اقتدار کلاس

بدھ 10 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

دکھائی یوں دیتا ہے کہ ہماری نسل نو اِس جمہوریت سے جلد ہی توبہ تائب ہو جائے گی،اور اپنی آزادانہ رائے سے بھی راہ فرار اختیار کر لے گی ،جس نے گذشتہ انتخاب میں بڑے ذوق و شوق سے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔آج جب وہ اپنے منتخب کردہ اراکین پارلیمنٹ کے لچھن دیکھتے ہیں ،تو انکا دل ایسی محبت سے باز رہنے کو چاہتا ہے صوبائی اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ وہاں جنگ وجدل کا سماں ہی نظر آتا ہے،مار پیٹ کے کلچر سے عوام کی کونسی خدمت مطلوب ہے،اگر اس کا مقصد اپنی بالا دستی ہی قائم کرنا ہے تو یہ عمل سرکاری مراعات کے عوض کیوں جاری ہے،جن سیاسی جماعتوں سے اِنکی وابستگی ہے، بھلا انکا بھی کوئی قانون، دستور ہے جو اِن غیر اخلاق حرکات پر اِن سے باز پرس کر سکے،اِنکو اپنی پارٹی سے نکال باہر کرے یا کچھ مدت کے لئے اِن پر پارٹی کے دروازے بند کر دے، مسٹر سپیکر کے پاس اتنے بھی اخیتارات نہیں کہ وہ انھیں” پیلا کارڈ “ہی دکھا دیں، ان کا سیاسی وزن کسی ایمپائر سے بھی کم ہے۔

(جاری ہے)


سیاست دنیا کا اتنا بہودہ فعل بھی نہیں کہ اس سے نفرت کی جا سکے یہ تو عوامی خدمت کا دوسرا نام ہے،آج کے گلوبل ولیج میں ایسی حرکات وسکنات جب پورا عالم دیکھتا ہو گا، تو وہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ہوں، اگر یہ دھینگا مشتی قوم کو ریلیف دینے کے لئے ہو، قوم کے درینہ مسائل کے حل کے لئے ہو تو پھر بھی بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اِسکا مرکزومحور اراکین کی اپنی ذات ہو تو کیا ایک مقروض قوم بھاری بھر مراعات کے عوض لڑائی جھگڑا کی عیاشی افیورڈ کر سکتی ہے،آج کے سوشل میڈیا میں جب اراکین پارلیمنٹ کی مراعات کا ”ذکر خیر“ ہوتا ہے اور انکی گوورننس سامنے آتی ہے تو عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ہم ان کا انتخاب محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مرنے مارنے پر اتر آئیں لیکن جب قوم کا مفاد پیش نظر ہو تو پھر انھیں تمام ضوابط یاد آجائیں۔


قومی انتخاب میں لڑائی فساد کا جو کلچر عہد ماضی کا حصہ تھا وہ اب قتل و غارت تک جا پہنچا ہے، ڈسکہ کے حالیہ ضمنی انتخاب اس کی بد ترین مثال ہے،اس کے ماہ بعد اثرات کتنے خوفناک ہوتے ہیں اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس کلچر کو سمجھتا ہے،اِسکی وساطت سے دشمنی کی ایسی بنیاد رکھ دی جاتی ہے جس کی بھاری قیمت ان خاندانوں ہی کو ادا کرنا پڑتی ہے جو فرط جذبات میں آکر اس مقام تک جا پہنچتے ہیں جہاں سے واپسی بڑے نقصان کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ۔


انتخاب کا خالصتاً تعلق سیاسی جماعتوں سے ہے،لیکن کارکنان کے لڑائی جھگڑے بتاتے ہیں کہ اِنکی تربیت کرنے اور ان میں امن پسندی لانے، قوت برداشت پیدا کر نے میں یہ کلی طور پر ناکام نظر آتی ہیں،اِسکا اثر قومی سیاست میں بھی نمایاں ہو رہا ہے،بعض عوامی حلقے یہ محسوس کرتے ہیں کہ نسل نو کے اخلاق بگاڑنے میں حکمران جماعت کا بڑا ہاتھ ہے،کسی سربراہ مملکت کا رویہ جتنا اچھا
 اپنے مخالفین سے ہوگا اس کے اتنے ہی مثبت اثرات عوام پر مرتب ہوں گے،شومئی قسمت اس معاملہ میں ہمارے صاحبان اقتدار کا ریکارڈ قطعی قابل فخر نہیں ہے۔


ہر جمہوری ملک میں انتخابات کا ہونا تو لازمی امر ہے، لیکن ہمارے ہاں اس عمل کوزندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے،اس عمل کو دیکھتے ہوئے بہت سے افراد نے اپنا حق رائے دہی ہی استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا، تاہم گذشتہ انتخاب میں نوجوانان قوم کی بڑی تعداد اِس اُمید پر پولنگ اسٹیشن گئی تھی کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعہ تبدیلی کی خواہاں تھی، لیکن قارئین بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات کو دیکھ کر انھیں شدید مایوسی ہوئی ہے،انکا خواب تھا کہ قانون اور آئین کی حکمرانی ہوگی،جس شخصیت کو انھوں نے اپنا آئیڈل بنایا تھا ان کے فرمودات سے لگتا تھا کہ تبدیلی چند دنوں کی بات ہے لیکن ارباب اختیار کے اردگرد وہی چہرے دیکھ کر اِنکے خواب بکھرنے لگے ہیں۔


مقتدر طبقہ کا خیال ہے کہ بااثر افراد کے بغیر مسند اقتدار تک پہنچنا نا ممکن ہے، ہمارا گمان ہے کہ اگر یہ فلسفہ نسل نو کے سامنے پہلے رکھا جاتا تو انکا ردعمل لازماً مختلف ہوتا۔ الیکٹیبل کلاس سے تعلق رکھنے والوں نے سینٹ کے انتخاب میں کیا گُل کھلائے ہیں ،خریدو فروخت کے کلچرمزید پختہ کر کے یہ واضع پیغام دیا ہے کہ اِنکی ہمدردی صرف ”اقتدار کلاس “ہی سے ہے،طرفہ تماشہ نہیں کہ ایک طرف بیروزگاروں کی فوج ظفر موج ہو تو، مہنگائی کے بوجھ سے عوام کا دم نکل رہا ہو تو دوسری طرف کئی ارب میں اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ کی خریدوفروخت کا عمل جاری ہو،کیا یہ سرمایہ کسی اور ریاست سے آیا تھا،بدعنوانی کے خاتمہ کی گردان کرنے والی سرکار اس پر کب نوٹس لے گی، کیا نیب بھی متحرک ہوگا، کہا جارہا ہے کہ الیکشن کمیشن میں عدلیہ کے علاوہ انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے منجھے ہوئے افراد پہلی بار اس کا حصہ ہیں، اِنکی جرات اظہار ہی نے ڈسکہ میں نہ صرف دوبارہ پولنگ کا حکم صادر فرمایا ہے، بلکہ افسرشاہی کے کچھ افراد بھی غفلت برتنے پر معطل کر دئے گئے،اس سے یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن انتظامی اور مالی اعتبار سے ہندوہستان کی طرح آزاد ہو جائے گا۔

تاہم سینٹ الیکشن میں اراکین پر لگنے والے مالی بدعنوانی کے الزامات الیکشن کمیشن کے لئے ٹسٹ کیس بھی ہیں۔
ایوان بالا کے قیام کا مقصد تو چھوٹے صوبہ جات کو عوامی نمائیندگی کے لئے برابرکا حق دینا تھا، اِسکے اراکین کے انتخاب میں پیسہ کی کھلم کھلا مداخلت سے چھوٹے صوبہ جات کے متعلقہ نوجواناں میں احساس محرومی بڑھے گا وہ ممبران جنہوں نے اس ”گناہ“ میں شمولیت کی ہے اپنے مفاد کی بجائے عوامی مفاد کووہ کیسے ترجیح دیں گے۔


اتتخابی عمل کومنصفانہ اور قابل قبول بنانا سرکار کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی بھی قومی ذمہ داری تھی ، موجودہ سیاسی پس منظر میں ہمیں صرف جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت دکھائی دیتی ہے جس پر اسکی قیادت کا نہ صرف کنٹرول ہے بلکہ اس کے اندر جمہوریت بھی ہے،اس سارے عمل میں ڈر، خوف ،لالچ بھی ا س کے اراکین پارلیمنٹ کو اپنا موقف تبدیل کر نے پر مجبور نہ کر سکا، شب ورز ہونے والے جمہوری تماشہ سے نسل نو انتہائی مایوس ہے، اِنکے تخیل میں بانی پاکستان جیسا ، بااُصول ،مدبرسیاست دان ہے،
 بہت زیادہ مایوسی کسی بڑے حادثہ کا باعث بن سکتی ہے،ایسا سماج جو پہلے ہی معاشی تضادات کاشکار ہو،وسائل کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ ہو اس کے نوجوانان کو اپنا آلہ کار بنانے کے لئے دشمن کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی، نجانے مقتدر طبقہ کب اپنی اداؤں پر غور کر یگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :