
وزیرِاعظم صاحب عزت دینا سیکھیں
بدھ 7 اکتوبر 2020

خرم اعوان
(جاری ہے)
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی عجیب ہے سوچتی کچھ ہے ،کرتی کچھ ہےاور ہوتا کچھ ہے۔ پہلے سوچا نواز شریف کی تقریر نہیں دکھانی ،پھر یہ سوچ کردکھا دی کہ عوام پرآشکار ہو گا نواز شریف بیمار نہیں ،جھوٹ بول کر گیا ہےمگر ہوا یہ کہ نواز شریف کی تقریرہی موضوع بحث بن گئیں۔ اس تقریر سے فوکس ہٹانے کے لئے آرمی چیف سے پارلیمنٹیرنز کی ملاقات والی خبر چلوا کرپروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی گئی کہ ن لیگی خود بھی ملاقاتیں کرتے پھرتے ہیں۔ مگر بے سود ،پھرآزاد میڈیا کا تاثر دیتے ہوئے اپنے مقصد کے حصول کے لئے نواز شریف کی تقاریر جو نشر کی جارہی تھی ان پر بھی پابندی لگوا دی ، حکومتی قول و فعل میں تضاد تو عیاں تھا لیکن اب گماں ہوتا ہےکہ حکومت اپنے کسی فیصلے پر بھی ڈٹی نہیں رہ سکتی ۔
وزیراعظم صاحب نے اپنے حالیہ تفصیلی انٹرویو میں کہا کہ اگر مجھے ظہیر الاسلام نے اس طرح استعفیٰ کا کہا ہوتا تو میں اسے فارغ کر دیتا کس میں ہمت ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم سے استعفیٰ لے۔ نواز شریف کو اس سے استعفیٰ لے لینا چاہیے تھا۔ جناب پہلی بات نواز شریف یہ استعفیٰ لینے والا کام کب کا کر چکا ہے۔ جنرل اسلم بیگ کی کارروائیوں سے جب وہ مطمئن نہ تھے تو انھوں نے بیگ صاحب کی ریٹائرمنٹ سے چار ماہ پہلے جنرل آصف نواز جنجوعہ کےنام کا اعلان بطور اگلے چیف آف آرمی اسٹاف کے کر دیا۔ پھر یہی نواز شریف جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے چکا ہے۔ اس کے بعد یہی نواز شریف مشرف کو فارغ کر چکا ہے۔ تو جناب فارغ کرنا استعفیٰ لینا یہ کھیل نواز شریف کھیل چکا اور بھگت چکا۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ اور آپ کی پارٹی میجر جنرل (ر) سعد خٹک کو سری لنکا میں پاکستان کا سفیر مقرر کرنے کی شدید مخالف تھی(کیونکہ انھوں نے اپنے بیٹے کو سیاست میں لانے کے لیے 2018 کے الیکشن میں نوشہرہ میں پاکستان تحریک انصاف کی کھلم کھلا مخالفت کی اور اے این پی کو سپورٹ کیا )مگر پھر کہیں سے پیغام آیا تو آپ کو مقرر کرنا پڑا۔ آپ تو ایک ریٹائرڈ جنرل کو سفیرنہ مقرر کرنے کی بات نہ منوا سکے ، آپ استعفیٰ لیں گے؟
پھر اسلام آباد کے ایک صحافی کے اٹھائے جانے کا کہا تو آپ نے کہا کہ اس کے غائب ہونے میں میرا اور میری حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تو جناب اس کا مطلب ہے آپ کے علاوہ بھی ملک میں کوئی حکومت چل رہی ہے اگر ایسا ہے تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں؟
آپ نے کہا سب سیاست دان نرسری میں پیدا ہوئے میں سیاسی جدوجہد کر کے آیا ہوں۔ پہلی بات ہر پودہ نرسری میں ہی پیدا کیا جاتا ہے۔ اور کچھ عرصہ بعد اسے باہرکی زمین میں لگایا جاتا ہے جس میں ہمت ہوتی ہے اور جسے باہر کی زمین ، آب و ہوا اور پانی اپنالیتے ہیں وہ تنا ور درخت بن جاتا ہے باقی مر جاتے ہیں۔ آپ بھی نرسری میں لگے تھے آپ کےباغبان تھے جنرل مجیب اور جنرل حمید گل جنھوں نے آپ کو سیاست میں اتارا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی1996 میں اور 1997 میں آپ نے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑا اور سب سے ہار گئے۔ یہ پانچ حلقوں کی خواہش اُس وقت کی ہے ۔آپ نے کہا کہ آپ سے بڑا democrat کوئی نہیں۔ جناب ڈکٹیٹر مشرف کے ریفرنڈم میں آپ اپنی پارٹی سمیت پارٹی جھنڈوں کے شامل ہوئے، بتایٔں گے کہ کون سا ڈیموکریٹ ہے جو ڈکٹیٹر کو سپورٹ کرتا ہے اور اُ س سے باقاعدہ الیکشن میں اکثریت اور وزیرِاعظم شپ مانگتا ہے۔ اور آپ جیسے واحد democrat نے شفقت محمود کے گھر جنرل پاشا سے ملاقات کی یہ سب اسی نرسری کے مالک و باغبان تھے ۔
آپ نے کہا نواز شریف نے ہمارے ایک مقدم ادارے کی عزت کو اچھالا۔ جناب آپ نے خود اس ادارے کو بدنام کیا۔ ہر مرتبہ آپ نے کہا کہ فوج میرے ساتھ ہے۔ جناب فوج تو ہر حکومت کے ساتھ ہے۔ آئین فوج کو یہ حکم دیتا ہے اور وہ اس کی پابندی کر رہے ہیں۔ آپکے ساتھ ہو کر کیا انھوں نے کوئی انوکھا کام کیا ہے۔ آپ اپنے ہر کام میں عوام کو اعتبار دلانے کی خاطر فوج کو گھسیٹ لیتے ہیں۔ آپ کے بیانیے سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ افواج پاکستان پاکستان بننے سے لے کر آج تک قائداعظم سے لے کر نواز شریف تک کسی کے ساتھ نہیں تھے۔ صرف آپ ہی کے ساتھ ہیں۔ آپ ان کی شہرت کو داغدار کر رہے ہیں۔ آپ کی نااہلی اتنی ہے کہ آپ سانس بھی لیتے ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ میری حکومت کو اس سانس کے لیے آکسیجن فوج دے رہی ہے۔ آپ کو تو سولہ ستمبر سے یکم اکتوبر تک چودہ دن لگے یہ بتانے میں کہ اپوزیشن سے ملاقات آپ کے حکم پر ہوئی۔
وزیراعظم صاحب یہ سب آپ کے کرنے کے کام نہیں ۔آپ کا کرنے کا کام چینی چوروں ،آٹا چوروں ، ادویات چوروں ، پیٹرولیم مافیاکو انجام تک پہنچانا تھا۔ ان میں سے آپ کس کو انجام تک پہنچا سکے۔ آپ کا کام قیمتیں کم کرنا تھا۔ کیا چینی آپ کے مطابق چونسٹھروپے پر آ گئی۔ آٹا ساٹھ روپے فی کلو پر آ گیا۔ ادویات میں چند ادویات کی آڑ میں 92 دوسری ادویات ان کی قیمتیں آپ نے خود بڑھا دیں۔ آپ تو ووٹ دینے والوں کی عزت کا خیال نہیں کر رہے، غریب کو مرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اسکا احتساب کون کرے گا۔ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ آپکی حکومت ایک mediocre سوچ کی حکومت ہے جس کا مسئلہ اپوزیشن کو ختم کرنا اسے دیوار سے لگانا ہے، خدا راہ جس عوام کی آپ دہایٔ دیتے تھے اس کا سوچیں اِس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں ۔ مثالیں آپ برطانیہ اورترقی یافتہ ممالک کی دیتے ہیں ۔ 1990 میں ایک اطالوی سیاست دان پروفیسر سالویٹور ویلاٹیوٹی
(Prof. Salvatore Valitutti) نے کہا تھا
(Democracy breathes by two lungs, by the lung of the majority and the lung of the opposition)
مگر افسوس جہاں دنیا کی باقی جمہوریتوں میں اپوزیشن کو عزت دی جاتی ہے وہیں آپ صرف اپنی اتھارٹی منوانے کے چکر میں اپوزیشن کو بے عزت اور ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اور آپ کے چاہنے والے ملک میں ون پارٹی سسٹم لانا چاہتے ہیں ۔ یہ کوششیں پہلے بھی ہو چکی ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے 1964 میں پہلا سب سے بڑا اپوزیشن اتحاد (Combined Opposition Parties (COP) وجود میں آیا، پھر 1977 میں
(Pakistan National Alliance (PNA) ، پھر ضیاالحق کے خالاف (MRD) بنایا گیا، اسی طرح مشرف کے خلاف (Alliance for Restoration of Democracy (ARD) (بنایا گیا، یہ سب اس لیے تھا کہ چاہے سول حکومت ہو یا ڈکٹیٹر کی حکومت جب بھی اپوزیشن کوختم کرنے کی کوشش کی گیٔ ہے تب تب اس طرح کے اتحا د سامنے آے ہیں اور ون پارٹی کا منصوبہ ناکام ہوا ہے۔ آج کے اتحاد کا نام ہے
(Pakistan Democratic Movement (PDM) جس کا سربراہ مولانا فضل الرحمان کو بنایا گیا ہے۔
ویسے اسلام آباد میں یہ باتیں گرم ہیں کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن)، اور پیپلزپارٹی کو پیغام دیا گیا ہے کہآپ مولانا سے فاصلہ رکھیں کیونکہ ہمیں شک ہے کہ مولانا کی اس سیاست کا نتیجہ فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں نکلے گا۔ اور اس فاصلہ رکھنے کے بدلےمیں آپ سے بات کی جاۓ گی۔ دوسری جا نب مولانا سے بھی رابطے رکھے جارہے ہیں اور ان کو الگ سے incentive دیے جارہے ہیں۔ اپو زیشن کی جانب سے ایک ہی ڈیمانڈ ہے کہ آپ درمیان سے نکل جائیں ہمیں برابر میدان دیں اپوزیشن کرنے کا (یعنی حکومت کو بلیڈکرنے دیں) ،ہاں مگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی، مقتدر حلقے کہ رہے ہیں کہ آپ ایک سال اور دے دیں حکومت کو پھر جو آپ چاہیں۔ اس لیے میرے مطابق اس وقت جو سب نظر آرہا ہے وہ نظر کا دھوکہ ہے۔
حکومت اور اپوزیشن اس وقت بالکل اسی سوچ کا مظاہرہ کر ہے ہیں جو 1960 میں ایک امریکی علم سیاسیات کے ماہر ڈی ای ایپٹر (D.E. Apter) نے لکھا کہ نوآبادیاتی نظام کے بعد بننے والے ممالک اور ان ممالک میں بننے والی نئی حکومتیں آزادی کا دعوی تو کرتی تھیں مگر اپنے خلاف سیاسی مخالفت برداشت نہیں کرتی تھیں حکومت اور اپوزیشن دونوں۔ یہاں تک کہ اپنے مخالفین کو ملک کے خلاف سازش اور ریاست سے غداری تک کہہ دیا جاتا تھا۔ یہ سب اس وقت اس لیے تھا کہ نو آبادیاتی سسٹم کے خلاف دونوں جدوجہد کرتے آئے تھے اور جب دونوں ایک دوسرے سے کسی نہ کسی معاملے میں اختلاف کرتے تو وہ اسے اپنی جد وجہد اور نظریہ کی مخالفت سمجھنے لگتے ۔
موجودہ اپوزیشن اپنے دور میں عمران کو یہودی لابی کا ایجنٹ قرار دیتے تھے۔ اور آج عمران خان نواز شریف کو انڈین ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ مگر بوجھ حکومت پر ہوتا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری عوام کو بنیادی سہولتیں دینا ہوتا ہے۔ آپ یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ اپوزیشن کے لوگ بھی عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں۔ وہ ان کو جواب دہ ہیں اور آپ ان کے ووٹرز کی عزت کرنے کے پابند، آپ اپوزیشن کو نہیں ان کے ووٹر کو عزت دے رہے ہیں اور یہ احسان نہیں ان کا آپ کی طرف حق ہے جو آپ نے ادا کرنا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خرم اعوان کے کالمز
-
وزیرِاعظم صاحب عزت دینا سیکھیں
بدھ 7 اکتوبر 2020
-
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی
پیر 21 ستمبر 2020
-
پولیس میں تبدیلی کی مداخلت
اتوار 13 ستمبر 2020
-
پاک بحریہ "محافظ سے قوم کے معمار تک "ایک جہدِ مسلسل
منگل 8 ستمبر 2020
-
حسین رضی اللہ عنہ سب کے
اتوار 6 ستمبر 2020
-
کراچی، کیماڑی اور بارش
جمعہ 28 اگست 2020
-
کراچی اورسسٹم
پیر 24 اگست 2020
-
وزیراعظم صاحب عوام کو فرق کیوں نہیں پڑ رہا؟
منگل 18 اگست 2020
خرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.