لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی

پیر 21 ستمبر 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

اپوزیشن کی جانب سے جب سے یہ اعلان ہوا ہے کہ نواز شریف ،مریم نوازاورآصف علی زرداری صاحب آل پارٹیز کانفرس میں شمولیت کر رہے ہیں تب سے حکومتی صفوں میں ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔بوکھلاہٹ میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومتی حلقوں سے ایسے بیانات داغے گئے، جس سے حکومت کی ٹانگیں کانپتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔شہباز گل نے تو اپنے ٹویٹ میں دھمکی تک دے دی کہ اگر کسی چینل نے نواز شریف کی تقریر دکھائی تو پیمرا اور دیگر قانونی راستے استعمال کیے جائیں گے۔

مگر حیرت ہے کہ ریاست مدینہ میںپیمرا جیسا آزاد ادارہ ہوتے ہوئے اس طرح کی دھمکی کی نوبت کیوں پیش آئی؟ پیمرا خود سے بھی ایڈوائزری جاری کر سکتا ہے اور اگر نہیں بھی جاری کرتا تو آپ جاری کروا سکتے تھے مگر گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے ایسا ہی کچھ حکومتی حلقوں نے اپنے ساتھ کیا، حکومتی شعلہ بیانی کی وجہ سے لوگ اب زیادہ غور سے نواز شریف کی تقریر دیکھیں گے اور اگر کوئی ٹی وی چینل نہیں بھی دکھاتا توففتھ جنریشن ہے حضور آج کل لوگ سوشل میڈیا کی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں ۔

(جاری ہے)

آفرین ہے ایسی جماعت اور ان کی سیاست پر ،جو اپنے پاوں پر خود کلہاڑا مارنے کے ماہر ہیں۔
 حالیہ دنوںپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںقانون سازی کر کے عمران خان نے اپوزیشن کو چاروں خانے چت کر دیا تھا ،کیونکہ اکثریت کے باوجود تیسری بار اپوزشن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا یہ حکومتی مضبوطی اور اور اپوزیشن کو کمزور ثابت کرنے کے لئے انتہائی موثر ثابت ہوا کیونکہ عام آدمی بھی یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوا کہ جواپنی پارٹیاں نہیں سنبھال سکتے عام آدمی کے لئے کیا کریں گے ، مگر میں تو پہلے ہی یہ کہہ چکا تھا کہ یہ قانون سازی ہو گی اور مشترکہ اجلاس میں ہو گی کیونکہ یہ ملکی ضرورت تھی اس کے مندرجات حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ تہہ ہوئے تھے لہذا یہ پہلے سے طے تھا کہ یہ قانون سازی ہوگی ، اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہتی تھی ،اس سب شور سے ابھرنے کے لئے سیاست کی بساط پر ایک اچھی چال چلی گئی اور وہ چال تھی ،بلاول کی جانب سے نواز شریف کو فون کر کے آل پارٹیز کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی دعوت ، حالات کا ادراک کرتے ہوئے نواز شریف کا اس کو قبول کر لینا ۔

بس اس کے بعد سے حکومتی بیانات شروع اوراپوزیشن کی مشترکہ اجلاس کی ہار ماند پڑ گئی اور آنے والے دو ہفتوں تک یہ کانفرنس ہی اخبارات کا اور ٹی وی چینلز کا پسندیدہ موضوع بنی رہے گی۔رہی سہی کسرپھرسے حکومتی وزراءپوری کر دیں گے کیونکہ نواز شریف کی تقریر دکھائی تونہیں جائے مگر ہر وزیر اسی کو بنیاد بنا کرجواب ضرور دے گا ۔باقی(ن) اور (ش) کی جو بحث زبان زد عام ہے وہ بھی کچھ وقت کے لیے تھم جائے گی کیونکہ جب نواز شریف شہباز شریف مریم سب اکٹھے ہوں گے تواس کا وجود ہی دم توڑ دے گی۔

شیخ رشید فرماتے ہیں کہ وہ نمبر ون سے دوستی کرتے ہیں او رنمبر ون سے دشمنی کرتے ہیں مگروہ بھی نواز، شہباز اور زرداری کے ہوتے ہوئے مریم،حمزہ اور بلاول بھٹو کے حوالے سے بات کرتے ہیں، اس کا مطلب سیاست میں وقت کے ساتھ چال چلنا اور موضوع بحث بنا رہنا، اخبارات اور چینلز کی زینت بنا رہنا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات ہر خاص و عام تک پہنچانا ہی زندہ رہنا ہوتا ہے۔

لہذا اس کانفرنس میں کچھ ایسا دھماکا نہیں ہونے جا رہا البتہ دو بڑے کردار جو سیاست سے بظاہر غائب ہو گئے تھے زرداری اور نواز شریف وہ پردہ سکرین پر پھر سے نمودار ہو جائیں گے اور اپنی اپنی پارٹیوں کو آنے والے کچھ عرصہ کے لیے آکسیجن فراہم کر دیں گے۔ ہاں اگر کوئی اس کانفرنس سے بہت امیدیں لگا کر بیٹھا ہے تو وہ شاید سسٹم اور حالات سے ناواقف ہے۔

سیاست کے اپنے چلن ہوتے ہیں اوراس کی ضروریات اور نتائج ہر قدم کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی نہ تو حالات ہیں اور نہ ہی ضرورت ہے کہ اس سیٹ اپ کو تبدیل کیا جائے اور اس بات کا ادراک نواز شریف کو بھی ہے اور زرداری کو بھی۔ہمارے لوگ چاہتے ہیں کہ رات سے دن ہو اور انقلاب آ جائے تو ابھی مناسب وقت نہیں آیا .
ابھی تو عمران خان کے بہت سے کاموں پر اعتراضات آنے ہیں۔

کیونکہ انھوںنے غلطیاں کرنے سے باز نہیں آناجیسے ابھی کچھ دن پہلے خان صاحب لاہور آئے اور (آئی جی) انعام غنی کو حکم دیا کہ (سی سی پی او) عمر شیخ کو سپورٹ کریں۔ شکر ہے عمران خان نے انعام غنی کو یہ نہیں کہا کہ لاہور کے معاملے میں آپ عمر شیخ کو رپورٹ کریں۔ اب وزیراعظم کے کہنے کے مطابق سی سی پی اوتب پرفارم کر سکے گا جب آئی جی سپورٹ کرے گا۔

اس کا مطلب ہے کہ پنجاب سمیت اگر کوئی صوبہ یا کوئی بھی ادارہ پرفارم نہیں کر رہا تو وفاق یا وزیراعظم انھیں سپورٹ نہیں کر رہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں ہم زیادتی کے واقعات میں سزائیں سخت کرنے کا سوچ رہے ہیں اس کے لیے بل تیار کر رہے ہیں۔مزید حیرت ہے کہ وزایرعظم پاکستان پڑھ رہے ہیں کہ کس طرح دنیا میں کیمیکل کے ذریعے نامرد بنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اور قرآن اور شریعت سے کوسوں دور ہیں۔

قرآن میں کچھ سزائیں قصاص، حدود طے ہیں ،ان کا حکم ہے اور تعزیر سب واضح ہیں۔ آپ نامرد بنانے کی جانب کیوں سوچ رہے ہیںآپ نے اگر کرناہے تو قرآن اور شریعت کے مطابق سزا کا اجرا کریں۔ اب زنا کی سزا سنگسار ہے،ذرا تصور کریںکیا یہ عبرت ناک نہیں؟ اسلام نے تو اتنی تفصیل سے سب بیان کر دیا ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں مجرم ہیں تو عورت کو کس طرح سے یہ سزا دینی ہے۔

کچھ فقہا کے مطابق گڑھا کھود کر سنگسار کا عمل ہو گا۔ کچھ کے مطابق عورت کو کوڑوں کی سزا چار دیواری کے اندر دی جائے گی اور اس پر عمل درآمد ایک نابالغ کرے گاسمجھنے سے قاصر ہوں کہ اسلامی اصولوں سے انحراف کیوں؟جبکہ سیرت کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے خود اپنی حیات طیبہ میں اس حد کا اجراءکیاتھا۔آپ صرف عوامی جذبات سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

ریاست کے ذمہ صرف سزا ہی نہیں ہے اس کے خاندان کی کفالت اور عزت کا تحفظ بھی ہے۔آپ جو نامرد والی سزا دینا چاہتے ہیں اس سے معاشرے میں ایک اور ہیجان پیدا ہو جائے گا۔ آپ نامرد کر کے ایک نفسیاتی درندہ معاشرے میں چھوڑیں گے۔دوسرا آپ اس کی بیوی کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں کیونکہ اس خاتون کی ضروریات کون پوری کرے گا؟وزیراعظم صاحب آپ نے نامرد کرنے کی سزا تو پڑھ لی مگر شاید یہ نہیں پڑھا کہ اس حرکت کرنے سے انسانی نفسیات اور ذہنی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔


 معاشرہ اس شخص کے مرنے کے بعد تو شاید بھول جائے مگر یہ نہ ممکن ہے کہ وہ شخص زندہ بھی ہو اور اس کی اولاد عزت سے رہے کیونکہ آپ نے اسے نامرد کر دیا ہے۔ آپ کے چاہنے والے کچھ اینکر حضرات آپ کی محبت میں یہ تک بھول گئے کہ جن ممالک میں یہ سزا ہے کیمیکل کے ذریعے نامرد کرنے والی وہ صرف تین ہیں انھوں نے چائنہ کو بھی اس میں ڈال دیا جبکہ وہاں قانونی طور پر1911یہ سزا ختم کر دی گئی تھی۔

آپ کو اگر سزا نفاذ کرنا ہے تو اسلامی سزا کا کریں ادھر اُدھر مت دیکھیں۔ اور پھر اس کے ساتھ نظام بھی وہ لائیں جس میں ریاست باقی خاندان کے نان و نفقہ او رعزت کی بھی ذمہ داری لے ۔ آپ بیت المال سے کسی کو کیا پالیں گے کسی کا نان ونفقہ کیا لگائیں گےآڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق 2019سے2020 میں اس محکمہ کی صرف تیرہ فی صد کا آڈٹ ہوا جو کہ 96 کروڑ10 لاکھ روپے تھا۔

جس میں سے 57 کروڑ 40 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ لوگ آپ کو زکوٰة کا پیسہ کیوں دیں آپ صرف لاہور کے سی سی پی او پر دست شفقت رکھیں باقی سب کا کوئی مسئلہ نہیں۔ تو پھر آپ یہ سزاوں والا ڈھونگ بھی مت کریں۔ عوام کے جذبات سے مت کھیلیں۔ عوام کو گمراہ مت کریں۔ آپ ریاست مدینہ کا دم بھرتے ہیں، ریاست مدینہ میں اس طرح کی سزائیں اسلام سے انحراف ہے۔ خدارا عوام سے اور مذاق مت کریں۔ جو آپ کے ذمہ کام لگایا گیا ہے وہ کام کریں، نہ کہ عوامی جذبات سے جڑے ایشوز کی آڑ میں چھپیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :