ترقی کا سماجی ماڈل

ہفتہ 18 جولائی 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جس عہدکو جمہوریت کا عروج کہا جاتا ہے،وہ دور بنیادی جمہوریت ہی سے خالی تھا،”شہید جمہوریت“ کا اعزاز پانے والوں نے مقامی حکومتوں کا انتخاب کروانے سے نجانے کیوں صرف نظر کیا ،جن ادوار کو آمرانہ کہا جاتا ہے انھوں نے ہی بلدیاتی نظام کی داغ بیل ڈالی،ہر چند اس کاذکرکتابوں میں تو تھا، یونین کونسل کو عہد ایوبی میں تاریخ میں پہلی بار الیکٹوریل کالج کا درجہ ملا، بلدیاتی کونسلرز نے پہلے آمر کو باوردی صدر بنانے کا” شرف “حاصل کیا،مارشل لاء کی قالین کے نیچے سے ایک سیاسی جماعت برآمد کرتے ہوئے،مادر ملت کی شکست کا ساماں پیدا کیاگیا،نہیں معلوم اُس وقت کے” بادشاہ“ دھاندلی زدہ الیکشن سے صدر کا عہدہ پا کرکتنے نہال تھے مگر بانی پاکستان کی محترمہ بہن کی ناکامی کو بنگالیوں نے دل سے محسوس کرتے ہوئے اپنی راہیں جدا کرلیں،ابتدائی سالوں کی سیاسی ابتری میں مقامی حکومتوں کے الیکشن تو درکنارقومی انتخاب کروانے بھی محال تھے، کہا جاتا ہے کہ پہلے بلدیاتی انتخابات کی فیوض و برکات معدودے چند سیاسی خاندان اور افسر شاہی ہی سمیٹ سکی،سیاسی جماعتیں تو اس وقت ”ایبڈو“ کے تحت پابندی کی زد میں تھیں،سقوط ڈھاکہ سے لے کر دوسرے مارشل لاء تک ملک میں مقامی حکومتوں کا کوئی نظام ہی موجود نہ تھا،بعد ازاں نئے آرڈیننس کے تحت اربن اور رورل کی انتظامی تقسیم وجود میں آئی غیرجماعتی بنیادوں پر مقامی حکومت کے الیکشن دوسرے باوردی صدر کے عہد میں ہوئے، مقامی ہی نہیں قومی سطح پر بھی اسکے منفی اثرات ہماری سیاسی تاریخ پر مرتب ہوئے، بلدیاتی انتخاب میں ہر مقام پر چیرمین کا انتخاب زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا گیا، ممبران کی اغوا کاری سے لے کر پیسہ کے بے دریغ استعمال سے’سیلف گورنمنٹ“ کا مقصد ہی فوت ہو گیا، اقتدار مفاد پرست افراد کے ہاتھوں میں آگیا، جمہوریت کی ناکامی کا درد لئے ایک بار پھر نئے جنرل وارد ہوئے،اور نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کی خوشخبری سنا ڈالی،سامراجی دورکے سرکاری عہدوں کو نئے نام د یئے گئے،ضلعی مقامات اور عوامی دہلیز پر مسائل کے حل کی نوید دی، کمشنری نظام کو کمزور کرکے عوامی نمائیدگان کے ناتواں کندھوں پر امن وامان کی ذمہ دار ی بھی ڈال دی، چیرمین کی بجائے ناظم کی اصطلاح وجود میں آئی۔

(جاری ہے)

ڈی سی کو ڈی سی او کہا جانے لگا۔
 عمومی رائے یہ ہے کہ اگر اس نظام کو سیاسی مداخلت سے آزاد کرکے خلوص نیت سے چلایا جاتا تو یہ وڈیرہ شاہی،سرداری نظام کے خلاف ایک ”خاموش انقلاب “ مقامی سطح پرثابت ہوتا،مخالف کے ہر کام کوتنگ نظری سے دیکھنے اور اس میں کیڑے نکالنے کی قومی روایت نے ا سکو پنپنے نہ دیا کہ اٹھارویں ترمیم سے مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبوں کی جھولی میں ڈال دیئے گئے،اب ہر وفاقی اکائی قانون سازی اوراس کے انتخاب میں آزاد ہے،انکا انتخابی دورانیہ، طریقہ انتخاب بھی الگ الگ ہے۔

ممکن ہے ایک صوبہ میں یہ معطل ہوں تو دوسرے میں مقامی حکومت عوامی خدمت میں مصروف ہو،اس میں کیا حکمت پنہاں ہے، یہ توماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔
تاہم حالیہ کرونا وباء میں ان حکومتوں کی کمی شدت سے محسوس کی گئی، پنجاب میں انکی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا، مگرجہاں فنکشنل تھیں وہاں بھی صوبائی انتظامیہ ان پر حاوی دکھائی دی،جو انکے وجود سے انکار کی ایک صورت تھی،اراکین اسمبلی کا یہ تعصب نمایاں رہا، مقامی حکومت کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس میں مقامی اور عام شہری شامل ہوتا ہے، عالمی سطح پر بھی مقامی حکومت کو مضبوط جمہوریت کی بنیاد ماناجاتا ہے،اراکین کی اولین ذمہ داری قانون سازی ہے،مغرب میں نہ تو ان کو فنڈز دئے جاتے ہیں، نہ ہی یہ نالیاں اور سولنگ تعمیر کروانے کے
 پابند ہیں، ہمارے ہاں سیاسی رشوت کے طور پر اس مشق کو جمہوری اور آمریت کے ادوار میں روا رکھا گیا ہے،جس سے یہ تاثر مضبوط پیدا ہوا کہ سیاست خدمت سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔


 ترقی پذیر ریاستوں کے برعکس یورپی ممالک میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری مقامی حکومت کو ادا کرنا ہوتی ہے،فائر فائٹنگ سے لے کر گداگری کے تحفظ تک اور یتامی ٰ کے ادارے سے لے رفاعی کاموں تک،تعلیم، صحت کی ضرویات کو پورا کرنا، بچوں کی پیدائش،شادی بیاہ کا ریکارڈ رکھنا، تدفین میں سہولت دینا، لائبریری، میوزیم کا قیام عمل میں لانا، کسی نمائش کا اہتمام کرنا،درخت لگانا، پارک بنانا، سٹریٹ لائٹس لگوانا،سول ڈیفنس کی خدمت انجام دینا،سلاٹر ہاوس بنانا یہ عمومی فرائض ہیں، عرب ممالک میں تو قیمتوں پر کنٹرول رکھنا بھی مقامی حکومت یا بلدیہ کے ذمہ ہے، قومی خزانہ سے ملنے والی رقوم کے علاوہ ان خدمات پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے ٹیکس وصولی کا نظام بھی وضع کیا جاتا ہے،یہ قریبا تمام فراہم کردہ سہولتوں کی مد میں لیا جاتا ہے،جس میں پارکنگ ، بل بورڈ،انتقال اراضی ،شادی بیاہ ،پیدائش،دستاویزات کی تصدیق کی فیس کے علاوہ شادی ہالوں،تعلیمی اداورں،گاڑیوں،پراپرٹی سے ٹیکس لینا بھی محصولات میں شامل ہے۔


 ہمارے ہاں بھی اگر ”سیلف گورنمنٹ“ فروغ پا جائے، عوام اپنے وسائل بڑھانے اور مسائل از خود حل کرنے کے اہل ہو جائیں،مقامی افراد کی فیصلہ سازی میں شرکت سے تو بلا امتیاز تمام علاقہ جات میں ترقی کا سفر مسلسل جاری ہو سکتا ہے،، دنیا میں سماجی ترقی کا یہ کامیاب ماڈل ہے۔
 یونین کونسل کے لئے قریباً دس ہزا ر افراد پر مشتمل آبادی کا پیمانہ ہمارے ہاں مقرر ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اس آبادی کا ریکارڈرکھنا قطعی مشکل نہیں،افراد کی معاشی،سماجی حثیت،ناخواندہ بچوں کی تعداد،نومولود کا ڈیٹا مستقبل کی منصوبہ بندی میں بڑا معاون ہو سکتا ہے،اسکی وساطت سے موذی بیماریوں کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے،ناگہانی آفت میں مستحقین تک پہنچنا بھی آسان ہے،ہماری غالب آبادی دیہات میں مقیم ہے ،اسکی ترقی زراعت سے وابستہ ہے،لہذا ا نکے لئے وہاں روزگار کے مواقع فراہم کرنا ،زراعت سے متعلق کاٹیج اندسٹری لگانا سود مند ہو سکتا ہے ،شہروں کی بے ہنگم آبادی اس بات کی غماز ہے کہ ماضی میں دیہاتی آبادی کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کی بدولت انھیں شہروں کا رخ کرنا پڑا ہے۔

دس دیہاتوں کے لئے ماڈل ہسپتال،کالج،ہر گاؤں میں طلباء و طالبات کے لئے ثانوی تعلیم کی سہولت،وٹرنری شفاخانہ،سیوریج،صاف پانی کی فراہمی، دیہات کی جامع مسجد میں اعلی تعلیم یافتہ خطیب کا تقرر، نیم خواندہ افرادکے لئے ووکیشنل ایجوکیشن،لایئوسٹاک کی خریدپر قرضوں کی بلاسود ادائیگی،ذہین طلباء وطالبات کے لئے وظائف کا اجراء ٹیکس کی آمدن،عشر اور زکوة کی باضابطہ وصولی سے سب کچھ ممکن ہے، یہ نظام سماج کے مختلف طبقات میں احساس محرومی ختم کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔


حلقہ بندیوں کے عمل سے مقامی حکومتوں کے انتخاب کا آغاز ہو چکا ہے جو انتخابی عمل کی بنیاد ہے تاہم ہمارے ہاں اس پر اثر انداز ہونے کی روایت بڑی پختہ ہے،مقتدر حلقے اگر آرزو مند ہیں کہ جمہوری عمل نچلی سطح تک سرایت کر جائے ،لازم ہے کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوں، تاکہ سیاسی جماعتیں گراس روٹ لیول تک وجود پا سکیں۔جب تلک اراکین پارلیمنٹ وسعت قلبی کا مظاہرہ نہیں کریں گے،
 ترقیاتی فنڈز کے سحر سے آزاد ہو کر مقامی حکومتوں کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کریں گے ، قومی ترقی کا روایتی سفر ہی ممکن ہو سکے گا،جمہوریت کے فوائد پر بھاشن دینے کی بجائے بلدیاتی نظام حکومت کے ماڈل کو اپنانا ہوگا جو سماجی ،اور جمہوری ترقی کی ضمانت بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :