جزو کو دیکھ کر کل کا فیصلہ کرتے ہیں ہم لوگ

اتوار 20 ستمبر 2020

Javed Ali

جاوید علی

انسان تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے- انسان چاہتا ہے بیک وقت ہر چیز کو کنٹرول کر لے, دوسرے انسان سے کسی نہ کسی طرح آگے نکل جاۓ- یہی وجہ ہے اتنی بڑی دنیا کو اس نے گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے- ہر وقت دنیا کے ہر کونے سے باخبر رہنے لگا ہے کمیونیکیشن, ٹرانسفورٹیشن وغیرہ میں بہت آگے نکل چکا ہے- آج سے سو سال پہلے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہم اپنے گھر بیٹھ کر سرحد پار دوسرے بیٹھے شخص سے اس طرح لائیو بات کریں گے کہ اسے اس کی غیر موجودگی تک کا احساس نہیں ہوگا یعنی وہ اپنے دوست بھائی سے اس طرح بات کریں گے کہ وہ ایک دوسرے کو ہزاروں میل دور بیٹھے دیکھ سکیں گے- انسان جس طرح گلوبلائزیشن کی طرف مزید چلا جا رہا ہے اسی طرح اس کے اندر جلدبازی آتی جارہی ہے, رویہ میں شدت آتی جارہی ہے, اخلاقیات سے گرے کاموں میں ملوث ہوتا جا رہاہے- انسان دوسرے شخص کی زندگی کے ایک ہی پہلو کو دیکھ کر اسکے مستقبل کی پیشن گوئی کر لیتا ہے کہ وہ خوش قسمت ہے یا بد نصیب- لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ہم کسی کی زندگی کے ایک پہلو کو دیکھ کر اس کی خوش قسمتی یا بدنصیبی کا تعین نہیں کر سکتے-
آپ نے گاؤں میں دیکھا ہو گا کہ جب کبھی کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو یہ گاؤں میں رسم ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ, درد غم و خوشی میں شریک ہوتے ہیں تو لوگ اس شخص کی زندگی کا اس ایک پہلو سے ہی تعین کرتے ہیں- کسی کی دو تین بھینسیں مر گئی تو کہا "تسی تے اجڑ گئے" حالانکہ اس حادثہ سے کوئی اجڑتا یا آباد نہیں ہوتا بلکہ یہ اک قسم کا امتحان ہوتا ہے, کسی کی فصل اچھی ہو گئی تو کہتے ہیں " تو وس پیا ایں" یعنی آپ خوشحال ہو گئے ہو لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو اک ایونٹ یا زندگی کا ایک حصہ ہوتا ہے- بابا اشفاق احمد زاویہ میں اسی بات کو اک کہانی کے انداز میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ ولایت سے واپس لوٹے تو ان کے پاس جاب تھی نہ پیسہ جس سے وہ ایک اچھا کاروبار کر سکتے تو اسی اثنا میں ان کا ایک نہایت دانشور اور عقلمند ٹھیکیدار نور محمد سے تعلق قائم ہوا- وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ اس کا تین منزلہ بلڈنگ زیر تعمیر گر کر ملبے کا ڈھیر بن گئی تو دوست آ گئے اور کہا کہ تو تباہ ہو گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوۓ بغیر کسی شکوہ کے کہا الحمداللہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا بس ایک لنٹر ڈالا تھا گر گیا اس میں نقصان نہ نقصان والی کیا بات ہے یہ میری زندگی کا ایک واقعہ ہے اس لئے اسے میری ساری زندگی پر مت ہاوی کریں خیر دوست چلے گے- نور محمد اپنے کام میں پہلے کی طرح مگن تھے کہ اک دن انہیں ایک شخص نے تین تھیلے روپوں کے دیۓ اور کہا آج سے گیارہ سال قبل میں آپ کے بیس لاکھ دبا کر بھاگ گیا تھا آج پاس بہت کچھ ہے لیکن ضمیر مجھے چین سے سونے نہیں دیتا آپ مجھے معاف فرما دیں- یہ خوشی کی خبر سن کر دوست احباب دوبارہ آۓ اور کہا آپ کے تو نصیب جاگ گئے آپ تو بڑے خوش نصیب ہیں آپ پر اللہ کا خاص فضل ہے نور محمد نے پہلے والا جواب دھرایا اور کہا یہ تو زندگی کا ایک حصہ ہے اس پر آپ میری اچھی بری قسمت کا مت فیصلہ کریں- نور محمد کی عادت تھیں جو روپیہ پیسہ ہوتا وہ گھر لے جاتے انہوں نے بیس لاکھ تکیہ کے نیچے رکھا جس طرح چند ایک دیہاتی لوگ آج بھی کرتے ہیں ان کا بینک کچن کی چھت, چارپائیاں یا دیواروں کے سوراخ ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی جمع پونجی رکھتے ہیں انہی جگہوں پر وہ اپنی اولاد کی شادیاں سب کےلئے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں- نور محمد نے سب کچھ اپنے سرھانے رکھا اور سکھ کی نیند سو گیا چور جو پہلے ہی بیڈ کے نیچے چھپا ہوا تھا سب کچھ اٹھایا اور چلتا بنا نور محمد کو اس دن کوئی خبر نہ ہوئی ورنہ وہ جاگ جاتے تھے- پہلے کی طرح دوست دوبارہ غم خواری کےلئے آۓ اور کہا ساری کی ساری خوشی خاک میں مل گئی پیسہ آیا اور چلا گیا- اس بندہ خدا کے چہرے پر کوئی پریشانی کے آثار نہیں تھے کہ اسی دوپہر انہیں چور سمیت رقم مل گئی اور چور کو پولیس کے حوالے کیا گیا اور نور محمد اک دن لمبی تان کر ہمیشہ کےلئے سو گئے-
 انسان کی زندگی بہت سارے حالات و واقعات, قسطوں سٹیجز پر مشتمل ہے اسی لۓ ہمیں انسان کی زندگی, نصیب یا قسمت کا تعین ایک واقعہ یا حادثہ سے نہیں لگانا چاہیے بلکہ اس سے سبق سیکھتا چاہیے اور مستحکم ہونا چاہیے- انسان بہت جلد باز ہے کہ انسان کی زندگی کی ایک ہی قسط کو دیکھ کر اس کے اچھے یا برے ہونے کا تصور بنا لیتا ہے- میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمیں نور محمد کی طرح بننا چاہیے اور حق اور سچ کا ساتھ دینے کا تعیہ کر لینا چاہیے- ہمیں جزو کو دیکھ کر کل کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :