پولیس میں تبدیلی کی مداخلت

اتوار 13 ستمبر 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک بوڑھی عورت رات کے گھپ اندھیرے اپنے اونٹ پر سوار جارہی تھی کہ اچانک کسی نے اس کے اونٹ کی مہار کو پکڑ لیا۔ اس عورت نے یک لخت ایک جملہ بولا ”یا تو تم عمر رضی اللہ عنہ ہو یا پھر عمر رضی اللہ عنہ مر چکا ہے“۔
 اپنی ہر تقریر میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کرنے والے وزیراعظم عمران خان آج کہاں ہیں؟ موٹروے پر ایک خاتون کو اس کے بچوں کے سامنے درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور سی سی پی او لاہور اس سانحے پر جس طرح کا ردعمل دیتا ہے اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید عمران خان اپنی ریاست مدینہ بنانے والی بات بھول چکے ہیں، پولیس کی اپنی رپورٹ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ میں ہر طرح کے جرائم اضافہ ہوا ہے۔

آخروزیراعظم عمران خان کا ٹارگٹ کیا ہے کہ انہوں نے عمر شیخ ،جن کیخلاف حکومتی ایجنسی کی رپورٹ زبان زد عام ہے ان کو سی سی پی او لاہورلگا دیا؟ عثمان بزدار صاحب اس پرصفائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ یہ صوبائی حکومت کا اختیار ہے وہ کسی کو پوچھنے کی مجاز نہیں۔

(جاری ہے)

مگر سوال تو یہ ہے کہ یہ سی گریڈ افیسر یہاں تک اخر پہنچا کیسے؟ موصوف کا نام ہی بہت سے لوگوں نے میڈیا پر ارشد شریف کے جولائی 2019 کے پروگرام میں سنا،جس میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے عمر شیخ آر۔

پی۔ او ڈی جی خان کو مافیا کے خلاف ایکشن لینے پر سپیشل پروٹیکشن یونٹ (ایس پی یو) میں بھیج دیا۔ ارشد شریف کے اسی پروگرام میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے اف ائیر کہاکہ میں ان صاحب کو نہیں جانتا میں ان کے بارے میں ابھی معلومات منگواتا ہوں۔ جبکہ ن لیگ کے طارق فضل چوہدری نے عثمان بزدار کو نیچا دکھانے کے لیے عمر شیخ کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

جو بات آج سوشل میڈیا پر ان کے گلے پڑی ہوئی ہے اس بات کو بتانے کا مقصد ہے کہ حالات بتاتے ہیں کہ شہزاد اکبر، عمر شیخ کو اس واقعہ سے پہلے نہیں جانتے تھے،مگر جو شخص عمر شیخ کیو پہلے سے جانتا تھا وہ تھے خود وزیراعظم پاکستان عمران خان۔ یہ بات عمر شیخ نے خود ایک نجی ٹی وی چینل پہ بات چیت کرتے ہوئے بتائی کہ اکتوبر 2018 میں عمران خان کی ان سیملاقات ہوئی تھی وجہ تھی آئی جی اسلام آباد کی تعیناتی کے لیئے انٹر ویو،مگر شاید کسی دوست احباب نے عمر شیخ کے حق میں وزن نہیں ڈالا او وہ نہ لگ سکے۔


ویسے سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے اعزازات میں ایک اعزاز یہ بھی شامل ہے کہ انھیں فیصل آباد کے سیشن جج نے اشتہاری قرار دیا ہوا ہے۔ ان کو کسی سلسلہ میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا مگر یہ بار بار عدالت کے بلانے پر حاضر نہیں ہوئے۔ اس سب سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنی ٹرانسفر کروا لی۔ اور آصف سعید کھوسہ صاحب کے ایک فیصلے کے مطابق اشتہاری کو وکیل بھی نہیں مل سکتا۔


 اور اب یہاں لاہور میں تعینات ہونے کے بعد جس میٹنگ کا بہت شور سنا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ کی باتیں ”آئی جی“ دستگیر صاحب تک پہنچیں اور وہ بہت برہم ہوئے۔ ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہ اس میٹنگ میں سی سی پی او عمر شیخ نے کہا ”اس چھ فٹ دو انچ کے بندے کو بتا دیں کہ میں ان کے سر پر پاوٴں رکھ کر آ گیا ہوں“۔ پھر آگے جو ہوا آپ سب جانتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے دورہ لاہور میں ن لیگ اور خاص طور پر نیب پیشی کے وقت مریم نواز کو ٹف ٹائم نہ دینے پر سخت برہمی کا ظہار کیا،ان وجوہات پر وہ آئی جی سے نالاں توتھے مگر نوبت ان کے ہٹنے تک نہیں تھی۔

اس لئے ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کے لیے سی سی پی او کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے شہزاد چوہدری صاحب نے عمر شیخ کا نام تجویز کیااور یہ بات سامنے رکھی کہ عمر شیخ کو شہباز شریف نے پنجاب میں زیادہ نہیں رہنے دیا۔ تو یہ انہیں ٹف ٹائم دینے میں خوشی محسوس کریں گے۔وزیراعظم عمران خان کو تو جیسے اندھیرے میں چراغ مل گیا ان کا ایجنڈا اصلاحات یا نظام کی بہتری سے کہیں زیادہ اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانا ہے تو یہ روشنی وہ کیسے بجھا سکتے تھے، ان کے خیال میں تو اپوزیشن ختم ہوگئی تو پھر چار و نہ چار انھیں کو حکومت ملتی رہے گی۔

دیوانے کا خواب ہے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
اب معصوم سے بھولے سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار جتنی مرضی وضاحتیں کر لیں لیکن بات تو عیاں ہوچکی ہے،کیونکہ اگر عمر شیخ وزیراعظم کا انتخاب نہ ہوتے تو ساری کابینہ ان کا دفاع کرنے نہ آئی ہوتی۔ مشیر داخلہ ان کے دفاع کے لیے ان کے ساتھ آ کر کھڑے ہوئے۔ راجہ بشارت بھی چند ہومیو پیتھک جملے مذمت کے بول سکے۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ وہ پولیس والا ہے اسے میڈیا سے کیسے بات کرنا ہے نہیں آتا۔ اسے میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ اسد عمرنے کہا کہ بیان غیر ضروری تھا باقی اس نے کون سا قانون توڑا ہے۔ جو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ شیخ رشید نے بھی بیان کو غیر ضروری اور میڈیا کے ساتھ بات کرنے کا سلیقہ نہ آنے کا کہہ کر دفاع کیا۔اور تو اور بات کا رخ (سی سی پی او) عمر شیخ سے موڑنے کے لیے فیصل واوڈا نے سر عام پھانسی والا شوشہ چھوڑ دیا۔

اور اس طرح کے مجرموں کو نامرد بنانے کی سزا بھی تجویز کر ڈالی تاکہ توجہ عمر شیخ سے ہٹ جائے اور یہ بحث سٹارٹ ہو جائے کہ پھانسی کی سزا ہونی چاہیے یا نہیں۔ اب جو واوڈا صاحب اتنے پھنے خان اورعلی محمد خان جو چیمپیئن بن رہے ہیں جب بل اسمبلی میں پیش ہوا کہ پھانسی کی سزا ختم کریں ، نہیں ہونی چاہیے تو ان سب نے اس بل کے حق میں ووٹ ڈالااور بعد میں ایک قرار داد لے آئے اور مسلمان ہو گئے۔

جب یہ بل سینیٹ میں پہنچا تو مسلم لیگ ن کے جاوید عباسی نے اس میں ترمیم جمع کروائی۔ مگر وہ رد کر دی گئی اور پھانسی کی سزا ختم ہونا پاس ہوا۔ یہ آج جو پاکستان تحریک انصاف والے باتیں کر رہے ہیں سب ڈرامہ کر رہے ہیں۔ یہ بل متفقہ طور پر منظور ہوا ہے اور اس کو گناہ بنا کر پیش پی ٹی آئی کر رہی ہے جو اس میں شامل ہے اور گناہ گار صرف بلاول بھٹو کو اور پاکستان پیپلزپارٹی کو بنایا جا رہا ہے کہ وہ یہ چاہتے تھے۔

لیکن پی ٹی آئی کے لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ یوٹرن توان کا طرہ امتیاز ہے۔
ان کے وزیراعلیٰ تواپنا موازنہ دوسرے اور سابقہ وزرائے اعلیٰ سے کر رہے تھے کہ کہ شہباز شریف نے دس سالہ دور میں نو کے قریب آئی جی بدلے۔ مگر درحقیقت ان نو میں سے دو ریٹائر ہوئے باقی بچے سات ان سات میں سے ایک کو لاہور ہائی کورٹ نے ہٹا دیا سینارٹی کا معاملہ تھا۔

باقی بچے چھ۔ اب کہاں دس سال میں چھ آئی جی اور کہاں دو سالوں میں چھٹا آئی جی۔ سندھ میں تو آئی جی کے بدلنے پر پاکستان تحریک انصاف بہت شور مچاتی رہی ہے اور اب بھی مچاتی ہے اور پنجاب میں فرما رہے ہیں کہ اگر دو سو بھی بدلنے پڑے تو بدلیں گے۔
جناب پھر سندھ سے سوتیلے پن کا سلوک کیوں ہے۔ اب جب موٹروے درندگی کیس کا ملزم ابھی پکڑا نہیں گیا، ڈی ایں اے سے شناخت ہوئی ہے تواسی پولیس کی شان میں جو قصیدے پڑھے جا رہے ہیں وہ دیدنی ہیں ، اور جب پکڑے گئے تو اللہ کی پناہ۔


میرا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثالیں دینے والے ، ہر وقت میرٹ کی بات کرنے والے اداروں میں نظم و ضبط کی بات کرنے والے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے سوال ہے کہ آپ نے ایک بیسویں گریڈ کے بندے کو شولڈر پروموشن دے کر کیوں ایسی کرسی پر بٹھا دیا جس پر اکیسویں گریڈ کا بندہ ہونا چاہیے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آپ کسی آفیسر سے اپنا من مرضی کا کام لینا چاہتے ہیں۔

یہ عمر شیخ جو خود کو بڑا قابل افسر کہتے ہیں اور اپنی قابلیت واشنگٹن میں چار سال لگا کر آنا گنواتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کو زرداری صاحب نے بھجوایا جب یہ سندھ میں پوسٹ تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ یہ صاحب زرداری صاحب کے گوڈوں کو ہاتھ لگا کران کی خدمت کے لیے ہمہ وقت پیش رہتے تھے۔ اس طرح یہ واشنگٹن پہنچے۔
میں ذاتی طور پر” آئی بی“ کی رپورٹ پر انحصار نہیں کر رہا۔

میں تو ان کے پروموشن بورڈ کی لکھی ہوئی چیزوں سے باتیں اخذ کر رہا ہوں کہ ان کا اس کرسی پر ہونا کیسا ہے اور کیوں ہے۔ وزیراعظم صاحب نے پولیس اصلاحات کرنی تھیں، نہیں کیں۔ پولیس ریفارمز کمیٹی سے سابق آئی جی خیبر پختونخوا نے بھی استعفی دے دیا کیوں؟ شاید خان صاحب پنجاب پولیس میں اصلاحات کر ہی نہیں سکتے کیونکہ پنجاب کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے میں فرق ہے۔

یہاں برادری اور دھڑوں کی سیاست ہوتی ہے یہاں اگر کوئی خاندان سیاست میں ہارا بھی ہوا ہے تو اس کے چچا کا بیٹا کمشنر ہے، بھائی کسی بڑے ہسپتال کا ایم ایس ہے ، دوسرابھائی سیکرٹری ہے۔ جنوبی پنجاب اگر مائنس کریں تو باقی تحریک انصاف کی سیٹیں کتنی ہیں۔کیوں عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟پنجاب میں آپ کا ٹارگٹ پولیس ریفارمز نہیں اپوزیشن کا خاتمہ ہے۔


 اس کیس میں ملزمان بھی پکڑے جائیں گے انھیں سزا بھی ہو گی۔ مگر اس کیس نے ہمارے نظام کی ایسی کمزوریوں کو واضح کر دیا ہے جنھیں ہمیں ختم کرنا ہو گا۔ اس کیس سے ثابت ہوا کہ ریاست کا شہری جب ریاست کو پکار رہا تھا ریاست اس کی آواز پر جواب دینے میں ناکام رہی۔ مراد سعید جن کی وزارت کے نیچے موٹرویز آتی ہیں اس بات کا جواب دیں کہ اس موٹر وے کا چھ ماہ پہلے افتتاح کیسے ہوا جس پر تمام لوازمات ہی مکمل نہ تھے ؟ جبکہ یہی مراد سعید جس گیارہ ارب روپے کی ریکوری کا دعویٰ کرتے ہیں اس میں سے سات ارب روپے انھی موٹرویز کے ٹول بڑھانے سے ہوا تو پھر ذمہ داری بھی انھی کی آتی ہے۔

مگر ہو گا کیا وہ اسمبلی اجلاس میں آئیں گے اور چیخ چلا کر اپوزیشن پر برس کر چلتے بنیں گے اور عمران خان انھیں خوب داد دیں گے۔ کیا کوئی اپنے طور پر ایمانداری کے اس پتلے مراد سعید سے بھی پوچھے گا۔
وزیراعظم صاحب یہ خالصتاً انتظامی ناکامی ہے اور اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ کا حواری مراد سعید ہے۔ آپ کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ آپ کی خواہش جس کے تحت آپ پنجاب کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتے ہیں اس وجہ سے آپ نے پنجاب میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

آپ آئے دن پولیس سمیت ہر محکمے میں تبادلے کرتے جارہے ہیں، کوئی افسر مربوط نظام نہ بنا سکا، آپ کی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے۔
 آپ نے نہ ادارہ مضبوط ہونے دیا اور نہ ہی نظام۔افسوس ہے کہ یہاں کوئی بھی کام کروانے کے لیئے ہر کیس کو ہائی پروفائل کیس بننا پڑے گا تب وہ حل ہو گا، کیا یہی تبدیلی ہے؟، آپ کو اس بات کا ادراک نہیں کہ پنجاب مزاحمت نہیں کرتا وہ آپ کی صلاحیتوں کو ننگا کر دیتا ہے،جو آپ ہو رہے ہیں۔

آپ نے جس شخص کو (سی سی پی او) لگایا ہے، یہ آپ کے لیے خطرہ ہے۔ سوچیں اگر (ن) لیگ احتجاج کرے اور یہ لاٹھی چارج اور فائر کا آرڈر دے تو یہ تو تبادلہ ہو کر کہیں اور چلے جائیں گے مگر جواب آپ کو آپ کی صوبائی حکومت کو دینا ہو گا۔ خدا را ہوش کے ناخن لیں۔ ریاست کا بیڑہ غرق نہ کریں۔ نظام اور انتظام کو مفلوج نہ کریں ورنہ اسی طرح کے حادثات آپ کو چیلنج کرتے رہیں گے۔ کیونکہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ آپ نے لگایا ہے۔ اور اس کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ذاتیات سے اوپر اٹھ کر حکمرانی کرنا پڑتی ہے لیکن افسوس عمر رضی اللہ عنہ مر چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :