پاک بحریہ "محافظ سے قوم کے معمار تک "ایک جہدِ مسلسل

منگل 8 ستمبر 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

پاکستانی بحثیت قوم اپنا یوم دفاع ہر سال 6,7,8 ستمبر کو بطور قومی دن مناتے ہیں۔ یہ دن خاص طور پر 1965 میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان کی قربانیوں اور ان کی دفاعی کارکردگی کی یاد میں منایا جاتا ہے. بنیادی طور پر یومِ دفاع کو منانے کا مقصد دنیا میں اپنی ملکی دفاع اور عسکری قیادت کے مضبوط ہونے کی یاد دہانی کروانا ہے تاکہ کسی بھی قسم کے بیرونی حملوں سے ملک کا دفاع کیا جاسکے۔

بہت سے دوست یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس جنگ سے نقصان ہوا ، جس کا نتیجہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔ میرا سوچنے کا نظریہ تھوڑا مختلف ہے، 1965 میں پاکستان کی سب سے بڑی جیت اور بھارت کی شکست یہ ہے کہ دعوی ٰتو وہ لاہور فتح کرنے کا کر کے آیا تھا، لیکن ہماری عوام نے فوج کے ساتھ مل کر دشمن کے دانت کھٹے کر دئیے ، اور جم خانہ لاہور میں مشروبات پینے کا بھارتی خواب چکنا چور کر دیا۔

(جاری ہے)


آج میرا مطمح نظر پاکستان نیوی ہے ، کیونکہ 8 ستمبر پاکستان کے دفاع میں یومِ بحریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔1965ء کی جنگ میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر رہیں۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ ،پاکستان کے بحری،تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل تھے۔

اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دورن پاکستان کا سامان تجارت لانے لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہے۔ ہندوستان کے تجارتی جہاز”سرسوتی“اوردیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست وحفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔

7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر”دوارکا“پرحملہ کے لیے روانہ ہوئی۔اس قلعہ پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔

پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جر?ت نہ کرسکا۔ ہندوستانی جہاز”تلوار“کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی”غازی“ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔
قائدِ عظم نے 23 جنوری 1948 کو پاک بحریہ کے آفیسرز سے خطاب کیا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔
( پاکستان ابھی ترقی کے راستے پر گامزن ہے، جیسا کہ اسکی بحریہ اور دوسری مسلح افواج ہیں۔

یہ ترقی مزید جاری رہے گی، خدا نے چاہا تو ضرور، جیسا کہ بہت سے دوسرے لوگ بھی سوچ رہے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اپنے عددی تعداد میں کم ہونے کو جرات اور بے لوث لگن کے ساتھ محنت کر کے پورا کرنے کا ہمت، عزم اور لگن کے ساتھ۔میرا یقین ہے کہ آپ اپنے پیشہ ورانہ سلوک سے کبھی بھی نہ صرف پاکستان کو مایوس نہیں کریں گے، بلکہ آپ اپنی خدمت کی اعلیٰ روایات کو برقرار رکھتے ہوے دنیا کی عظیم قوم کی حیثیت سے پاکستان کے وقار کو برقرار رکھیں گے)
جب بھی پاکستان کو کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنا پڑتاہے تو ہمیں ہماری مسلح افواج یاد آتی ہیں۔

دوسرا ہم سب سندھ او ر خاص کر بلوچستان کا ذکر تو بہت کرتے ہیں اس کی پسماندگی کا بہت رونا روتے ہیں۔ وہاں بھارت کے اثر و رسوخ جس کی وجہ سے وہاں کچھ ناپختہ ذہن اور کچھ شرارتی لوگ باقی آبادی کو کٹھ پتلی کی طرح نچانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اس کے لیے تدارک کا بندوبست نہیں کرتے رہے۔ اس کا تدارک ممکن ہے وہاں کے لوگوں کو تعلیم دے کر نوکریاں دے کر قومی دھارے میں شامل کرنا۔

اس کے لیے جب میں نے چھان بین شروع کی تو ایک خوشی اور اطمینان یہ جان کر ہوا کہ یہاں پر بھی ہمارے ملک کے سر کے تاج میں لگے ہوئے مسلح افواج کے موتیوں میں سے ایک موتی پاک بحریہ نے بہت منظم طریقے سے بہت اچھا کام کیا ہوا ہے۔ اور وہ تعلیم کے میدان میں جتنی توجہ بلوچستان پر دے رہے ہیں اتنی شاید ہمارے احباب اقتدار کی نہیں ہے۔
بلوچستان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کم شرح خواندگی ہے۔

اس معاملے کی جانب توجہ کرتے ہوئے پاک بحریہ نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جن میں کیڈٹ کالج اور ماڑہ اور بحریہ کالج اور ماڑہ، بحریہ ماڈل کالج گوادر اور بحریہ ماڈل اسکولز تربت اور جیونی جیسے پراجیکٹ شامل ہیں۔ ان پراجیکٹس کی اچھی بات یہ ہے کہ ان میں مقامی باشندوں مرد و عورت دونوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ جیسے بحریہ ماڈل اسکول اینڈ کالج گوادر ہے اس میں سیکنڈری اور پرائمری سیکشن کی وائس پرنسپل دونوں خواتین ہیں اور دونوں خواتین نے اوڑماڑہ سے تعلیم حاصل کی پھر گوادر سے پھر علاقہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور پھر اس اسکول میں بحیثیت اسکول ٹیچر کام کا آغاز کیا اور ترقی پاتے پاتے وائس پرنسپل تک پہنچ چکی ہیں۔

اور ان خواتین اور ان جیسے دوسرے اساتذہ کی وجہ سے مقامی لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے اور اب وہ اپنی بیٹیوں کو زیادہ تعداد میں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اس اسکول میں بھیج رہے ہیں جو کہ ایک اچھا اقدام ہے۔ بحریہ ماڈل کالج گوادرکا قیام 2010 میں عمل میں لایا گیا جب یہاں صرف سات اساتذہ اور35 طلباء موجود تھے، کالج کے نو تعمیر شدہ کیمپس میں پانچ سو سے زائد طلباء و طالبات کی موجودگی اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فروغ تعلیم کے لئے پاک بحریہ کی کاوشیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں
ایک اور خاص بات اس ماڈل سکول کی یہاں فیس تو ہے مگر یہ گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی آدھی فیس برداشت کر سکتا ہے تو اس کے لیے آدھی۔

اگر مکمل فیس نہیں دے سکتا تو اسے مکمل فیس معاف ہے اگر کوئی کتابیں بھی نہیں خرید سکتا مگر اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے تو اس کتابیں بھی بحریہ کی جانب سے مہیا کی جائیں گی۔ میں ایک ایسی خاتون کے بارے میں علم رکھتا ہوں جو بیوہ ہیں ان کے تین بچے ہیں وہ یہاں ملازمت کرتی ہیں ان کے تینوں بچوں کو بغیر فیس کے پڑھایا جا رہا ہے۔ تاکہ وہ ایک فعال شہری کے طور پر معاشرے میں شامل ہوں۔


اسی طرح (سی سی او) کیڈٹ کالج اوڑماڑہ یہ ایک بہت ہی شاندار اور ایک سٹیٹ آف دی آرٹ تعلیمی درس گاہ بائی گئی ہے اور اس در گاہ کے ساتھ ایک بڑا سپورٹس کمپلیکس بھی بنایا جا رہا ہے جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اور اسے مزید بہتر کرنے کے لیے ہر گزرتے وقت کے ساتھ مزید سہولتیں شامل کی جا رہی ہیں۔
اس کیڈٹ کالج اورماڑہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پچاس فیصد سیٹیں بلوچستان کے لیے مختص ہیں اور باقی پچاس فی صد باقی پورے پاکستان کے لیے ہیں۔

دوسری خاص بات جو پچاس فی صد سیٹیں بلوچستان کے لیے مختص ہیں وہ میرٹ پر منحصر کرتی ہیں۔ ٹیسٹ ہوتا ہے میرٹ لسٹ آویزاں ہوتی ہے مگر یہ تمام مطالب علم کوئی فیس ادا نہیں کرتے۔ فیس صرف باقی پچاس فیصد سے لی جاتی ہے۔ بلوچستان کے طالب علم اور ان کے والدین اس بوجھ سے آزاد ہیں۔اور اس کالج سے فارغ التحصیل کئی طلبا اس وقت پاکستان نیول اکیڈمی میں تربیت حاصل کر رہے ہیں اور پاکستان کی بحری سرحدوں کے دفاغ کے لیے اور ملک پہ اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں۔


پاک بحریہ نے اپنے باقی تعلیمی منصوبوں کے ساتھ ساتھ چیف آف دی نیول اسٹاف کی( اسپانسر اے چائلڈ اسکیم) شروع کی ہوئی ہے جو کہ کئی سالوں سے چل رہی ہے۔ اس میں فی بچہ سالانہ تعلیم کیخرچ کا حساب لگا کر مستحق بچوں کی لسٹ تیار کی جاتی ہے۔ اور مخیر حضرات نہ صرف پاک بحریہ کے افسران اور اہلکار بلکہ دیگر افراد بھی بلوچ بچوں کے سالانہ تعلیمی اخراجات جو جتنا تعلیمی خرچ کا بوجھ اٹھانا چاہے، (مکمل سال کا یا آدھے سال کا )اٹھا کرانہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں معاونت کر رہے ہیں۔

یعنی ہم یہ سمجھ لیں کہ صاحب ثروت لوگوں نے ضرورت مند بچوں کو تعلیمی اعتبار سے گود لیا ہوا ہے۔ اور اس میں بھی لوگ کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی سکیم میں بلوچستان کے ضرورت مند طلباء کو کراچی بھی لایا جاتاہے اور یہاں ان کی تعلیم،رہائش اور قیام و طعام کے تمام اخراجات پاک بحریہ اٹھا رہی ہے۔
 اسی طرح (پی این ایس) صحت کے شعبے میں بحریہ نے درمان جاہ ہسپتال بنایا ہے۔

درمان جاہ بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے آرام یا سکون کی جگہ۔ پی این ایس درمان جاہ ایک پچاس بستروں پر مشتمل ایک ہسپتال ہے جو کوسٹل ہائی وے پر موجود ہے۔ بحریہ ہسپتال ہونے کے ناطے اس میں مسلح افواج کا علاج تو مفت ہے مگر اس ہسپتال کی ایک اور خاص بات ہے وہ یہ کہ اس میں بلوچستان کا کوئی بھی شخص آ سکتا ہے اسے پرچی سے لے کر آپریشن تک مفت طبی سہولت حاصل ہوتی ہے جیسے مسلح افواج کے لوگوں کو کوسٹل ہائی وے پہ ہونے کی وجہ سے اگر سفر کے دوران کوئی بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھنے والا ایمرجنسی کی صورت میں آتا ہے تو اسے پرچی علاج کے لیے پیسے وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا جاتا کوئی پیسہ نہیں لیا جاتا۔


پاک بحریہ نے نہ صرف تعلیم اور صحت کے شعبے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں بلکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں اپنے ہم وطنوں کے شانہ بشانہ بلکہ ان کی مشکل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے اس کا عملی ثبوت کرونا جیسی وبا میں مستحق اور پسماندہ طبقوں تک ضروریات زندگی کا سامان پہنچانے کے اقدامات ہیں۔ خاص کر اربن سٹی گوٹھ، سومر گوٹھ، جمالی گوٹھ، حاجی گوٹھ، ولی محمد گوٹھ، یونس آباد، کاکا گاوں اور بابا بھٹ جزیروں ارو ضلع ٹھٹھہ کے مختلف علاقوں میں ہزاروں خاندانوں کو راشن دیا گیا۔

اس کے علاوہ سجاول بدین میں بھی راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ دادو میں چالیس سے زائد خاندانوں کو امدادی سامان اور راشن دیا گیا۔ سجاول اور میر پور ماتھیلو میں کئی سو افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی۔
حالیہ موسلادھار بارشوں کے دوران پاک بحریہ نے ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں سول انتظامیہ کی مدد سے تعینات کیں جو کشتیوں اور زندگی بچانے والے سامان سے لیس تھیں۔

ان ٹیموں نے نہ صرف تمام کراچی کے مختلف علاقوں بلکہ تقریباً ہر علاقے میں یہاں تک کہ بحریہ ٹاون کراچی میں بھی ریسکیو آپریشن کیے اور اکثیر تعداد میں خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ غرض گوٹھوں، اندرون سندھ سے لے کر کراچی کی ماڈرن سوسائٹیوں تک ہر جگہ پاک بحریہ نے اپنی خدمت کا نقش چھوڑا۔ اگر میں علاقوں کی تفصیل لکھنے بیٹھا اور وہاں کیے گئے کاموں کی تو مجھے کئی اور سطریں درکار ہوں گی۔

مگر اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ارباب اختیار و اقتدار سے کہوں گا یہ وہ خاموش کاوشیں ہیں جن کا کہیں ذکر نہیں۔ یہ وہ معمار ہیں جنھوں نے راستہ بنا دیا ہے مگر گمنام ہیں اور یہ نام چاہتے بھی نہیں مگر ایک ارض پاک کے لیے صرف یہ ہے کہ آپ ان کے شانہ بشانہ اس راستے کو مزید پھیلائیں اور پْر آسائش بنائیں جس سے ملک ترقی کرے اور یہی ان کا خراج ہے اور یہی خراج چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :