تبدیلی سرکار میں بھی اپنوں کو نوازنے کی روایات برقرار

جمعرات 18 جون 2020

Javed Ali

جاوید علی

پاکستان تحریک انصاف 2018 میں تبدیلی کا نعرہ کے ساتھ برسر اقتدار آئی- جس نے آسمان سے تارے توڑ کر لانے جیسے وعدے کیے, جس نے نوے دن میں پاکستان کو نیا پاکستان بنانا تھا آج اسے تقریبا سات سو دن ہو چکے ہیں لیکن کچھ نہیں بدلا بدلے تو صرف چہرے بدلے, اسمبلیوں میں شانتی اور معذب طریقہ سے تقریر کرنے والوں کا انداز گالی اور شور میں بدلہ, بدلہ تو عوام کو بے وقوف بنانے کا انداز بدلہ شورش کاشمیری نے یوں نقشہ کھیچا تھا کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
مختصر, اس سیاسی پارٹی کی لیڈرشپ نے بھی ہمارے ساتھ وہ کیا جو روایتی لیڈرشپ کرتی چلی آ رہی تھی- اس نے عوام کا سوچنے کی بجاۓ اپنوں کو نوازنے کی روایات کو قائم رکھا- ہمارے دکھ کی داستان تو بہت لمبی ہے لیکن میں آج صرف پنجاب بجٹ کی بات کروں گا جو 2019- 2020 تک خرچ کیا گیا اور اس کا نئے بجٹ 2020-2020 پر کیا اثر پڑا-
 حکومت پنجاب نے 40 ارب روپے 1224 منصوبوں کے لئے مختص کیے تھے انہوں نے وہ خرچ ہی نہیں کیے- 10 ارب روپے 56 منصوبوں کے لئے رکھے گئے ان کی منظوری ہی نہیں دی گئی- 11 ارب روپے 489 منصوبوں کے لئے رکھے گئے ان کے لئے فنڈ نہیں جاری کئے گۓ, 18 ارب روپے 669 منصوبوں کے لئے رکھے گئے ان کے جاری فنڈ استعمال نہیں کیے گئے, 30 کروڑ کے 5 منصوبے ادھورے ہیں, 27 کروڑ کے 14 ایمرجنسی منصوبوں پر خرچ نہیں ہوۓ-
وفاق سے پنجاب کے حصہ کے 1611 ملین میں سے 1128 ملین دیا گیا یہاں 483 ملین کا شارٹ فال (short fall) ہوا- پاکستان میں پنجاب کے عوام سب سے ٹیکس ادا کرنے والے ہیں حکومت پنجاب کا ریوینیو ٹارگٹ 295 ملین کا تھا جو انہوں نے صرف 191 ملین اکٹھا کیا ہے جہاں بھی انہوں نے 104 ملین کا نقصان کیا ہے- پچھلی حکومت 577 ملین روپے ڈیویلپمنٹ (development) کے لئے چھوڑ کر گئی تھی جو پر پرسن کے حساب سے 5147 روپے بنتے ہیں اس حکومت نے اسے 255 ارب پر لا کھڑا کیا ہے جو تقریبا پچاس فیصد کم ہوا ہے-
سبسیڈی (subsidies) کی مد میں 62 کروڑ رکھے گئے جس میں انہوں نے 36 فیصد کٹ لگایا ہے- ضعلی تعلیم کے لئے 273 ملین رکھے گئے لیکن 207 ملین دیئے گۓ جو 24 فیصد کٹ لگایا گیا- صحت کے لئے 90.20 ملین روپے رکھے گئے جس میں سے تقریبا اکسٹھ ملین دیئے گۓ- شوگر اور فوڈ وغیرہ کے لئے 65 ارب روپے رکھا گیا کسی کو کوئی پتہ نہیں کہاں خرچ کیا گیا- تعلیم اور صحت کا ستیاناس تو سردار بزدار نے کیا ہے ابھی بھی الزام پہلے والوں پر دیا جا رہا ہے- ستیاناس بھی اس قوم کا کیا جارہا ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے اسی دسمبر کی بات ہے کہ میں اپنے بھتیجے کو سکول چھوڑنے جا رہا تھا کہ راستے میں ایک نرسری کلاس کا طالبعلم سکول دوڑتا جا رہا تھا جس نے وردی تو پہنی ہوئی تھی لیکن پاؤں میں جوتے نہیں تھے ہاتھ میں قائدہ اور کاپی نہیں تھی کیا حکومت ان بچوں کے شوق کی قدر کرے گی- جب یہ پھول مرجھا گئے تو حکومت کچھ نہیں سکے گی- ابھی وقت سنبھلنے کا ہے اس نسل کو ان پڑھ بننے سے بچا لے-
حکومت پنجاب نے غیر ضروری بہت خرچ کیا مثلا وزیراعلی آفس کے لئے 590 ملین رکھے گئے جبکہ 781 ملین خرچ کیے گئے, وزرا کے لئے 109 ملین رکھے گئے جو 310 ملین خرچ کیا گیا, وزیراعلی  سیکریٹریٹ (Secretariat) کو بھی اضافی 19 کروڑ کی گرانٹ دی گئی اسی طرح پندرہ ارب جنرل ایڈمنسٹریشن کے لئے سپلیمنٹری گرانٹ دی گئی- انہوں نے گن مینز کی فی افطاری ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کئے ہیں- اب بات آتی ہے اپنوں کو نوازنے کی تو میں بتا دوں کہ 533 لاکھ صرف اور صرف دو گاؤں بستی بزدار اور کھٹ بزدار کو موٹروے سے ملانے اور تونسہ شہر سے ملانے کے لئے خرچ کیا گیا جبکہ بجٹ کی تقسیم آبادی کے حساب سے ہوتی ہے جو جنوبی پنجاب کا حصہ 32 فیصد ہے دیا گیا لیکن شہباز شریف کی طرح اپنے گھر جاتی سڑکوں پر لگایا گیا- ضعلی فنڈ میانوالی کے لئے 50 فیصد سے زیادہ, لودھراں کے لئے 26.23 فیصد, ڈیرہ غازی خاں کے لئے 25.83 فیصد جبکہ لاہور کے لئے 0.8 فیصد بڑھایا گیا- ن لیگ والے تو انکوائریاں بھگت رہے ہیں ان کی بھی تو انکوائیری ہونی چاہیے-
حکومت تقریبا 1067 ارب روپے آنے والے سال کی آمدن میں سے خرچ کر چکی ہے- اب جو بجٹ تعلیم کے لئے مختص کیا جا رہا ہے وہ پنجاب یونیورسٹی کے اخراجات سے بھی کم ہے جبکہ ڈیمانڈ پچیس ارب روپے کی گئی ہے اگر تعلیم کے لئے ڈویلپمنٹ بجٹ میں رقم نہں دی جاتی تو پھر اللہ ہی خیر کرے اور اسی طرح ہیلتھ سیکٹر کا بھی بیڑا غرق کیا گیا- آج مجھے ایک سنئیر بیوروکریٹ کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے کہ آپ کو کبھی دیانتدار اور نا اہل, کرپٹ اور کمپیٹنٹ میں سے اپنا لیڈر اڈاپٹ کرنے پڑ جاۓ تو کرپٹ اور کمپیٹنٹ کو چن لینا کیونکہ کرپشن کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن نا اہل کو اہل نہیں بنایا جا سکتا- ان کی بات اب سمجھ آ رہی ہے کہ ان کی بات سو فیصد ٹھیک ہے- ہم نے ایک دیانتدار اور نا اہل بندہ حکمرانی کے لئے چن لیا جس کی ہمیں سزا تو بھگتنا پڑے گی- خان صاحب کی سوچ کچھ یوں ہے کہ
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :