غداروں کی بارات

بدھ 6 جنوری 2021

Kausar Abbas

کوثر عباس

غداری والے معاملے میں ہم کسی کا ادھار نہیں رکھتے ۔اِدھر کسی نے غداری کی کوشش کی اُدھر ہم نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا ۔ کون کیس چلائے ؟ شہادتیں اکٹھی کرے ؟ قانون کا اطلاق کرے اور پھر سزائیں دے؟غداری کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ہم اس معاملے میں جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ کرنے کے قائل ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہم قانون کی عملداری کو نہیں مانتے بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارا ماننا یہ ہے کہ باقی جرائم میں پہلے کیس دائر کیا جائے اور پھر سزا دی جائے لیکن غداری والے جرم میں پہلے سزا دی جائے اور پھر کیس چلایا جائے بلکہ نہ ہی چلایا جائے تو بہتر ہے تا کہ باقی غدارسبق حاصل کریں۔


لفظ ”غدار“ کا شمار بھی انہیں الفاظ میں ہوتا ہے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے نفرت کا مجموعہ ہیں ۔

(جاری ہے)

اس طرح کے الفاظ سنتے ، بولتے ، لکھتے اور پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ گویا تمام نفرت ایک ہی جگہ امڈ آئی ہو ۔اگر ایک ”اسم “ کی وضع میں اس قدر نفرت سموئی ہوئی ہے تو اس کے موضوع لہ اور ”مسمّیٰ “ کا وجود اس کا بوجھ کیسے اٹھاتا ہو گا جبکہ وہ غدار بھی نہ ہو بلکہ مذموم مقاصد کی خاطر اسے اس ”اسم با مسمّیٰ “ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہو ؟ہم نے کبھی الفاظ کا وزن کیا اور نہ ہی ان کے مدلولات کا کماحقہ ادراک کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا وہ لفظ قوم کے نزدیک اپنا معیار کھو بیٹھے ۔

جب کوئی قوم الفاظ کو بھی ذاتی مقاصد کی منڈی میں نیلام کرنے کی ٹھان لے تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ غداری جیسی لعنت کو بھی تمغہ سمجھا جانے لگتا ہے ۔ الفاظ موم کی ناک نہیں ہوتے کہ جدھر مرضی ہو موڑ لیا جائے بلکہ ان کا استعمال درست پیرائے میں نہ ہو تو وہ بے وقعت ہو جاتے ہیں ۔اس بات کو تو مکے کے ”جاہل“ کافر بھی سمجھتے تھے ۔تبھی تو انہوں نے جانی دشمن ہونے کے باوجود ”صادق “ اور ”امین“ جیسے الفاظ کا مدلول نبی کریم ﷺ کو بنایا تھا تا کہ ان مقدس الفاظ کا معیار برقرار رہے۔

یعنی وہ اندھی دشمنی میں بھی الفاظ کا درست استعمال نہ بھولے۔ لفظ غدار کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تا کہ اس کا مدلول لوگوں کی ہمدردی حاصل کر کے ہیرو نہ بن سکے لیکن ہم نے اس کو بھی اتنابے محل استعمال کیا کہ اب کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنہیں غدار قرار دیا گیا ، قوم انہیں غدار ماننے کو تیار نہیں کیونکہ اس صف میں نیشنل گارڈزاور اپوا(APWA)کی بانی بیگم رعنا لیاقت علی ، قائداعظم کے بااعتماد ساتھی اور ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان ، قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے مولانا فضل حق خیر آبادی ، اسی قرارداد کو سندھ اسمبلی میں پیش کرنے والے جی ایم سید ، تحریک پاکستان کے ہر اوّل دستے کا سپاہی حسین شہید سہروردی ، قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ پاکستان کا پہلا صدر بننے والے خواجہ ناظم الدین ، خودقائداعظم کی بہن فاطمہ جناح اور بنگال میں مسلم لیگ کا روح رواں ، قائداعظم کے جلسے کرانے والا اور فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلانے والے شیخ مجیب الرحمن جیسی شخصیات کھڑی ہیں ۔


ہم نے صرف لفظ غدار ہی نہیں بلکہ ”نااہل “، ”جلاوطن “ اور ”کرپٹ“ جیسے اہم اور وزنی الفاظ کو بھی اپنی بے احتیاطی سے بازیچہ اطفال بنا ڈالا ہے ۔جب کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لیے ایک بھرپور تحریک چلانے والے کے ایچ خورشید جیسے انسان کو سڑکوں پر گھسیٹا اور کرپٹ کہہ کر جیل میں ڈالا جائے گا ، بیگم سلمیٰ تصدق حسین جیسی تحریک پاکستان کی کارکن کو کرپٹ کہہ کر نااہل کیا جائے گا ،مسلم گارڈز کے لیے اپنا گھر وقف کرنے والے میاں افتخارالدین جیسے انسان کو کرپٹ کے تمغے سے نوازا جائے گا اورپاکستان کا نام تجویز کرنے والے چودھری رحمت علی کے اثاثے ضبط کر کے خاندان سمیت جلا وطن کیا جائے گاتو کون ان الفاظ پر یقین کرے گا ؟یہی وجہ ہے کہ آج جب کوئی نااہل ہوتا ہے تو لوگ اس سے نفرت کتنے کی بجائے ہمدردی کرنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں بیگم سلمیٰ تصدق کا قصہ یاد آ جاتا ہے، جب کسی کو کرپٹ کہا جاتا ہے تو لوگوں کے ذہن میں میاں افتخار الدین جیسے لوگوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک دستک دینے لگتا ہے،جب کسی کو جیل میں ڈالا جاتا ہے تو لوگ نفرت کی بجائے کے ایچ خورشید کو یاد کرنے لگتے ہیں ، جب کسی کو جلا وطن کیا جاتا ہے تو لوگوں کو قومی ترانے کی دھن ترتیب دینے والے کی جلاوطنی یاد آ جاتی ہے،جب کسی پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے تو لوگ ہنس ہنس کرایک دوسرے کو ڈاکٹر عبدالقدیر کی کہانی سنانے لگتے ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ فلاں کی اولادیں باہر کیوں بیٹھی ہیں تو لوگ قائداعظم کو سونے اور چاندی میں تولنے والے والی قلات کے پوتے کے ملک چھوڑنے کو یاد کرنے لگتے ہیں۔

کاش ہم الفاظ کے تاجر نہ بنتے !
جب الفاظ کو بھی بکاوٴ مال سمجھ لیا جائے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ۔جب بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں فلاں کی اولاد کو بھی بدکردار منوا لیا جائے تویقین کرنے کی بجائے لوگوں کو وہ سلوک یاد آ جاتا ہے جو قومی پرچم ڈیزائن کرنے والے امیرالدین قدوائی اور مسلم لیگ کے تیرھویں صدر مولانا حسرت موہانی کے پوتے، مسلم لیگ کے بانی نواب محسن الملک کے نواسے حسن ناصر ،1947 میں جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کرنے والے شاہنواز بھٹوکے بیٹے اور پوتے پوتیوں اور 1947 میں ہی کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مہم چلانے سردار ابراھیم کے بیٹے کے ساتھ روا رکھا گیا ۔

ان حالات میں بہتر تو یہی ہے کہ شناختی کارڈ پر ایک اضافی خانہ بھی بنا دیا جائے جہاں بوقت ضرورت غدار یا محب وطن لکھا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :