانب سے 30 ہزار سے زائد سیاسی کارکنان کو پھانسی دی گئی تھی جسے ایران کی حکومت نے رد کرکے صرف 3800 بتایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ابراہیم رئیسی بطور صدر کس قدر سخت فیصلے کر سکتے ہیں۔
ابراہیم رئیسی کے بطور صدر اس لئے بھی طاقتور ہونے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے چیف چسٹس ہونے کے ساتھ اور بھی کئی ذمے داریاں سنبھال رہے ہیں جن میں استانِ قدس کی چیرمینی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان کا مجلسِ خبرگانِ رہبری کا رکن ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے اختیارات کیا ہونگے کیونکہ جس شخص کے پاس ایران کے سپریم لیڈر کی مقرری کا اختیار ہو اور جو موجودو سپریم لیڈر کا ممکنہ جانشین بھی تصور کیا جاتا ہو تو بعید از خیال نہیں کہ ان کی عاملہ کے فیصلے بھی مضبوط ہونگے۔
ان کی خارجہ پالیسی پر بات کی جائے تو رئیسی کی جماعت واضح طور پر اسرائیل اور امریکہ سے تعلقات کو تسلیم ہی نہیں کرتی جبکہ انتخابات جیتنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں ہی انہوں نے واضح کہہ دیا تھا کہ وہ امریکی صدر سے ملاقات نہیں کریں گے البتہ نیوکلیئر ڈیل پر بات چیت کے لیئے وہ تیار ہیں۔ دوسرا یہ کہ رئیسی پر ان کے 1988 کے جوڈیشل فیصلوں کے باعث امریکہ نے پابندی عائد کی تھی اور ان کے تمام اثاثے بھی منجمد کیئے تھے جو اب تک یہ پابندی قائم ہے۔ اور نا ہی بائڈن انتظامیہ کی جانب سے پابندی ہاٹائے جانے کا کوئی اشارہ ملا ہے البتہ امریکہ نے قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد سے اب دوبارہ ایرانی اڈوں پر عراق میں ہوائی حملے شرع کردیئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات مزید بگاڑ کی جانب جائیں گے۔ دوسری جانب اگر سعودی اور اسرائیل کے حوالے سے بات کی جائے تو ان سے بھی حالات مزید کشیدہ ہونگے کیونکہ ابراہیم رئیسی اور اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینٹ دونوں ہی انتہائی دائیں بازوں کے نظریات کے حامل ہے لہذا ان دونوں کے درمیان برف پگھلنے کا بھی امکان بعید ہے۔ بہرحال ابراہیم رئیسی کے ماضی میں کیئے جانے فیصلوں اور ان کی پارٹی پالیسی سے اور امریکہ کے ردِ عمل سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ابراہیم رئیسی ایران میں زید سخت گیر پالیسیاں لائیں گے جس سے ایران سمیت ان کے پڑوس پر بھی اثر پڑے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمران خان شنواری کے کالمز
-
"اقتدار کی حوس بنگال کو لے ڈوبی"
منگل 11 جنوری 2022
-
پاکستان اور ایران کے درمیان برف پگھل رہی ہے
جمعرات 21 اکتوبر 2021
-
"کابل کی نئی تھیوکریٹک حکومت اور پاکستان پر اس کے اثرات"
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
"کراچی سب کو انتخابات میں ہی یاد آتا ہے"
جمعرات 9 ستمبر 2021
-
"نیا طالبان 2.0"
منگل 24 اگست 2021
-
"مالدیپ میں بھارت کا نوآبادیاتی جال"
منگل 3 اگست 2021
-
"یہ باغیانہ سیاست پاکستان کو نقصان دے رہی ہے"
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
"کشمیر کے محاذ پر کپتان کا فُل سوئنگ"
بدھ 28 جولائی 2021
عمران خان شنواری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.