کشمیر میں بلڈ باتھ

جمعہ 4 اکتوبر 2019

Ishtiaq Ahmad Atish

اشتیاق احمد آتش

اس میں کوئی شک کی کی گنجائش باقی نہیں ہے کہ عمران خان وزیراعظم پاکستان نے یو این کی جنرل کونسل کے اجلاس میں کشمیر کی بڑی بے باکانہ،جرأت مندانہ اور ہمدرد انہ نمائندگی کر کے اپنی اور تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف بہت بلند کر دیا ہے۔اور سارے پاکستان ہی نہیں،سارے کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں خصوصاً ساری مسلمہ امہ میں ایک خاص اہمیت حاصل کر لی ہے۔

اور او آئی سی جیسے سست اور ڈرے ہوئے فورم کی جگہہ مسلم امہ کا ایک نیا مضبوط اور باجرأت بلاک بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔عمران خان نے جو کامیابی یو این میں حاصل کی ہے اور جس طرح سے گلوبل ایشوز اور مسلم امہ کے کنسرن کو اجاگر کر دیا ہے۔اس سے جابر دنیا کے سامنے کلمہ حق کہنے کا قدرت کا منشا پورا کر دیا ہے مگر اب تک نتیجہ صرف سیز فائر لائن پر شدید بھارتی فائرنگ کی صورت آیا ہے ان ساری کامیابیوں،اس شہرت اور نیک نامی کا محرک مسئلہ کشمیر ہے پاکستان اور کشمیر کے آپس کے تاریخی،جغرافیائی،ثقافتی،سماجی اور دینی مضبوط رشتے ہیں۔

(جاری ہے)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری محنت اور مشقت کے بعد کشمیریوں اور مسئلہ کشمیر کو کیا حاصل ہوا۔ظاہر ہے معاملہ اجاگر ہوا۔دنیا بھر کو ایک اعلیٰ سطحی فورم پر بھارتی ظلم و استبداد کا ادراک ہوا۔کشمیریوں کی مسلسل جدوجہد سے آگاہی ہوئی اور اقوام متحدہ کی مردہ ہو جانے والی قرار دادوں پر سے گرد ہٹی اور و ہ دنیا کی نظروں میں آگئیں۔لیکن چونکہ یہ سب کا سب زبانی زبانی ہوا۔

اسلئے صرف ا س پر تکیہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔آج کئی روز گذر چکے ہیں۔مقبوضہ وادی میں کرفیو نرم کرنیکی اڑتی اڑتی اطلاعات آئی تھیں۔مگر اس کے اثرات نظر نہیں آرہے۔یا بھارتی میڈیا کی خبروں اور بھارتی حکومت کے اقدامات کی اطلاعات تک ہماری رسائی نہیں ہے۔یعنی27ستمبر کے بعد کیا مثبت ہوا۔کیا منفی ہوا۔اس سے یا تو ہم باخبر نہیں۔یا یہ خبریں کسی نے چھپا رکھی ہیں یہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے جو بھی خبر آتی ہے۔

وہ جبر کو حوصلے سے سہنے اور پاکستان سے محبت کے اظہار کی آتی ہے۔اس کے بدلے میں کیا اب ہم27ستمبر کا کام اور کارنامہ ہی دھراتے رہیں گے؟اس کامیابی پر جشن ہو گیا اب پاکستان کو آگے دیکھنا ہے۔انسانی حقوق کے کمشن کو متحرک کرنا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو متحرک کرنا ہے۔یورپی یونین اور برطانیہ کو بطور خاص فوکس کرنا ہے۔ایک طرف اسلامو فوبیا کی بات کر کے عمران خان نے ساری مسلمہ امہ کی اتنی ہی بہتر ین نمائندگی کی جتنی کشمیریوں کی کی گئی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ مسلم امہ کیا کررہی ہے۔

اور ان ساری چیزوں کیلئے لکھنا ہے۔درخواستین،خطوط،مراسلے،قراردادیں۔یعنی اب جو بھی بات دنیا بھر میں جس سے بھی کی جائے وہ صرف لکھ کر کی جائے۔تاکہ بلیک اینڈ وائٹ میں بھی کچھ ہمارے ہاتھ لگے اور دنیا اس پر کوئی نہ کوئی جواب دینے پر مجبور ہو۔یو این جنرل کونسل میں ہمیں بھارت کا جواب پھر ہمارا جواب الجواب تو ہو گیا۔اسی طرح اب ہمیں دنیا بھر سے مسلم امہ سے،انسانی حقوق کے کمشن سے،اقوام متحدہ سے بھی ایک ایک جواب چاہیئے۔

بیشک وہ کورا جواب ہی کیوں نہ ہوا اس کے بعد ہی ہم اگلے اقدامات کاحساب کر کے اپنالائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر سے مکمل کرفیو اُٹھنے کے بعد وادی میں ہونے والے”بلڈ باتھ“اور”بلڈ شیڈ“کا ہمیں بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔حادثات کے رونما اور ظلم و بربریت کے برپا ہونے کا ہماری روایتی پولیس کی طرح انتظار نہیں کرنا چاہیئے۔

بلکہ آگے بڑھ کر ان مظالم کو پیشگی روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہیئں۔جیسا کہ عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اُٹھنے کے بعد”بلڈ باتھ“ہو گا۔میں کہتا ہوں دو طرفہ’بلڈ شیڈ“ہو گا کیونکہ وادی کا یا کشمیر کا رہنے والا بچہ بچہ مجاہد ہے۔آزادی کے جذبے سے سرشار ہے۔حوصلہ مند ہے۔بہادر ہے۔اور جرأت مند بھی،وہ ظلم کا ہاتھ اپنی قوت سے بڑھ کر روکے گا۔

ملکی حالات سازگار رکھنے کیلئے  مولانا صاحب کو اپنے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کرنا ہو گا اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مشوروں پر عمل کرنا ہو گا ورنہ ان کی تحریک کشمیر کے مو منٹم کو توڑنے کی کوشش سمجھی جائے گی، رہ گیا ان کا حکومت کے خلاف مو ئقف،تو وہ اگر پچھلے سوا سال میں خراب نہیں ہوا تو ایک مہینہ آگے پیچھے کرنے سے بھی نہیں ہوگا مگر کشمیریوں کا بہت کچھ بگڑ سکتا ہے، رہ گئی دنیا اور عالم اسلام کی  اور باقی دنیا کی بات تو ان کو لکھنے کے باوجود ہمیں ان کے جوابات کا انتظار کرنا ہو گا۔

لیکن ایک قدم ہے جو ہم ابھی اُٹھا سکتے ہیں جو بھارت کے آئین میں غیر قانونی وغیر آئینی تبدیلیوں کا جواب بھی ہو گا۔اورتوڑ بھی ہو گا۔وہ ہے آزادکشمیر حکومت کو سارے جموں وکشمیر کی نمائندہ اور جانشین حکومت تسلیم کرلینا۔مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے اندر کونسی کو تاہ اندیش قوتیں اس نظریے کی مخالفت پر درون خانہ کمر بستہ ہیں۔ورنہ بھارت کو اس سے بڑا ور مؤثر پر امن جواب اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔

یہ جواب دے کر ہم دنیا کے کئی ایک غیر جانبدار ممالک کی کھلی  حمایت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔اور کشمیریوں کو بولنے کا وہ حق بھی مل سکتا ہے جس پر بھارت سب سے زیادہ سیخ پا ہو تا ہے۔اور مجبور بھی۔کہ اس سیاسی قدم کا وہ عسکری جواب بھی نہیں دے سکتا کیونکہ یہ آزادحکومت وحکومت پاکستان اسی سٹینڈ سٹل معاہدہ کی پاسدر ہو گی جس پر قائد اعظم نے12اگست 1947ء کو ستخط کیئے تھے۔

اور قانونی طور پر بھارت بھی اس کا پابند ہو گایعنی دیگر تین کے علاوہ دفاع بھی پاکستان کی ذمہ داری ہو گا۔اس طرح بھارت کو ایک قوت کے بجائے دو قوتوں سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ایک آزاد اور جانشین حکومت جموں و کشمیر اور دوسری پاکستان کی بہادر افواج، اس فیصلے سے پاکستان اور آزادکشمیر میں جاری تعلق پر فوری طور پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔البتہ پوری دنیا کو فرق پڑے گا۔

کشمیریوں کے خود اعتمادی میں فرق پڑے گا اور بھارت کو فرق پڑے گا۔کیونکہ مقبوضہ کشمیر کا ایک حقیقی دعویدار ظاہر ہو جائے گا۔جسے کسی صورت کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔پھر اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے خود عمران خان پورے امریکہ اور پاکستان میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ آزادی کے بعد کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو دیکھنا چاہیے کہ ان سے زیادہ طاقتور پاکستان میں کونسی قوتیں ہیں۔

جو اس طرز فکر اور نظریے کو دبانا اور دبائے رکھنا چاہتی ہیں۔ان سے بھی پوچھ لیا جائے کہ اس مخالفت میں اور کتنے لاکھ کشمیری مروانا اور کتنے فوجی شہید کروانا چاہتی ہیں وہ قوتیں کیون نہیں چاہتی کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں ہونے والی دہشت گردی کا جو رشتہ کشمیر کے اندر جاری تحریک سے جوڑا جاتا ہے وہ ختم ہو، یا کم ہو۔کشمیری آزادانہ اپنی آزادی کی جنگ لڑیں اور پاکستان سرد جنگ کے زمانوں کی طرح ان کی پشت پناہی بھی کرے اور اخلاقی،سیاسی و سفارتی حمایت بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :