
کراچی، کیماڑی اور بارش
جمعہ 28 اگست 2020

خرم اعوان
میرے دوستوں نے فرمایا اب بتاوٴ کراچی پھر سے ڈوب گیا نا؟ تو جناب ان کے لئے جواب ہے کہ کراچی میں ہونے والی بارش نے گزشتہ نوے سالہ ریکارڈ توڑ دیا اب خود اندازہ لگائیں کہ جب الصبح سے رات گئے تک موسلا دھار بارش ہو رہی ہو تو ایسا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
(جاری ہے)
کراچی کے بہت سے علاقوں میں بجلی کی بندش ہوئی اور بندش نہیں بھی ہوئی۔جن علاقوں میں پانی جمع ہو چکا وہاں اگر بجلی بند نہ کی جائے تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی جانیں خطرے میں ڈال دی جائیں۔
انہیں مرنے کے لیے تقدیر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔گزارش ہے کہ جناب کراچی بہت منظم طریقے سے بنایا گیا تھا،یہ مسائل نہ تھے۔ ایوب دور میں کراچی میں نکاسی کے لیے دو نظام تھے ایک سیوریج کا اور دوسرا بارش کے پانی کی نکاسی کا۔ ستر کی دہائی میں کچی آبادیاں کراچی میں بننا شروع ہو گئیں اور اس کے ساتھ ہی قبضہ کی جگہ پر گھروں کی تعمیرات شروع ہوئیں اب یہ کوئی منظم کالونی یا ٹاوٴنز تو تھے نہیں جن میں ہر چیز سرکار فراہم کرے۔ تو ان کے سیوریج کے لیے بارش کی نکاسی کے نظام کو چوری چھپے استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔۔
دوسرا جو ظلم ہوا وہ یہ تھا کہ آپس کی سیاسی چپکلش (جس کو دشمنی کہنا زیادہ مناسب ہوگا )کی وجہ سے ایک جماعت جو اس شہر کی لوکل گورنمنٹ پر بہت عرصہ براجمان رہی وہ لوگ ہر طرح کے ڈرین میں بوریاں، رضائیاں، پتھروں سے بھری بوریاں پھینک کر راستہ بند کرنے لگے اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ چند ڈرینزبند ہونے سے مکمل علاقہ ڈوب جاتا ہے۔ کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں سندھ بلڈنگ اتھارٹی کے لوگ بھی ریسکیوکے کاموں میں لگے ہوئے تھے ان کے مطابق اس علاقے میں متعدد گٹروں سے بڑے اور بھاری پتھرنکال کر سیوریج کو بحال کیا۔
تیسرا چائنہ کٹنگ نے جو اس شہر کے نظام پر بوجھ ڈالا وہ الگ ہے اس میں بھی ایم کیو ایم کے بابر غوری کا نام سنہری حروفوں میں لکھا جاتا ہے ۔ انھوں نے شیر شاہ سوری روڈ کو کمرشل کروا دیا اور اس کے ارد گرد جو پلاٹس اور عمارتیں تھیں وہ کمرشل مصروفیات کے لیے تیار ہونے لگیں۔ اب ان عمارتوں کے نیچے جو سیوریج لائن تھی وہ چوبیس انچ قطر کی تھی، جو تمام پٹی ایک ایک گھر کے لیے ہونی تھی وہاں بیس بیس منزلہ عمارتیں بن گئیں جبکہ انفراسٹرکچر کے نام پر کوئی اصلاح نہیں کی گئی۔ ایم کیو ایم ہر حکومت بشمول فوجی حکمران سب کے اتحادی رہے اور تقریباً ہمیشہ اقتدار میں رہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ اگر یہ سب کرنا تھا تو موجودہ سندھ بلڈنگ اتھارٹی سے باقی سب لوازمات پورے کرواتے مگرنہ انہوں نے اس جانب توجہ دی نہ ہی سندھ بلڈنگ اتھارٹی نے اس جانب توجہ دی۔شاید سندھ حکومت یہ سوچ کر کراچی پر اتنی توجہ نہیں دیتی کہ جب کراچی انھیں مینڈیٹ ہی نہیں دیتا تو وہ اس کے بارے میں کیوں سوچیں۔ ایم کیو ایم نے سب کچھ کیا اپنی سیاست چمکانے کے لیے تو پھر دوسروں کو بھی حق ہے کہ وہ بھی سیاست کریں مگر دونوں کی سیاست میں پس گئی عوام اور کراچی کے شہری۔
سیاست صرف کراچی ہی کے نام پر کیوں کی جارہی ہے؟ منگل کے روز ہی ہونے والی بارش میں پنڈی میں فیض آباد پل تو سب کو یاد ہی ہو گا، پل سے کراس کرتے ہی سڑک نیچے کی جانب کچھ گہرائی میں اترتی ہے وہاں اتنا پانی اس بارش سے اکٹھا ہو گیا کہ گاڑیاں ڈوبنے کی نوبت آ گئی اور کئی گھنٹے ٹریفک جام رہا مگر مجال ہے کہ شور مچا ہو۔
کیوں ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ کراچی ہے اور کراچی کے مسائل کی جڑ پیپلز پارٹی ہے کبھی بارش کے پانی پر سیاست ہے تو کبھی کیماڑی کو ضلع بنانے پرسیاست۔ جب پہلے سے چھ اضلاع بنے ہوئے ہیں تو ساتواں ضلع بھی بن جائے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ انتظام ہی بہتر ہو گا کیونکہ کیماڑی کی آبادی چالیس لاکھ کے لگ بگ ہے ۔دوسرا یہ سندھ حکومت کی صوابدید ہے کہ وہ کسی جگہ کو ضلع بنائے یا تحصیل اور سندھ حکومت کسی سے مشاورت کی پابند بھی نہیں ہے۔ مگر ایک اچھا تاثر یہ ہوتا کہ حکومت تمام کراچی کی سیاسی جماعتوں کو مشاورت میں شامل کر لیتی اور اس بات کا اعتراف سعید غنی صاحب نے ایک لائیو پروگرام میں کر بھی چکے ہیں۔
ہم کراچی کو میٹروپولیٹن شہر کہتے ہیں مگر دنیا میں مجھے کوئی میٹروپولیٹن شہر دکھا دیں جو کہ اضلاع میں بانٹا گیا ہو، اس سے اختیارات کا جھگڑا نہیں پڑے گا تو اور کیا ہو گا۔ بہترین حل یہ ہے کہ آپ ان چھ یا سات اضلاع کو الگ الگ درجہ دیں اور ان میں سے ہر ضلع کا اپنا میئر ہو، اس طرح ان سب اضلاع کا اعتراض کہ ان کو فنڈ نہیں ملتے اور میئر کے اعتراضات کہ میرے پاس اختیارات نہیں سب ختم ہو جائیں گے۔انتظامی اعتبار پر چھوٹے یونٹ میں تقسیم کوئی غلط بات نہیں۔ اب اس پر جو میرے دوست اعتراض اٹھاتے ہیں کہ پھر کراچی کو صوبہ بنانے میں کیا اعتراض ہے تو جناب وہ صوبہ آپ لسانی بنیادوں پر بنا رہے ہیں اور لسانی بنیادوں پر بنا کر آپ بہت سی ملک دشمن قوتوں کو دعوت دیں گے جو کہ ملکی بقا کے لیے خطرہ ہے۔ ابھی ایک دن پہلے خوش بخت شجاعت صاحبہ نے حامد میر صاحب کے ساتھ ان کے پروگرام میں کہا کہ ان کی قبریں کراچی میں ہیں ان کے آباوٴ اجداد کراچی میں تھے۔ باقی لوگ آتے ہیں، کماتے ہیں اور گھر پیسے بھیجتے ہیں۔ ان کی تو قبریں یہاں نہیں ہیں۔ مطلب خوش بخت صاحبہ جیسی شخصیت اس طرح تعصب والی بات، تو جناب میں کیسے مان لوں کہ آپ کی جماعت کراچی میں سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتی ہو گی۔ اس بات میں صداقت ہے کہ آپ کی جماعت تفریق کرتی ہے۔ اسی لیے آج تک کراچی کے حالات نہیں بدلے، بلکہ بد سے بدتر ہوتے آئے اور گالی پڑتی ہے صوبائی حکومت کو کیونکہ آپ ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں اتحادی بن کر رہے تو آسان تختہ مشق تھی صوبائی حکومت سو اس کو گالیاں پڑیں۔
میرے کچھ دوست سوال کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی حکومت نے ساتوں اضلاع کا بیڑا اٹھایا کیوں ہے۔ جناب اگر میں ایک لفظ میں یہ بات ختم کروں تو یہ ہے ”الیکٹورل سیاست“ جو ان کا حق بنتا ہے۔ اس ضلع کو اگر آپ بغور دیکھیں تو اس میں اکثریت بریلوی مکتبہ فکر کی ہے، اس کے بعد آبادی میں کھچی ، بلوچ، اردو بولنے والے، پشتون یہ آبادی ہے۔ اب کھچی جو لوگ ہیں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کے دور تک پیپلزپارٹی کے حامی رہے ہیں، آصف علی زرداری کے دور میں انھوں نے پارٹی سے دوری اختیار کر لی۔ اور جب لیاری گینگ وار، عزیر بلوچ، ذوالفقار مرزا والا دور چلا تو ان لوگوں نے اس وقت (کھچی رابطہ کونسل) بھی بنائی۔ مگر اب دوبارہ بلاول بھٹو کے طرز قیادت اور میدان میں آنے اور ”کرونا وبا“ میں پیپلزپارٹی کی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لا کر صوبے کو بچانے کی کوششوں سے یہ لوگ پھر سے پیپلزپارٹی کی جانب واپس آ رہے ہیں اور اب وہ دوبارہ سے اس بات کا اظہار کرنا شروع ہوئے ہیں کہ ووٹ پھر سے ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کو دیا جائے گا۔
دوسرا کراچی کا سب سے بڑا slum کیماڑی میں ہے اس slum میں بہت بڑی آبادی مالکانہ حقوق کے بغیر رہ رہی ہے۔ کراچی کے لوگ اور خاص کر کیماڑی کے لوگ پروین رحمان کو تو جانتے ہی ہوں گے جنھوں نے اس slum میں رہنے والوں کو مالکانہ حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کی۔ یہ slum ساحل سمندر کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی زمین کافی قیمتی ہو گئی تھی اوراس پر ایم کیو ایم سمیت بہت سے لوگوں کی نظریں تھیں۔ مگر پروین رحمان کی کوششوں کو عملی جامہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے 2013 میں اس وقت پہنایا جب انھوں نے 1063 گوٹھوں میں بسنے والوں کو مالکانہ حقوق دیے۔ اس کے بعد پروین رحمان کی بدولت مزید 1000 گوٹھوں کے لوگوں کو بھی مالکانہ حقوق دلوانے کی درخواستیں سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ مگر پروین رحمان کے قتل کے بعد ان پر کارروائی رک گئی ہے۔ اب جن کو مالکانہ حقوق مل گئے اور جن کو مل سکتے ہیں وہ سب لینڈ مافیا سے بچ گئے ہیں تو وہ پروین رحمان کے بعد اگر کسی کے سب سے زیادہ شکر گزار ہوں گے تو وہ ہو گی پیپلزپارٹی اور انھی لوگوں کے علاقے کو کراچی کے سب سے زیادہ آبادی والے جنوبی ضلع سے الگ کر کے ایک ضلع بنا کے پیپلزپارٹی صرف سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ اس سے جو قومی اور صوبائی نشستیں بنیں گی وہ ایک اندازے کے مطابق پیپلزپارٹی کو جائیں گی۔ جو کہ کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ قوتوں کو ناگوار گزر رہی ہیں۔
سندھ حکومت کو ایک گولڈن چانس ملا ہے کہ جیسے انہوں نے کرونا وباسے نمٹ کر اپنے آپ کو منوایا ہے اسی طرح ہمت کریں اوراس سسٹم کو چلانے کے لیے انتظامات کریں اس کے لیے سندھ حکومت کو کچھ کام فوری طور پر یہی خیال کر کے کرنا ہیں جیسے اگر یہ کام نہ کیے گئے تو کراچی کو کرونا ہوجائے گا۔سب سے پہلے کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر کام شروع کریں جو گرین لائن منصوبہ ہے اس پر عمل شروع کروائیں اور تیز کروائیں کیونکہ گرین لائن منصوبہ میں 2 لائنیں آپ کے ذمہ ہے ایک وفاق کے ۔ آپ اپنے حصے پر تو کام کریں۔
دوسرا آپ کی APEX کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں اسی فیصد سے زیادہ علاقہ ایسا ہے جہاں سٹریٹ لائٹس نہیں ہیں یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اسے ترجیحی بنیادوں پر اگر شروع کریں گے تو عوام ایک سکھ کا سانس لے گی۔ تیسرا سیف سٹی پر کام ازسرِ نو شروع اور جلد از جلد اسی باقی ماندہ عرصہ حکومت میں مکمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کم وقت میں ہونے والا کام ہے۔ آج اگر کوئی واردات ہوتی ہے تو پولیس دکانداروں سے گھروں سے درخواست کر کے ویڈیو ریکارڈنگ لیتی ہے۔چوتھا پینے کا پانی جیسے آپ نے لیاری میں نئی لائینز بچھائی ہیں اور پینے کے پانی کا حل کیا ہے۔ ویسے ہی کراچی کو مختلف زون میں بانٹ کرپانی کی ترسیل کے لیے انتظام کریں۔ اور مختلف علاقوں میں پینے کا پانی پہنچانا شروع کریں۔ آپ کے پاس تین سال ہیں اس میں اس منصوبے کا بہت بڑا حصہ مکمل ہو سکتا ہے۔
پانچواں مسئلہ صفائی ہے۔ آپ بھی کسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیں جیسے پنجاب میں شہباز شریف نے کیا تھا۔ چاہے ترکی ، چاہے چائنہ کے ساتھ اور تمام کا تمام صفائی کا انتظام ان کے حوالے کریں بلا شرکت ِ غیر اور معاہدے میں لین دین کا انتظام صفائی سے مشروط ہو تاکہ کام بہتر ہو سکے۔
چھٹا کام اس میں سات سے آٹھ سال لگیں گے، وہ ہے سیوریج اور بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام۔ یہ ایک دیر طلب عمل ہے اور اس میں تین نالوں کی صفائی سے نہیں کراچی کے چھتیس سے اڑتیس نالوں کی صفائی کا عمل اور جن علاقوں میں بارش کی نکاسی آب کا انتظام درست نہیں وہاں درست کرنا۔ اور جو علاقے کمرشل کر دیے گئے اور وہاں سیوریج کا نظام رہائشی علاقوں کو مد نظر رکھ کر نیا بنانا یا پہلے سے موجود کو بتدریج بہترکرنا ہے۔
یہ سنہری موقعہ ہے اپنے آپ کو منوانے کا، کراچی کو اپنا بنانے کا، کراچی والوں کا دل جیتنے کا، کرنا آپ ہی کو پڑے گا کیونکہ سندھ حکومت آپ ہیں اور جمہوریت میں حکومت عوام کی جانب ہاتھ بڑھاتی ہے نہ کہ عوام ۔ ورنہ یہی ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔ آپ سمجھدار لوگ ہیں آپ نے کرونا میں جھگڑے سے بچتے ہوئے عوام کے لئے گورننس پر دھیان دیا ، اس لیے وقت اچھے سے گزر گیا، کیونکہ جب جھگڑا گورننس اور سیاست کے درمیان ہوتا ہے تو جیت سیاست کی ہوتی ہے اور سیاست صرف باتوں سے ہوتی ہے گورننس کام سے۔ اگر آپ کام کریں گے تو نظر خود بخود آئے گا۔ پھر زبان خلق آپ کے حصہ کی باتیں بھی کرے گی اور جواب بھی دے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خرم اعوان کے کالمز
-
وزیرِاعظم صاحب عزت دینا سیکھیں
بدھ 7 اکتوبر 2020
-
لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی
پیر 21 ستمبر 2020
-
پولیس میں تبدیلی کی مداخلت
اتوار 13 ستمبر 2020
-
پاک بحریہ "محافظ سے قوم کے معمار تک "ایک جہدِ مسلسل
منگل 8 ستمبر 2020
-
حسین رضی اللہ عنہ سب کے
اتوار 6 ستمبر 2020
-
کراچی، کیماڑی اور بارش
جمعہ 28 اگست 2020
-
کراچی اورسسٹم
پیر 24 اگست 2020
-
وزیراعظم صاحب عوام کو فرق کیوں نہیں پڑ رہا؟
منگل 18 اگست 2020
خرم اعوان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.