6ستمبرسے27ستمبر تک

جمعہ 27 ستمبر 2019

Ishtiaq Ahmad Atish

اشتیاق احمد آتش

تنازعہ کشمیر،آج کے سوا کروڑ اُس وقت کے اسی لاکھ کے قریب کشمیریوں کو لے کر سب سے بڑا ٹکراؤ پاکستان اور بھارت کے درمیان6ستمبر1965ء کو ہوا تھا۔جو پاکستانی طاقتوں کی مکمل مددسے کشمیر کی آزادی کیلئے”آپریشن جبرالٹر“کامنطقی نتیجہ تھا جس ٹکراؤ کی بنیادی وجہ”آپریشن جبرالٹر“کا اپنی منزل اور کامیابی کے کناروں کو چھو لینا تھا۔

کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھارت نے کشمیر کو چھوڑ پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں پر حملہ کر دیا تھا۔گو اس وقت پاکستان کی عسکری قوت بھارت کے مقابلے کافی کمزور تھی۔مگر اس کے باوجود 17دنوں کی جنگ میں جہاں پاکستان کے عوام و افواج نے اپنے سارے وسائل جنگ میں جھونک دیے تھے۔وہیں بھارت کے بھی چھکے چھوٹ گئے تھے۔اب1965ء کے54سال بعد ہم ایک اور بڑے امن و جنگ کے معر کے پر27ستمبر 2019ء تک پہنچ گئے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ ایک مزاکراتی بین الاقوامی معرکہ ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل کونسل میں پاکستانی وزیراعظم کے خطاب سے برپا ہو گا۔یہ خطاب اور جنرل کونسل کے اجلاس کو باخبر کرنا،دراصل اس ساری لابنگ،رابطوں،کوششوں اور مؤقف و قوت کے اظہار کا نقطہ عروج ہو گا۔جو بھارتی اور پاکستانی وفود اور وہاں موجود دنوں کے مستقل مندوب مل کر کر چکے ہیں۔ان رابطوں اور لابنگ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی وفد کی ظاہری پوزیشن نریندر مودی اور اس کی ٹیم کے مقابلے میں بالکل1965ء کی جنگ کی طرح کافی کمزور نظر آتی ہے۔

لیکن عمران خان وزیراعظم پاکستان کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقاتوں اور بعد ازاں اس سے ظاہر ہونے والے اثرات امید دلاتے ہیں کہ1965ء کی طرح2019ء کی یہ سفارتی جنگ بھی پاکستان جیت سکتا ہے اور بھارت کو پھر اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے۔گودنیا اس وقت 1965ء سے زیادہ مطلبی،موقع پرست او ر مفادات کی لونڈی بن چکی ہے۔کشمیر میں بھارت کے سارے مظالم آنکھوں سے دیکھنے اور سب کچھ جاننے کے باوجود بڑے بڑے جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار ملکوں کی زبانیں گنگ ہو چکی ہیں۔

انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔اور وہ کسی صورت بھی اس منڈی کو کھونا نہیں چاہتے،چاہے اس کے بدلے ان کے اپنے سارے اقدار،ارادوں اور دنیا میں امن کی چاہت کا خون ہو جائے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے50ہزار کے انڈین جلسہ میں نریندر ا مودی کے ساتھ جورمبا سنمبا کھیلا وہ یقینا اس موقع اور تنازعہ کشمیر جس کی بنیاد حق خودارادیت پر استوار ہے۔

کی صورت کے پیش نظر کوئی احسن اقدام نہیں تھا۔اور امریکہ کی امن پسند اکثریت نے بھی اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا۔لیکن اس کے بعد بھارتی وزیراعظم سے ملاقات اور انڈین صحافیوں سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو رویہ اپنایا اور جس طرح سے وزیراعظم عمران خان کی تعریف اور مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا۔اس سے پاکستانی،کشمیری اور خود امریکی عوام کی امن کی ڈھارس کو تقویت ملی ہے۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی مستقل پالیسیوں میں جکڑا ہوا ایک  بے بس شخص ہے۔جو پھڑ پھڑا کر ان بندشون سے آزاد تو ہونا چاہتا ہے۔اور من موجی کرنا چاہتا ہے۔لیکن دنیا کو آج بھی1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد کھلے سمندروں میں کہیں کھو جانے والا ساتواں بحری بیڑہ بھی یاد ہے جو کبھی اپنی تعین کردہ منزل پر نہیں پہنچ سکا تھااور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔

ہاں البتہ اسی کشمیر کے پس منظر میں پاک بھارت کا رگل ٹکراؤ کے بعد امریکہ کا کردار امن کی چاہت کا رہا۔قارئین1965ء بلکہ اس سے قبل بھارت چائنا ٹکراؤ 1962ء پھر 1971ء اور کارگل دنگل کے علاوہ بھی کشمیر کی سیز فائر لائن پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان ایک مسلسل جنگ کی سی کیفیت ہے ان ساری جنگ وں کی بنیاد1947ء میں تقسیم ہند کے وقت تاج برطانیہ کے نمائندہ ریڈ کلف کی طرف سے جاری  ایوارڈ میں ماری جانے والی”ڈنڈی“تھی۔

پھر تقسیم ہند کے قانون کے مغائر بھارت کا کشمیر میں فوجیں اتارنا اور سرحدی رضا کاروں اور جہادیوں کا کشمیر میں داخل ہونا بھی اس مسئلہ کی وہ ٹیڑھی بنیاد ہے جس پر بننے والی ساری عمار ت ہی ٹیڑھی ہوتی چلی گئی، اور پچھلے 72سالوں سے 1965-1971،کارگل کے علاوہ بھی بار بار اس عمارت کے مینارے گرتے اور اپنے ہی مکینوں کو زخمی کرتے رہے۔ یو نائیٹڈ نیشن اور اقوام عالم کے لئے شرمندگے کا باعث بنتے رہے،ادھر کشمیر یوں نے1990 کے بعد سے جو تحریک کشمیر کے اندر شروع کر رکھی ہے۔

جس میں اُنہوں نے ہتھیار بھی اُٹھائے نہتے ہو کر بھی آزادی کا حق مانگا احتجاج کئے ہڑتالیں کیں لیکن سب بے نتیجہ رہے کیونکہ پاکستان اور بھارت ہی کبھی کسی حل پر متفق نہ ہوئے اور نہ ہی عالمی طاقتوں نے اس تنازعہ کا حل ہو جانا اپنے مفاد میں سمجھا۔اب اس ساری تحریک پر سب سے بڑا اور تباہ کن حملہ بھارت نے5اگست کو اپنے آئین میں غیر آئینی،غیر اخلاقی اور غیر قانونی تبدیلیاں کر کے دنیا بھر کے حقوق انسانی کو پامال کرتے ہوئے کیا ہے۔

اس یکطرفہ حملے کے بعد بھارت نے سوا کروڑ میں سے قریباً 80لاکھ کشمیریوں کو ایک سخت ترین کرفیو لگا کر سات آٹھ ہفتوں سے ایک جیل میں بند کر رکھا ہے۔بھارتی اغوأ،مظالم اور جبر کے علاوہ بھی خوراک،ادویات اور بچوں کا دودھ ختم ہو جانے کی بنا پر دسیوں المیے روز جنم لے رہے ہیں، مگر نہ بھارت ٹس سے مس ہو رہا ہے نہ دنیا کی طاقتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں اور اب کشمیر،پاکستان،بھارت اور ساری دنیا کی نظریں عمران خان کی تقریر اور اس پر عالمی طاقتوں،خاص طور پر امریکہ،برطانیہ،فرانس،چین اور جاپان کے ردعمل پر لگی ہیں۔

عمران خان کے پاس  تواب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ دنیا پر واضع کر دیں کہ اگر کم ازکم ان80لاکھ لوگوں کو فوری طور پر بنیادی انسانی حقوق نہیں دیے جاتے تو،قفس کے بند دروازے کھولے نہیں جاتے تو پھر کم ازکم ردعمل صرف جنگ کی صورت ہی سامنے آسکتا ہے جو منطقی طور پر چند ہی ہفتوں میں ایٹمی ٹکراؤ پر منتج ہو سکتا ہے۔اس سے کم مؤقف پر نہ صرف عمران خان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے بلکہ،دنیا کا امن بھی داؤ پر لگ جاتا ہے،کیونکہ پاکستان اور کشمیر کے کئی ایک گروپ اپنے طور پر اعلان جہاد کر سکتے ہیں، اور پاکستان کے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود  طالبان،القاعدہ اورکئی ایک دیگر تنظیمیں اس میں ظاہری یا در پر دہ شمولیت اختیار کر سکتی ہیں جو نہ تو بھارت کے مفاد میں ہو گا اور نہ ہی افغانستان میں پھنسے امریکہ  یا دیگر اتحادیوں کیلئے خوش کن یا مفاد میں ہوگا  اور اگر ایک کشمیر اس طرح سے  کسی جنگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے تو پاکستان کسی صورت اس سے الگ نہیں رہ سکتا  اور پھر بھارت  تو کم از کم اپنی سات ریاستیں آزاد کرنے کیلئے تیار رہے اور باقی کی دنیا بھی خود کو محفوط تصور کرنا چھوڑ دے کیونکہ اگر آپ جنوبی ایشیاء میں جنگ کی اگنی اور ایٹمی الاؤ روشن ہونے کی اجازت دے دیں گے تو پھر یہ آگ کسی وقت بھی دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

خصوصاً ہمسایہ چین اور رؤس تو خود کو اس آگ سے کسی طرح بھی بچا نہیں سکتے،ایسے میں امریکہ،یورپ اور باقی دنیا کے تجارتی مفادات کا کیا انجام ہو گا؟اس کا  اندازہ ہر ملک خود سے لگا سکتا ہے۔بحرحال اقوام عالم کو  مشورہ یہ ہے کہ عالمی دنیا اور سادھ لوح عالم اسلام تیسری عالمی جنگ کا انتظار کرنے کے بجائے امن کو بحال کرنے اور جنوبی ایشیا ء سمیت دنیا بھر کو محفوظ کرنے کیلئے تندہی سے اپنا کردار ادا کریں، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :