دنیا کو کھٹکتا نیوکلیر آرمڈ پاکستان!

جمعہ 23 جولائی 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

پچھلے ایک ہفتے سے وطن عزیز میں پیش آنے والے واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ قوتیں جو پاکستان کو کسی صورت معاشرتی اور معاشی طور پر مظبوط اور ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتیں وہ قوتیں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد کی پیدا ہونے والی صورتِ حال سے مکمل فائدہ اْٹھا رہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر اْن قوتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے والا پاکستان ایک بار پھر اْن قوتوں کے نشانے پر ہے۔

اگر ہم کڑی سے کڑی ملا کر دیکھیں تو ان تمام سازشوں کو ہم با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ واقعات کا تسلسل اور اْن سے پیدا ہونے والی صورتِ حال اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ آنے والے وقت میں پہلے سے ہی معاشی، سیاسی، معاشرتی عدم استحکام اور عالمی تنہائی کے شکار پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جا رہا ہے جو کہ انتہائی گھمبیر صورتِ حال ہے۔

(جاری ہے)

پے در پے واقعات جیسے داسو ہائیڈرو پاور منصوبے میں کام کرنے والی چینی کمپنی غضوبہ کی بس میں دھماکا، جس میں نو چینی باشندوں سمیت کل 13 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور 27 افراد زخمی ہوئے۔ اس کے بعد پاکستان میں تعین افغان سفیر کی بیٹی کے اغوا کی عجیب و غریب واردات اور افغان سفیر کا عجلت میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر سفارتی عملے سمیت پاکستان چھوڑ کر چلے جانا حالانکہ پاکستانی حکام اْن کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کر رہے ہیں، ایسی صورتِ حال میں افغانستان نے اپنے سفیر کو سفارتی عملے سمیت پاکستان چھوڑنے کا حکم دینا اور وہ بھی اتنی عجلت میں، بظاہر تو اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگر افغان حکام نے یہ فیصلہ کیوں کیا یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ بھارت نے یہ یقینی بنایا کہ پاکستان کا نام فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس ”ایف اے ٹی ایف“ کی گرے لسٹ میں برقرار رہے۔ اب یہ بیان یا تو بھارت کی کھلی بے وقوفی ہے یا دیدہ دلیری ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی طور ہر تنہائی کا شکار کروانے کے بعد یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہم جو چاہیں پاکستان کے ساتھ کر سکتے ہیں اور ہمیں اْن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کو نئیوکلئیر آرمڈ پاکستان ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے۔

اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان واقعتاً، افغانستان میں امن کا خواہاں اور ایک پائیدار اور مضبوط افغان حکومت کے حق میں ہے اور پاکستان کی کوششوں سے ہی طالبان، امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آئے تھے جس کے بعد امریکہ کے فوجی انخلا کی راہ ہموار ہوئی اور پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ مذاکرات کے جس عمل میں اْس نے تعاون کیا وہ ناکام ہو اور افغانستان ایک بار پھر انتشار کا شکار ہو کیوں کہ اس کا براہ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔

مگر دوسری طرف بہت سے افغان تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان درپردہ طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ پاکستان طالبان کی در پردہ حمائیت کر رہا ہے؟ جبکہ تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے یکم مئی سے لے کر اب تک ڈیڑھ سو سے زائد اضلاع کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تاہم افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر علاقے “حکمتِ عملی” کے تحت چھوڑے ہیں۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی “حکمتِ عملی” ہے جس کے تحت افغان حکومت نے وہ علاقے پلیٹ میں سجا کر طالبان کو خود “پیش” کر دئیے ہیں اور پھر طالبان کی حمائیت کا الزام اْلٹا پاکستان پر لگایا جا رہا ہے؟دوسری طرف پاکستان کے نشریاتی اداروں پر افغانستان کی جانب سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کی فتوحات کو بہت بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان ، طالبان کی حمایت کر رہا ہے۔

کچھ دن پہلے بھارت نے قندھار میں موجود اپنے قونصل سے اپنے عملے کی واپسی کی بات کی اس کے بعد ایک پاکستانی نیوز چینل پر اس علاقے پر طالبان کے کنٹرول کی خبر نشر ہوئی تو اس کو بھی بنیاد بنا لیا گیا کہ پاکستان نے جان بوجھ کر اس خبر کو چلایا کہ جس سے یہ تاثر جائے کہ طالبان بہت سے اہم علاقوں کو اپنے قبضے میں لیتے جارہے ہیں اور پاکستان اس سے بہت “خوش” ہے۔

ایسی کئی بے بنیاد باتوں کے ذریعے پاکستان پر الزام تراشی کا کوئی بہانہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا اور کوئی بھارت سے یہ پوچھنے کی جر?ت نہیں کر رہا کہ پچھلے 14 سالوں سے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پہ بھارت کے 17 قونصل خانوں کا کیا جواز ہے؟ ان قونصل خانوں سے کیا کام لیا جا رہا ہے وہ ہر شعور رکھنے والا چاہے وہ پاکستانی ہو یا افغانی ہو سب جانتا ہے کہ ان قونصل خانوں کا مقصد سازشیں کر کے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے لڑوانے کہ علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

جنرل (ر) حمید گل مرحوم اکثر ایک بات کہا کرتے تھے کہ “ 9/11 بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے”
وقت اْن کی اس پیشن گوئی کو سچ ثابت کر رہا ہے۔پاکستان کا دہشت گردی پہ کامیابی سے قابو پا کہ آگے بڑھنا، چین کے ساتھ تجارتی اور تعمیراتی منصوبوں کے معاہدے ہونا، سی پیک جیسے تاریخی معاشی منصوبے کا معاہدہ، پاکستان کی چین کے توسط سے روس کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور پھر علاقائی کرنسی میں تجارت کے معاہدے جس سے خطے میں ڈالر کی اجارہ داری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ جو کہ امریکا کو کسی صورت قبول نا تھا۔

لہٰذا ایک سازش کے ذریعے پاکستان کی منتخب حکومت کو نشانہ بنا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کروانا، سی پیک جیسے معاشی گیم چینجر تجارتی معاہدے کو سست روی کا شکار کروانا، بھارت کی پیٹھ تھپتھپا کر سی پیک روٹ کے قریب موجود بھارت کے زیرِ تسلط علاقے لداخ میں سڑکوں اور پلوں کی اچانک اور ناجائز تعمیرات، بھارت کو افغانستان میں مظبوط کر کے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں دوری لانا اور پاکستان کے دوست ملک چین پر پاکستان کی سرزمین پہ پے در پے حملے کروا کے پاکستان اور چین کے تعلقات کو خراب کرنے کی سازشیں کرنا اور مقبوضہ کشمیر کی ذاتی حیثیت ختم کرکے بھارت کا حصہ بنانے کے بھارت کے غیر قانونی اقدام کی پس پردہ حمائیت، یہ تمام باتیں یہ تمام باتیں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ دْنیا کا واحد مسلمان ملک نئیوکلئیر آرمڈ پاکستان دْنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور وہ قوتیں جن کو پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے اب ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کا بازار گرم کر چکی ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ داخلی و خارجی معاملات میں پہلے سی ناکام یہ حکومت کیا ان سازشوں کو دْنیا کے سامنے بے نقاب کر پاتی ہے کہ نہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :