قاضی کے فیصلوں سے قاضی پہ ریفرنس تک

اتوار 21 جون 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس خارج کر دیا گیا۔ اس بات پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چاہنے والے اور وکلا حضرات شادیانے بجا رہے ہیں جبکہ فیصلے کے مطابق اُن کی اہلیہ کی جائیدادیں اور معاملات ایف۔بی۔ آر کو تحقیقات کے لئے بھجوا دیے گئے ہیں اور نوٹس ان کے گھر جو کہ ان کو بطور جج ملا ہوا ہے وہاں بھجوایا جائے مزید ہفتہ وار بنیادوں پر اس کی پیش رفت سے سپریم کورٹ کو آگاہ رکھا جائے۔


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کہانی کا آغاز حدیبیہ پیپر ملز کیس سے ہوا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے فرمایا کہ یہ کیس اب دوبارہ نہیں کھل سکتا، جو کہ درست بات تھی۔ دوسرا پڑاوٴ اس کہانی کا شیخ رشید کے خلاف مسلم لیگ ن کے شکیل اعوان کی درخواست تھی جس کے تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے فیصلہ شیخ رشید کے حق میں دیاجبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے یہ نوٹ لکھا کہ میں شیخ رشید کے حق میں یا خلاف فیصلہ بعد میں لکھوں گا پہلے فل کورٹ آئین کی شق 62 اور 63 کا فیصلہ کرے کہ اس کے معیار کیا ہیں،قاضی صاحب یہیں نہیں
رکے انھوں نے کچھ سوالات بھی بنا ڈالے اور مقتدر اداروں کو بھی ایک طرح سے سنا ڈالیں۔

(جاری ہے)

پھر آتا ہے کہانی کا تیسرا پڑاوٴ اور وہ ہے فیض آباد دھرناکیس۔قاضی صاحب نے فیصلہ تو دیا مگر اس فیصلے میں جذبات کا عنصر بھی غالب رہا، اس فیصلے میں وہ اداروں سے مزید الجھ پڑے۔ میرے رائے میں شیخ رشید اور فیض آباد والے فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب اپنی حدود سے بہت سی جگہوں پر تجاوز کر گئے۔ جو کہ بطور جج نہیں کرنا چاہیے تھا۔
اب آتے ہیں اس فیصلے پر واپس تو یہ فیصلہ اکثریتی رائے سے تو ہے مگر متفقہ نہیں کیونکہ صدارتی ریفرنس کو خارج کرنے میں بھی دس میں سے نو جج حق میں تھے جبکہ ایک جج جنا ب جسٹس یحییٰ آفریدی نے قاضی صاحب کی درخواست کو خارج کرنے کا کہا، میں اَب جبکہ نو جج صاحبان کہوں گا، کیونکہ جسٹس یحییٰ آفریدی ریفرنس خارج کرنے کے حق میں تھے مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے موقف کے خلاف تھے۔

اس لیے باقی نو میں سے سات ججز نے قاضی صاحب کی اہلیہ کی جائیدادوں کے معاملات کو ایف۔ بی۔ آر بھیجنے کا کہا اور دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر نے اس کی مخالفت کی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قاضی فائز عیسیٰ جیتے یا جیت حکومتی ایوانوں کی ہوئی؟ کیونکہ اس فیصلے میں کہیں بھی ریفرنس بنانے والے بدنیت لوگوں پر کارروائی کا کوئی نام و نشان نہیں۔

جناب جب یہ ریفرنس غلط ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، تو پھر جن کی بدنیتی
تھی ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنا تو لازمی تھی ، اس میں تو بدنیتی کا ذکر تک نہیں،اور کچھ نہیں تو کم از کم بیرسٹر شہزاد اکبر صاحب کا (اے، آر، یو)یونٹ ہی بند کر دیتے۔
میری رائے میں توقاضی صاحب کو رہائی ایسی ملی ہے کہ پنجرہ گھر سے نکال کر برآمدے میں رکھ دیا گیا ہے۔

اس فیصلے کے مزید محرکات یہ ہیں کہ قاضی صاحب کو اچھا بدنام کر دیا گیا ہے۔ اب اگر فیض آباد دھرنے پر Review Petetion آتی ہے تو کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس میں بیٹھ سکیں گے۔ جواب ہے نہیں۔
ساتھ ہی حکومت کے خلاف اور اداروں کے خلاف جو بھی درخواست آئے گی اس کی سنوائی اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پاس آتی ہے یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کسی ایسے بینچ کا حصہ ہوتے ہیں تو ان پر انگلی اٹھانا اتنا آسان ہے کہ وہ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کیس کو سننے سے علیحدہ ہو جائیں گے۔


یہیں تک ہی نہیں بات رکتی حکومت نہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو زچ کرنے میں کامیاب رہی بلکہ ایک حاضر سروس سپریم کورٹ کے جسٹس کی اہلیہ کو کورٹ روم تک آنے اور فل بینچ کے سامنے رونے پر مجبور کر دیا۔ ان تمام معاملات سے ایک بنیاد بھی رکھ دی گئی کہ آئندہ جو بھی جج اپنی کریز سے نکل کر کھیلنے کی کوشش کرے گا نہ صرف اس کو بلکہ اس کی فیملی کوبھی گھسیٹا اور باقاعدہ رلایا بھی جائے گا۔

میرے نزدیک تو یہ ایک راستہ بنا دیا گیا ہے اور اس فیصلے کو مستقبل میں فروغ نسیم جیسے قابل وکلا نظیر کے طور پر پیش کریں گے۔اب یہ فیصلہ آپ کریں کہ کیا یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جیت ہے یا حکومت کی۔
ایک پہلو ہم نظر انداز کر رہے ہیں کہ (ایف، بی، آر) کو پانچ سال سے پرانے معاملات کھولنے کی اجازت نہیں ، سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں اس ادارے کو یہ اجازت دے دی ہے، اور اب یہ اجازت ہر جگہ نظیر بنا کر پیش کی جاے گی، جو کہ سیاسی، سول سروس، اور عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی۔


میرے دوست احباب خیال کر رہے ہیں کہ جس طرح قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے فل بینچ کورٹ کے سامنے ثبوت رکھے ہیں وہاں بھی رکھیں گی اور معاملہ ختم۔
لیکن میرے اندازے کے مطابق اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پہلے سے بھی زیادہ گرد اڑائی جائے گی۔ اور میں افسوس سے کہتا ہوں کہ یہ کام شاید اس بار میڈیا سے کروایا جائے گا۔آئے روز نئی لیکس ان کے ٹیکس گوشواروں کی ان کی اہلیہ کی ٹیکس ریٹرن کی میڈیا کی زینت بنیں گی۔

اور پھر پہلی کوشش یہ ہو گی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود استعفیٰ دے دیں اور گھر کی راہ لیں۔ اگر نہیں تو یہ معاملہ پھر واپس عدلیہ تک ہی آئے گا۔ کیونکہ اگر ان کی بیگم اپنے اثاثہ جات ثابت نہ کر سکیں تو دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو علیمہ خان صاحبہ(ہمشیرہ وزیرِ اعظم عمران خان) کی طرح ان کو جرمانہ کر دیا جائے گا کہ آپ جرمانہ ادا کریں اور اپنی تمام جائیداد باضابطہ کروا لیں۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ پھر چھان بین کی جائے گی کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے۔ اور اس میں تلاش یہ کیا جائے گا کہ پیسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دئیے ہیں یا نہیں، وہ پیسے ظاہر شدہ اثاثہ جات میں سے تھے یا نہیں ، اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ حکومت ان جائیدادوں کا تعلق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ثابت نہیں کر سکے گی، اور اگر کوئی ایک ٹرانزیکشن بھی ایسی ہوتی ہے (اقامہ کی نظیر ہمارے سامنے ہے) جو کہ خلاف ضابطہ یا غیر قانونی ہے تو یہ بات پھر سے سپریم جوڈیشل کونسل کو چلی جائے گی۔

اس میں دو ماہ نہیں بلکہ کئی ماہ کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے یعنی اگر جسٹس فائز عیسیٰ صاحب پردہ سکرین سے یعنی سپریم کورٹ سے اپنے آپ کو دور نہیں کرتے تو یہ سب چلے گا۔
 اور میرے ذاتی خیال کے مطابق ابھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی مزید پکھ اڑائی جائے گی اور بیرسٹر شہزاد اکبر، فروغ نسیم اور دوسرے لوگ اطمینان اور خوشی سے بیٹھے رہیں گے۔ جناب اب راستہ بن چکا ہے جو کہ معذرت کے ساتھ خود عدلیہ نے بنایا ،کیونکہ بات ریفرنس کے درست ہونے اور غلط ہونے کی تھی اس میں اور باتیں نہیں آنی چاہئیں تھیں یہ تجاوز تھا اب یہ تجاوز ہوا یا کروایا گیا اِس کا فیصلہ وقت کرے گا۔

ساتھ ہی ساتھ بطورسپریم کورٹ کے ایک حاضر سروس جج ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بینچ کے سامنے پیش ہو کر تجاوز کیا،وہ جو کہنا چاہتے تھے اپنے وکیل کے ذریعے کہتے۔ پھر میری عقل کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کو فل کورٹ کے روبرو پیش کر کے پھر تجاوز کیا اور یہ مان لیا کہ جائیدادوں والا کوئی معاملہ ہے، مگر اب تو تجاوز ہو چکا، راستہ بن چکا۔ دیکھیں بات کہاں تک پہنچتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :