امن معاہدہ

پیر 22 فروری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ایک زمانہ تھا جب پاک افغان سرحد جیسے ڈیورڈ لائن بھی کہا جاتا ہے، انتہائی پُر سکون تھی، دونوں جانب چین ہی چین تھا، اسکی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سرحد کے آر پار قبائل برادری سے تعلق رکھنے والے پشتون آباد ہیں، ان میں جو قدر مشترک تھی ایک تو ہم زبان ہونا دوسرا باہم خونی رشتوں کا ایک مضبوط تعلق ہونا ہے،یہ وہی قبائل تھے جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کرپاکستان کے زیر تسلط کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار کی تھی یہ تو سری نگر تک جا پہنچے تھے کہ جنگ بندی کا بگل بج گیا اور انھیں واپس لوٹنا پڑا۔

دوہزار کلو میٹر سے زائد طویل سرحد پرہماری افواج کو کبھی بھی ٹروپس تعینات کر نے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی، دونوں اطراف کے مردوخواتین بوقت ضرورت سرحد پار کرتے تھے،لیکن انھوں نے کبھی کسی دشمن کو یہ موقع فراہم نہ کیا تھا کہ فائدہ اٹھاکر ارض پاک میں کسی سازش میں مرتکب ہوتے،اس وقت بھی جب پختونستان کا شوشہ چھوڑ کر تعصب کا زہر گھولا جا رہا تھا تب بھی قبائلی قیادت نے اس پر کوئی توجہ نہ دی،بنیادی سہولیات سے محروم، حالت غربت کے باوجود زندگی بسر کرنے والے قبائل نے کبھی بھی زبان پر شکوہ لانے کی جسارت نہ کی،اسی طرح جب ازلی دشمن بھارت نے دودفعہ جنگ ہم پر مسلط کی تو افغانستان کی قیادت ہر لحاظ سے غیر جانب دار رہی۔

(جاری ہے)


جب روس نے افغانستان میں سرخ انقلاب کے لئے اپنی افواج داخل کی تھیں،تو اہل افغان کے ساتھ ہمارے نوجوانان نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا،علاوہ ازیں ان لاکھوں مہاجرین کی بھی مہمان نوازی کا اعزاز حاصل کیا جوبے بسی کے عالم میں ہجرت پر مجبور ہوئے،اگرچہ بعض سماجی حلقے جہاد افغانستان کو اپنی عینک سے دیکھتے ہیں، لیکن طویل عرصہ تک جنگ جاری رہنے اور بارڈر پر آمدورفت کی آزادی کے بعد بھی امن وامان اس قدر مخدوش نہ تھا جس کا عملی مظاہرہ نائن الیون کے بعد دیکھنے کو ملا تھا کہا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے بڑی طاقتوں کا ہی ہاتھ تھا جنہوں نے تمام متحرب گروہوں کی اپنے مفاد کے لئے پشت پناہی کی جس کے اثرات تاحال نہ صرف افغانستان بلکہ وطن عزیز پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

قابل تحقیق یہ ہے جن کی میزبانی کا فریضہ اہل وطن نے انجام دیا ،اِنکی مملکت کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیاانھیں آخر اس مقام تک کیوں لایا گیا ہے کہ انکی سرزمین ہمارے خلاف ہو رہی ہے،سرحد پار سے ہماری فورسز پر حملے اس بات کے غماز ہیں کہ کچھ قوتیں پس پردہ متحرک ہیں جن کا مقصدمسلم ہمسایوں کے مابین دوریاں پیدا کرنا بھی ہے،اگر اسکا فائدہ ہمارے دشمن کو مل رہا ہے،تو پھرافغان بھایئوں کو لازم سوچنا ہو گا کہ وہ ایسی قوتوں کے کیوں آلہ کار بن رہے ہیں جنہوں نے ملکی جارحیت کے وقت اِنکو تنہا چھوڑ دیا تھا،
اہل افغان نے اس وقت سکھ کا سانس لیا تھا جب قطر کے دارالحکومت میں افغان سرکار اور طالبان میں اِمن مذاکرات کے کئی اَدوار ہوئے ،اِسکے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے لیکن اس کے باوجود افغان سرزمین دھماکوں سے لرز رہی ہے، افغان سیکورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں،افغان حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے، امریکہ میں نئے صدر براجمان ہو چکے ہیں، سابق صدر تو خواہاں تھے کہ افغانستان سے اپنی افواج کو نکال باہر کریں، یہ مطالبہ طالبان کا بھی ہے،بعض عوامی حلقے امریکی افواج کے انخلا ء پر تحفظات رکھتے ہیں کہ انکی عدم موجودگی میں وار لاڈز اور وہ جنگجو گروہ جو فی الوقت پس پردہ چلے گئے تھے پھر سے ان کے متحرک ہونے کا امکان ہے، ہندوہستان کی افغانستان میں غیر ضروری مداخلت نے ان شرپسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا تھا، کچھ کے خیال میں جب تلک ریاست کا کوئی مستقل سیاسی حل نہیں نکلتا ،امریکی افواج کا یہاں قیام ضروری سمجھا جائے،جب کہ طالبان کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کی موجودگی ہی بد امنی کی وجہ ہے ،اس اعتبار سے اسلام آباد کا موقف بھی انکے قریب تر ہے کیونکہ چین اور امریکہ کے مابین معاشی جنگ سے بھی خطہ میں تناؤ ہے۔


یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے امریکی نائب صدر ہندوہستانی نژاد ہیں ،اور انڈیا لابی امریکہ میں اپنا وزن رکھتی ہے ،اس لئے وہ اپنی حمائت اس پلڑے میں ڈالیں گی جسکا جھکاؤ انکے آبائی ملک کی طرف ہو۔اگرچہ جوبائیڈن کشمیر کے مظلومین کے حق میں آواز بلند کر نا چاہتے ہیں لیکن اپنی نائب صدر کی موجودگی میں وہ شائد اتنی توانا نہ ہو،اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوہستان چین کے منصوبہ سی پیک بھی اس نگاہ سے دیکھتا ہے جس زاویہ سے امریکہ دیکھ رہا ہے۔


حال ہی میں افغان طالبان نے امریکہ سے امن معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے،اور اسکے راہنماء نے کہا ہے کہ طویل جنگ کا فوجی حل قابل قبول نہیں،امریکہ کے حق میں بہتر ہے کہ وہ مکمل انخلاء کرے،ملاء برادر نے کہا ہے کہ افغان عوام مسلط کی ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔
تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری عالمی برادری افغانوں کو جنگ وجدل میں دھکیلنے کی ذمہ دار ہے، پاکستان ہی وہ واحد ریاست ہے کہ جس نے اس جنگ کی افغانوں کے ساتھ بھاری قیمت ادا کی ہے پھر بھی اِسکو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، اسلام آباد کو اس وقت کشمیر اور افغانستان کے محاذوں پر سفارتی طور پر مجادہ کرنا پڑ رہا ہے، عالمی برادری افغانستان میں قیام امن کے لئے فیصلہ کا اختیار اس سیاسی قوت کو عطا کرے جس کوعوام کی حمایت حاصل ہے،گذشتہ چار دہایئوں کی امریکی خارجہ پالیسی جنوبی ایشیاء میں امن قائم کرنے اور درینہ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے میں ناکام رہی ہے،مگر طاقت کے زور پر اس نے ہر اس ملک کی مدد لی جو اس کا اتحادی رہا ہے۔


نو منتخب صدر کو طالبان کی جانب سے امریکی عوام کے نام کھلے خط کا انتہائی مثبت جواب دینا ہوگا، اور امن معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا ہو گا،ورنہ اس کے نتائج بڑے بھیانک ہوں گے،اسلام آباد نے افغان طالبان اور کابل سرکار کو قیام امن کے لئے بہترین ماحول فراہم کیا ہے،اب امریکی انتظامیہ، افغان عوام اور خطے کی ریاستوں کو افغانستان
 میں دیر پا امن کے لئے اسکے سیاسی حل پر اتفاق کرنا ہو گا، طالبان کی جانب سے امن کا ہاتھ بڑھانے کو کمزوری نہ سمجھا جائے،امریکی افواج کا پر امن انخلاء پاکستان اور طالبان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے،لیکن اہل افغان کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستانی قوم نے اپنا پیٹ کاٹ کر نامسد حالات میں اِنکی میزبانی کا فریضہ انجام دیا ہے،قبائل اپنی درخشاں روایات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے دشمن کو اپنا کندھا فراہم کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کی اخلاقی ذمہ داری تو ضرور پوری کریں ۔

کیونکہ اب یہ خطہ مزید بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :