جب قومیں تباہ ہوتی ہیں

جمعرات 4 جون 2020

Javed Ali

جاوید علی

آج اس زمین پر بہت سی قومیں آباد ہیں جو اپنے کارناموں پر فخر کرتی ہیں- ان کے آباؤ اجداد نے اپنے اپنے دور میں کچھ کارنامے سر انجام دیئے اور یہ کارنامہ ان کے نام کی پہچان بنے- انہوں نے اپنے کام میں مہارت دیکھائی اور لوگوں کو جو کہا کر دیکھایا-
اس دنیا فانی میں قوموں کے عروج و زوال بھی ساۓ کی مثل ہے جو اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے پہلے پہر کو دائیں ہے تو پچھلے پہر بائیں طرف- جب یہ قومیں عروج پر ہوتی ہیں دوسری قوموں کی جرت نہیں ہوتی ان کے سامنے بول سکیں- وہ مخصوص قومیں عروج کے دور میں پوری دنیا میں اپنا لوہا منواتی ہیں چاہے وہ برطانوی ہوں یا امریکن ہوں یا کوئی اور- جب تک یہ قومیں عروج پر ہوتی ہیں تو وہ اپنے کارنامے گنا نہیں کرتی بلکہ وہ مزید کارنامے سر انجام دینے کی کوششیں کر رہی ہوتی ہیں- وہ کارناموں پر فخر کرنے کی بجاۓ مزید کارنامے سر انجام دینے میں اپنے آپ کو مصروف کئے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے کارنامے گننے اور ان پر فخر کرنے کے لۓ دوسری قومیں ہوتی ہیں یا ان کے چند دانشور ہوتے ہیں جو ان کی تعریفیں کر کر کے اپنے قوم کو گھٹیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی قوم کو مایوس کرتے ہیں-
جب یہی قومیں عروج سے تنزل کی طرف آنا شروع ہوتی ہیں تو انصاف کرنے سے گریز کرتی ہیں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتی ہیں نسل پرستی عروج پر چلی جاتی ہے جس طرح امریکہ میں تعصب اور نسل پرستی ان دنوں کھل کر سامنے آئی ہے- جب قومیں تباہ و برباد ہوتی ہیں تو صرف اور صرف اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں نہ کہ اپنے کیۓ پر- اپنے اسلاف کے کارنامے گننا شروع کر دیتے ہیں ہم نے وہ کیا یہ کیا کیونکہ ناکارہ قومیں ایسا ہی کرتی ہیں- ہم میں بہت سے لوگ بڑوں یا بزرگوں کی محفل میں بیٹھتے ہیں جو ہمارا دیہاتی کلچر ہے تو بزرگ ہمیں اپنے تجربات بتاتے ہیں- آپ نے کچھ بزرگ دیکھے ہوں گے جو خاموش بیٹھے ہوتے ہیں یا جب بولتے ہیں تو سننے والے ان کی گفتگو میں مگن ہو جاتے ہیں- وہ ہمیں پیار اور محبت سے اپنے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے بارے میں سمجھاتے ہیں اور کوئی نیا تجربہ بتاۓ اسے پر اپنی وکالت کی بجاۓ تعریف کرتے ہیں- دوسری طرف آپ کو بتونی لوگ ملتے ہیں جو کسی کی بات کرنے کا موقع تک نہیں دیتے وہ اپنی بات کہنے کے عادی ہوتے ہیں سننے کے نہیں, وہ نہیں دیکھتے کوئی ان کو سننا چاہتا ہے یا نہیں- یہ وہ ناکارہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا ہوتا وہ دوسروں پر ہر وقت تنقید کرتے رہتے ہیں- یہ لوگ ڈھول کی مثل ہوتے ہیں جو اندر سے خالی ہوتا ہے اور اس کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے- قومیں بھی اسی طرح ہوتی ہیں جو تباہ و برباد ہو جاتی ہیں یا تنزلی کا شکار ہوتی ہیں وہ خود آگے جانے کی بجاۓ ترقی یافتہ قوموں پر تنقید کرتی رہتی ہیں اور اپنے اسلاف کےنام اور ان کے کارناموں کو ہی بیان کرتے رہتے ہیں آگے جانے ( ترقی) کی کوشش نہیں کرتی- بد قسمتی سے ہم بھی ان قوموں میں سے ایک ہیں جو اپنے اسلاف کے کارنامے بتانے میں مصروف ہیں ہم نے پاکستان حاصل کیا, ہم نے 1965 کی جنگ جیتی, ہم نے ورلڈ کپ جیتا وغیرہ- جو قوم ایک سوئی بنانے کے قابل نہیں جب وہ ہمارے سائندانوں کی محنتوں اور قربانیوں سے نیوکلئیر پاور بن گئی تو اب اس کا ہر ایک فرد کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے- نواز شریف کہتا ہے میں نے پاکستان کو نیوکلئیر پاور بنایا, شیخ رشید صاحب کہتے ہیں میں نے کابینہ سے منظوری دلوائی وغیرہ لیکن جو بھی ہے اس معاملے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان, ذوالفقار کی بھٹو, غلام اسحاق خان, اور جنرل ضیا حقیقی معنوں میں اس کریڈٹ کے حقدار ہیں-
اگر ہمیں ترقی کرنا ہے تنزلی سے بچنا ہے تو پھر ہمیں دیکھنا ہو گا آج ہمارا یہ حال کیوں ہوا ہے, لعن تعن کرنے کی بجاۓ خود کو ان حالات کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگئ- اپنے ماضی کو دہرانے کی بجاۓ ماضی سے سبق سیکھنا ہو گا, ہمیں اپنے قابل لوگوں کو داد دینی ہو گئ, اپنی بے لگام زبان کو لگام دینا ہو گئ, حقیقت کو سامنے لانے ہو گا, انصاف کرنا ہو گا, سچ کا ساتھ دینا ہو گا, دوسروں کو برداشت کرنا ہو گا, نئی جامع حکمت عملی اپنانا ہو گئ, اپنی زبان کو روئج کرنا ہو گا اور اسی میں تعلیم دلانا ہو گا, اپنے آپ کو غیرت مند قوم بنانا ہو گا, اپنی خامیوں کو دور کرنا ہو گا, اپنے نظریہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور اپنے آپ کو کرپشن اور سود سے پاک کرنا ہو گا, ہر ادارے کو خود اپنا احتساب کرنا ہو گا اور اپنے دائرہ میں رہنا ہو گا, اور ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :