عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا، تو کیا ہوگا؟

جمعرات 17 جون 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

کسی دور میں ایک حکومت سے عوام تنگ آچکی تھی۔ مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ عوام کو دو وقت کی روٹی تو کیا کبھی کبھی ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی، معاملات اس حد تک بگڑے کہ نوبت کئی کئی روز کے فاقوں تک پہنچ جاتی تھی۔ محصولات کی مد میں عوام سے بہت سا اناج، گنے کی فصلیں اور کپاس کی فصلیں تک لے لی جاتی تھیں۔ عوام اس صورتِ حال سے بہت پریشان تھی کبھی سرکار سے التجا کِرتی اور کوئی اُمید نا بر آتی دیکھ کر کبھی اپوزیشن کی جماعتوں کے جلسوں میں شریک ہو کر نعرے لگاتی اس امید پر کہ شاید اس طرح ہی ان کی کچھ شنوائی ہو سکے ۔

مگر کہیں سے بھی عوام کے دل کی مراد نہ بر آئی۔ تھک ہار کی عوام نے توڑ پھوڑ شروع کر دی جس پر حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کو تھوڑا ہوش آیا اور اُنھوں نے بالآخر ایک تاریخ مقرر کر کے عوام کے مسائل کے حل کے لئیے اجلاس بلا ہی لیا۔

(جاری ہے)

اس اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان دست و گریباں ہو گئے اور اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا اور عوام حکومت اور اپوزیشن کا منہ دیکھتے رہ گئے۔

عوام نے اگلے دن دوبارہ توڑ پھوڑ کی تو ایک بار پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا دن طے کیا گیا اور عوام کو یہ یقین دلوایا گیا کہ اس بار عوام کی داد رسی ضرور کی جائے گی جس پر عوام کو کچھ اطمینان ہوا اور اُنھوں نے مذاکرات کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ مگر اس بار بھی مذاکرات کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں گالم گلوچ کرتے رہے اور دست و گریبان ہوتے رہے اور عوام منہ دیکھتی رہ گئی۔

اس کے بعد عوام نے ایک بار پھر توڑ پھوڑ کی تو حکومت اور اپوزیشن کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا مگر اس بار غربت کی چکی میں پستی عوام اپنے ساتھ کلہاڑیاں اور پھاؤڑے لے کر آئی اور مذاکرات کے ختم ہونے کا انتظار کرتی رہی اور جیسے ہی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان عوام کے مسائل کا کوئی حل نکالنے کی بجائے تیسری بار بھی آپس میں گتھم گتھا ہو گئے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وہ پارلیمنٹ پر حملہ آور ہو گئے اور کلہاڑیوں اور پھاوڑوں کے وار کر کے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے تمام ارکان کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس کے بعد عوام نے خود ہی کچھ سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں کا انتخاب کر کے ان کو مختلف حکومتی ذمہ داریاں دیں مگر اُن سب کے گھروں اور دفتروں پر کلہاڑی بردار تعینات کر دئیے گئے تاکہ پھر کوئی اقتدار کے نشے میں عوام کو بھول نا جائے۔


اب اگر ہم آج کے دور کے حالات کو دیکھیں اور حالات کا موازنہ کریں تو صورتِ حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ سیلیکٹڈ وزیراعظم کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں عوام کو “صبر کارڈ” دکھایا جاتا ہے جس کو دیکھ دیکھ کر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے کیونکہ مہنگائی، بیروزگاری و لا قانونیت نے عوام کا جینا حرام کر دیا ہے بلکہ موجودہ مہنگائی کے بے قابو جن نے سفید پوش طبقہ کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اور حکومت اس مہنگائی کے جن پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے اور “آئی۔

ایم۔ایف بجٹ” کے بعد اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے ٹیکس نا لگانے کی یہ دعویدار حکومت کئی نئے ٹیکس لگائے گی اور یہ مہنگائی بم ایک ایک کر کے غربت کی چکی میں پستی عوام کے سر پہ گرائے جائیں گے ۔
عوام یہ بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ اس حکومت کے تقریباً تین سالہ دورِ حکومت میں کئی اسکینڈل سامنے آئے، کبھی مہنگی ادویات کا اسکینڈل تو کبھی چینی اسکینڈل، کبھی آٹا اسکینڈل تو کبھی ہوٹل میں شراب کے لائسنس کے اجرا کا اسکینڈل، کبھی براڈشیٹ کو ادائیگی کا اسکینڈل تو کبھی رنگ روڈ اسکینڈل جس میں انصاف کی دعویدار حکومت کے اہم ارکان جو کہ عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں یا تھے وہ سب ملوث پائے گئے۔


 
حقیقت تو یہ ہے کہ بڑھکیں مار کر اقتدار میں آنے والی یہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکی اور اپنی ناقص حکمتِ عملی اور غیر تسلی بخش پالیسیوں کی بدولت عوام کو کوئی فائدہ نہیں دے سکی۔ اس حکومت نے کرپشن اور لوٹ مار کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا اور عوام کو ریلیف پہنچانے کی بجائے اُن پر مصائب اور مشکلات کے پہاڑ توڑنے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام اُن کے نامہ اعمال میں اب تک درج نہ ہو سکا ہے۔

بجلی کا بحران جو پچھلی حکومت کے دور میں تقریباً ختم ہو گیا تھا پتا نہیں کیسے دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ توانائی کے وزیر حماد اظہر کا یہ کہنا ہے کہ بجلی ضرورت سے زیادہ پیدا کی جا رہی ہے مگر ترسیل کا نظام ٹھیک نا ہونے کی وجہ سے ترسیل نہیں ہو پا رہی۔ تو حماد اظہر سے کوئی یہ پوچھے کہ پچھلے سال کے بجٹ میں توانائی کے مختلف منصوبوں اور بجلی کی ترسیل کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے تھے ، اس کا کیا بنا؟ بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر کیوں نا ہو سکا؟
ایک طرف تو عوام حکومت سے ان سب سوالات کا جواب چاہتی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کے عوامی مسائل کو بھلا کر آپس کے جھگڑوں کو دیکھ دیکھ کر مایوس ہوتی چلی جا رہی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستی ہوئی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو کیا ہوگا؟ جی ہاں، انتہائی خوفناک نتیجہ نکلے گا۔ یہ فیصلہ اب حکومت اور اپوزیشن نے کرنا ہے کہ وہ واقعی عوام کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں یا اسمبلیوں میں دست وگریباں ہو کر یا ایک دوسرے کو محض گالیاں دے کر معاملات چلانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ عوام اب تنگ آچکی ہے کہیں ایسا نا ہو کہ عوام صبر کا دامن چھوڑ کر دونوں کا استقبال کلہاڑوں اور پھاوڑوں سے ہی نا کرنے پر مجبور ہو جائے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :