سفید پوش ۔۔ وباء۔۔۔

بدھ 24 جون 2020

Imran Naseem

عمران نسیم

سفید پوش ایسا معاشرتی و معاشی طبقہ جو اپنے روزمرہ کو  محنت کر کے سادگی کی سچائی کے ساتھ گزارتاہے ۔ اسے امیر کی طرح فریب دینا اورغریب کی طرح مانگنا نہیں آتا ۔
سفید پوشی نام ہی بھرم کا ہے ۔ اس بھرم میں اس کی خود اعتمادی پوشیدہ ہے ۔ اس کی محنت اس کی انا ۔ عزت اور اعلی اخلاقی اقدار شامل ہیں ۔
سفید پوش کبھی ہاتھ نہیں پھلاتا ۔

نہ ہونے کی شکایت کسی سے نہیں کرتا ۔ روٹی میسر نہ ہو تو پانی پی کر سو جائے پر نہ شکوہ نہ شکایت اور نہ ہی کسے سے امداد مانگے ۔ بس اپنے بھرم سے اپنی سچائی کی حفاظت کرے ۔
آج ایک عالمی وبا کا سامنا ہے ۔ انسان اس وبائی وائرس کے آگے بے بس ہے ۔ ۔ واحد علاج بس سماجی دوری اور صفائی کا خیال ہے ۔ اس وبا نے سفید پوش طبقے کے لئے زندگی مشکل بنا دی ہے سفید پوش کو ہی سب سے زیادہ معاشی نقصان و بحران کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

غریب تو مانگ تانگ کر کے گزارہ کر لے گا ۔ ۔ ۔ جبکہ امیر کو کم از کم معاشی مشکل کا سامنا نہیں اس کے پا س اتنے معاشی وسائل ہیں کہ وہ با آسانی وبائی دور کاٹ سکتا ہے ۔
اصل مسئلہ تو سفید پوش کا ہے ۔
حکومتی معاشی امداد امیر اور غریب کے گرد گھومتی نظر آتی ہے ۔ سفید پوش لگتا ہے کسی گنتی میں نہیں آتے۔
ایسے میں صاحب معاشرتی ذمہ داری زیادہ اہم ہے کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھیں ۔

اپنے اردگرد نظر رکھیں کیا کوئی سفید پوش مشکل میں تو نہیں  رشتے داروں میں دوست احباب میں جو سفید پوش ہیں ان کا خیال رکھیں ۔ جب ان کے لئے کچھ کریں تو انہیں یہ احساس ہرگز نہ ہونے دیں کہ یہ امداد ہے ۔۔
ان کا خیال سے خیال رکھنے کی عادت ڈالیں ۔ دوست بناناہئے اور دوستی میں چپکے سے خیال رکھنا ہے ۔ احتیاط کءجیےٗ گا انکا سفید پوشی کا بھرم نہ ٹوٹے اسی بھرم میں اسکی عزت اور اعتماد ہے اسے مضبوط بنانا ہے کمزور نہیں پڑنے دینا ۔


وقت کی ایک ہی خوبی ہے یہ گزر جاتا ہے اسکا بھی گزر جائے گا اور آپکا بھی ۔ بس ایک اچھی یا بری یاد باقی رہ جائے گی ۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت کیا کر سکتی ہے ۔ زیر بحث طبقہ کے لئے حکومت کچھ ضروری اقدامات کر سکتی ہے ۔ جیسے کہ۔۔۔
تین سو یونٹ تک بجلی کے استعمال پر50 فیصد بل آئے ۔۔  یعنی 50 فیصد بل میں رعایت ۔۔۔ اور یہ رعایت حکومت 500 یونٹ سے زائد استعمال والے بجلی کے صارفین سے با آسانی وصول کر سکتی ہے ۔

اسی طرح 1000 یونٹ میں فی1000 اضافہ پر بجلی کے نرخ میں100 فیصد اضافہ کر دے ۔ اس طرح ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ ہو گا اور کم آمدن والے طبقہ کے لئے آسانی ہو گی ۔
بنیادی اشیاء خوردونوش کی رسائی سستے بازاروں میں کم نرح پر معیاری اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے ۔ جن میں آٹا ۔ دال ۔ چاول ۔ آلو پیاز اور دیگےرموسمی سبزیاں و پھل شامل ہوں ۔ اس مد میں حکومت اگر سبسڈی دے تو اسے بڑے اسٹوروں پر ٹیکس لگا کر آسانی سے وصول کر سکتی ہے ۔

بیماروں کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں معیاری ادوایات کی فراہمی ممکن بنائے۔
سفید پوش طبقہ بچوں کی فیس کی مد میں جو رقم پرائیوٹ اسکولوں کو ادا کرتا ہے ۔ ایک تو یہ یقینی بنائے کہ5  ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ فیس درمیانے درجے کے پرائیوٹ اسکول وصول نہیں کر سکتے اور اس میں بھی ماہانہ فیس کا ۳۰ فیصد حصہ حکومت ادا کرے ۔ اور حکومت یہ رقم بڑے پرائیوٹ اسکولوں پر فیس ٹیکس لگا کر وصول کرے، اس ٹیکس سے سرکاری سکولوں کی حالت بہتر بنائے اور سفید پوش طبقے کے لئے بالا ذکر ۳۰ فیصد فیس کا حصہ ادا کرے ۔


بزرگوں کے لئے ان کی پنشن میں دس ہزار روپے ماہانہ بطور ہیلتھ الاءونس ادا کئے جائےں یہ ا ن پنشنرز کے لئے ہو جن کی پنشن  پچاس ہزار روپے ماہانہ سے کم ہے ۔
اگر حکومت افراط زر کی شرح پر قابو پا لے اور ذخیرہ اندواز مافیا کو سخت سے سخت سزا دے تو مہنگائی کا جن قابو میں آ سکتا ہے اور اس سے معیشت کساد بازاری کا شکار ہونے سے بچ سکتی ہے ۔
یہاں حکومت کو آزاد منڈی میں مداخلت کرنا ہو گی تاکہ کم آمدن والے طبقے کے لئے زندگی زیادہ دشوار نہ ہو ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :