کراچی اورسسٹم

پیر 24 اگست 2020

Khurram Awan

خرم اعوان

کراچی کے حالات آج جس نہج پر پہنچ چکے ہیں،ہر کوئی اس سے بخوبی واقف ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سسٹم اس حد تک بگڑ کیسے گیا؟کسی بھی سسٹم کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک قانونی اور دوسرا انتظامی۔انتظام کو برقرار رکھنے کے لئے بعض اوقات قانون میں تبدیلی بھی کرنی پڑجاتی ہے اور کبھی قانون سے بالابالاہو کر انتظام چلایاجا تا ہے کیونکہ اگر انتظام ٹھیک رہے گا تو سسٹم بھی ٹھیک رہے گا۔

ایسا ہی کچھ کراچی کے ساتھ ہوا کچھ طاقتیں اتنی بڑی ہو گئیں کہ انہوں نے انتظام کو بگاڑ دیا اور کراچی کا سسٹم بگڑ کر اس نہج پر پہنچ گیا کہ آج مفلوج دکھائی دیتا ہے۔
کراچی کا انتظام ٹھیک کرنے کے لئے جنرل (ر) کیانی کے دور میں ایک جامع منصوبہ بنایا گیا جس کا پہلا مرحلہ کراچی میں امن امان کی فضا قائم کرنا تھی اس منصوبے پر عمل درآمد جنرل (ر)راحیل شریف کے دور میں شروع ہوا ۔

(جاری ہے)

اس منصوبے کا کریڈٹ نواز شریف اور ان کی پارٹی بھی لیتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس منصوبے کی مخالف تھی اسی لئے کراچی بد امنی کیس از خود نوٹس کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں چلا۔ جو کہ درحقیقت اس منصوبے کو بچانے کے لئے ایک( لیگل کور) تھا چونکہ پہلا مرحلہ تکمیل پا چکا ہے اس لئے منصوبے کے دوسرے مرحلے یعنی ترقیاتی کاموں کا آغاز اور تکمیل شروع ہونے کو ہے لہذا اس بار پھر سپریم کورٹ کی ابزرویشن کے طور پر( لیگل کور) مل چکا ہے۔

بہت سے میرے سینئر دوست اور صحافی یہ باتیں کر رہے ہیں کہ یہ نفرت،یہ لڑائی یہ لوگ اکٹھے نہیں بیٹھیں گے نہ سندھ حکومت رکاوٹ ڈالے گی تو میں سب سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔جناب کیماڑی کو ڈسٹرکٹ بنانے پر میں نے مصطفی کمال ، فیصل سبزواری، فاروق ستار ، عبدالقادر پٹیل ، سید مراد علی شاہ، مرتضی وہاب سب کی باتوں کو سن لیا مگر اس نتیجے پر پہنچا کہ اپوزیشن کے پاس کوئی بھی ٹھوس دلیل نہیں اعتراض کی اور حکومت کی جانب سے موقف واضح ہے کہ جو 6 رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے وہ صرف مشورہ دے گی عملدرآمد سندھ حکومت کرے گی۔

اب عملدرآمد کے لئے ایڈمنسٹریٹر کوئی بھی آئے چاہے وہ کوئی بیوروکریٹ ہو یا کوئی سابق فوجی افسر کام ہر صورت ہو گا۔
گزشتہ روز حبیب اکرم صاحب کو ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے سنا کہ اگر یہ کام نہ ہو اتو آنے والے قومی انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی کراچی سے اور ان کی حکومت سندھ سے ختم ہو جائے گی۔گزارش ہے کہ پیپلز پارٹی کا کراچی کی سیاست میں حصہ ہی کتنا ہے؟ اگر انیس سواٹھاسی سے شروع ہو تو کراچی سے پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے کبھی ایک ، کبھی دو اور کبھی تین نشستیں جیتی ہیں اس سے زیادہ کبھی کچھ نہیں ملا۔

رہی بات لوکل گورنمنٹ کی تو کراچی میں عبدالستار افغانی کس کے میئر تھے، فاروق ستار کس پارٹی کی جانب سے میئر تھے، نعمت اللہ کس جماعت سے میئرتھے ،مصطفی کمال کا تعلق کس پارٹی سے تھا، وسیم اختر کس جماعت کی رکنیت رکھتے ہیں۔ جب اتنے سال لوکل گورنمنٹ آپ نے ایک ایسی پارٹی کو عنایت کئے رکھی جس کا حشر آخر میں ملک دشمن کے طور پر ہوا تو اب ان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں وقت تو لگے گا ،یہ راتوں رات کا تو کام نہیں ہے۔

اس کا اندازہ وزیراعظم عمران خان خود بخوبی لگا سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی پنجاب کی بیوروکریسی میں ن لیگ کے اثرو رسوخ کا الزام لگا چکے ہیں۔ وسیم اختر صاحب کو تقریباً 86 ارب روپے کا بجٹ ملا اگر میں اس میں سے آدھا یعنی 43 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں بھی لگا لئے جائیں تو باقی 43 ارب روپے کہاں گئے۔ وسیم اختر صاحب ہر بار پریس ٹاک میں یہ فرماتے رہے ہیں کہ میں تو ایک گٹر کا ڈھکن بھی نہیں لگا سکتا،مگر جناب اپنے آفس میں قائداعظم کی پانچ ہزار والی تصویر پچاس ہزار میں لگوا سکتے ہیں۔

حال تو یہ ہے کہ پارٹی کی کوئی میٹنگ ہو اس میں پنڈال کسی یوسی ناظم سے، کرسیاں کسی یوسی ناظم سے اور کھانا کسی یو سی ناظم سے کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کیا وہ یو سی ناظم یہ سب اپنی جیب سے کرے گا؟ جناب وہ یہ سب اسی فنڈ میں سے کرے گا جو اسے گلیوں اور نالوں کی صفائی اور کچرا اٹھانے کے لیے دیا گیا ہے۔ تو میری سینئرز سے درخواست ہے کہ جناب عمران خان صاحب اپنے اتحادی ایم کیو ایم سے 86 ارب کا حساب تو لیں پیپلزپارٹی پر پھربرسیں۔


 رہی بات اندرون سندھ کی ،جہاں 38 میں سے 35 سیٹیں اسمبلی کی پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ اب میرے کچھ سینئر لوگوں کے ذہن میں شاید دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد کی صورت حال ہے کیونکہ کچھ عرصہ بعد پاکستان پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک کا شور مچا تھا۔ جس کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ اگر میرے پڑھنے والوں کی یادداشت ان کا ساتھ دے تو تین کرداروں کا چند جملوں میں تذکرہ کرتا ہوں۔

ان کرداروں میں سے ایک کردار نادر مگسی ہیں جو پاکستان پیپلزپارٹی سے ناراض تھے۔ نادر مگسی صاحب کے علاقہ میں ایک قومی اسمبلی کی سیٹ بلوچستان سے بنتی ہے، او ر ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ سندھ سے وہ جیتتے ہیں۔ میری اطلاعات کے مطابق نادر مگسی اس بات سے ناراض تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی نے علاقے میں کسی اور پر بھی دست شفقت رکھا ہوا ہے اور اسے تیار کیا جا رہا ہے۔

اور شاید اگلے الیکشن میں ان کو ٹکٹ دیا جائے۔ تو اس موقع کا فائدہ مقتدر حلقوں نے اٹھانا چاہا اور ان سے رابطہ کیا گیا۔ نادر مگسی صاحب گورنر سے ملے پھر جی ڈی اے والوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ مگر اس رابطے کی خبر کے آتے ہی نادر مگسی صاحب کے بھائی کی ملاقات زرداری صاحب سے کروائی گئی اور تمام معاملات ٹھیک ہو گئے۔
دوسری کوشش آغا سراج درانی صاحب کے حوالے سے ہوئی اب آغا سراج درانی صاحب پارٹی سے ناراض تھے کیونکہ انھیں قائم علی شاہ صاحب کے بعد وزیراعلیٰ کے منصب کا وعدہ کیا گیا تھامگر دیا انھیں اسپیکر کا عہدہ۔

جو ان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔ کیونکہ آغا سراج درانی وہ شخصیت تھے جو کہ بلدیات کے وزیر تھے اور اپوزیشن کیا اتحادی کیا ان کے ساتھ ہر بار جو مذاکرات ہوا کرتے تھے اس میں پیش پیش تھے۔ مقتدر حلقوں نے انھیں اپروچ کیا اور ان کا ٹارگٹ تھا کہ کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر فارورڈ بلاک کا اعلان کروا دے۔ اس مقصد کے لیے جب بات چیت کی باری آئی تو یہ سندھ میں تو ہو نہیں سکتی تھی اس کے لیے میرے ذرائع کے مطابق آغا سراج درانی کی اپنی خواش پر انھیں نیب نے اسلام آباد میں گرفتار کر لیا اور ان سے وہاں بات چیت کی گئی، ٹارگٹ دیا گیا اور سندھ شفٹ کر دیا گیا۔

ادھر یہ کوششیں شروع ہوئیں اور ادھر پھر آغا صاحب کے کسی رشتہ دار کی میٹنگ زرداری صاحب سے ہوئی ۔ گلے شکوے دور کر دیے گئے۔ اس دوران آغا سراج درانی کی کوششیں کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکیں اور نیب والا معاملہ زیادہ لٹکایا نہ جا سکتا تھا۔ اس لیے آغا سراج درانی صاحب کو ریلیف بھی مل گیا۔ اور اب وہ باہر ہیں اور خاموش ہیں، تو اس طرح دوسری کوشش بھی بے کار گئی۔


اب تیسری شخصیت اور وہ تھے مخدوم امین فہیم ان کی کیئر ٹیکر وزیراعظم والی بات کے بعد سے پارٹی میں ان کے ساتھ کچھ سرد مہری کا معاملہ تھا۔ وہ اور ان کا خاندان ناراض تھا۔ مگر سندھ کی تین بڑی گدیوں میں سے ایک ان کے پاس ہے جیسے پیر صاحب پگاڑا کی جماعت کو ”حر“ کہا جاتا ہے، شاہ محمود قریشی صاحب کی جماعت کو( غوثیہ) کہا جاتا ہے ویسے ہی ان کی جماعت کو (سروری) جماعت کہا جاتا ہے۔

یہ ناراض ضرور تھے مگر یہ کسی جانب گئے نہیں۔ پھر مخدوم امین فہیم صاحب کی وفات کے بعد قومی اسمبلی کی سیٹ اب 2018 کے الیکشن میں ان کے بیٹے مخدوم جمیل الزماں کو دی گئی اور مخدوم جمیل کے بیٹے مخدوم محبوب الزماں کو صوبائی سیٹ اور وزارت دی گئی۔
اسی وجہ سے اگر میرے قارئین کو یاد ہو کہ بلاول نے لاہور میں کہا تھا کہ اگر آپ کو میری حکومت سندھ میں گرانی ہے تو آپ کو میرے پچاس ایم پی اے توڑنا اور تبدیل کروانا پڑیں گے۔


میرے دوست کہیں گے کہ ایک اور شخصیت تھے ذوالفقار مرزا۔ جی جناب یہی تو نتیجہ ہے کہ جناب اب ذوالفقار مرزا صاحب کہاں ہیں۔ بڑے دھڑلے کے انسان تھے مگر کیا ہوا پاکستان پیپلزپارٹی نے (راہو خاندان) (اسماعیل راہو) جو کہ پندرہ سال سیزیادہ عرصہ سے مسلم لیگ ن میں تھے،انہیں اپنی جانب لائے اور قومی اسمبلی میں اپنے امیدوار حاجی رسول بخش چانڈیو کو سپورٹ کروایا ، اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ راہو خاندان کو دی۔

چانڈیو صاحب فہمیدہ مرزا کے مقابلے میں 860 ووٹوں سے ہارے جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 14619 تھی۔ اگر انھی کو دوبارہ دیکھ لیا جاتا تو شاید چانڈیو جیت جاتے۔
اب ذوالفقار مرزا صاحب کا حال دیکھ لیں اتنا بڑا شخص، اتنا بڑا نام اور راہو خاندان کے مقابلے میں اٹھائیس ہزار ووٹ لے پایا۔ یہ ہے سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت جائے گی یا رہے گی کا جواب۔

جناب سندھ میں جس نے الیکشن لڑنا ہے ابھی بھی اس کے لیے نشان ایک ہی ہے اور وہ ہے تیر کا نشان۔ اور جہاں تک بات ہے مقتدر حلقوں کی تو جناب دو سال کی کوششوں کے بعد اب یہ کوششیں ترک ہو چکی ہیں یا یوں کہ لیں ماضی کا قصہ بن چکی ہیں، کیونکہ کراچی کے پلان کا اگلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے ان کا مکمل فوکس یہ مرحلہ اور ا س کی کامیابی ہے۔ اور پی ٹی آئی نے سندھ بھر میں کام کچھ کیا نہیں۔

جی ڈی اے کہاں اس کا پتہ نہیں۔ تو سندھ میں جتنا کام ہوا ہے وہ سندھ حکومت نے ہی کروایا ہے۔ سڑکوں سے لے کر صحبت کی سہولتوں اور تعلیم کی سہولتوں تک۔ ایک لاکھ نوے ہزار کے قریب لوگ ہیں جو دوسرے صوبوں سے سندھ اپنے علاج کی غرض سے گئے اور کامیاب علاج کے بعد واپس اپنے گھروں کو صحت یاب ہو کر لوٹے۔اور وہ بھی مفت، تھر میں انفرا سٹرکچر (سڑکیں وغیرہ) بنوائیں، تعلیم میں سکھر، لاڑکانہ، خیرپور کے مقابلے کے امتحان کے نتائج سندھ کے تعلیمی نظام میں پڑہے ہوے مڈل کلاس بچوں کے ہیں نہ کہ ایچی سن کے پڑھے ہوے۔

مگر ہمیں تو صرف کتے کی ویکسین ہی نظر آتی ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ صرف کراچی کے حوالے سے بھی بات کریں تو جناب کراچی میں پیپلزپارٹی کو وہی ملنا ہے جو اب تک ملتا آیا ہے۔ ویسے پہلے ہم لیاری کے لوگوں کو آئے روز پانی کے لئے احتجاج کرتے ہوئے پاتے تھے، مگر اب وہاں تمام لائینز نئی بچھا دی گئی ہیں اب DHA میں تو پانی کا مسئلہ ہو سکتا ہے مگر لیاری میں نہیں۔

کل بارش کے بعد ایک دوست سے بات ہوئی رات گیارہ بجے ، اس سے پوچھا جناب بارش کے بعد پانی کا کیا حال ہے تو اس نے کہا کہ بھائی کراچی تمام کا تمام آپ کے ٹی وی پر ہی ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کی سالگرہ منانے نکلا تھا پانی تھا واپس آیا تو نکل چکا تھا۔ پتہ نہیں تم لوگوں کو اترا ہوا پانی کیوں نہیں نظر آتا۔ اپنی عینکیں بدلواوٴ۔
اب میں عرض کروں جناب کراچی میں جو کدو بٹے گا وہ ایم کیو ایم والا ووٹ بینک ہے جو اب بلدیاتی الیکشن میں (پاکستان تحریک انصاف)،( پی ایس پی)، (ایم کیو ایم) اورچوتھا ( فاروق ستار گروپ )میں بٹے گا۔

اور اس مرتبہ کئی کارڈ جن میں مہاجر، پشتون، بلوچ، سرائیکی کارڈ ہیں استعمال ہوں گے۔ اور ساتھ ہی مذہبی اور برادری بھی۔ تو جناب فرق جس کدو کو پڑنا ہے وہ اور ہے، اگر فری اینڈ فیئر الیکشن ہونے دیے گئے۔
پیپلزپارٹی کی صرف ایک خرابی ہے کہ اسے اپنے آپ کو بیچنا نہیں آتا۔ اور ان کی perception بنا دی گئی ہے۔ اب سینٹ کے الیکشن جو کہ صادق سنجرانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کے نتیجے میں ہوئے تھے سب کو یاد ہوں گے۔

ووٹنگ سے ایک دن پہلے جناب مشاہد حسین سید نے ایک پریس میٹنگ کی چند صحافیوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ اس میں ملک ریاض کا زرداری سے جیل میں ملنا اور سنجرانی کا سپورٹ اور اپنے امیدوار کے خلاف ووٹ ڈالنے کی بات یا یوں کہیں کہانی پیش کر دی گئی اور ووٹنگ کے بعد اس ہارکا تمام الزام پیپلزپارٹی اور زرداری پر آ گیا۔ جبکہ میر حاصل بزنجو کے انتقال کے بعد پرویز رشید نے ان سے معافی مانگی کہ میری صفوں میں چودہ لوگوں نے انھیں ووٹ نہیں دیا میں معافی چاہتا ہوں بزنجو صاحب سے۔

چار نام تو ہمیں معلوم ہیں۔ حافظ عبدالکریم، آغا شاہ زیب درانی، ایک کے پی سے ن لیگ کے سینیٹر ہیں جن کا بیٹا ابان کی جگہ سینیٹر ہے۔ اور سینیٹر کلثوم پروین۔ باقی سب کو چھوڑ دیں کلثوم پروین صاحبہ کے خلاف پارٹی نے کیا کاروائی کی جنہوں نے اعلانیہ پارٹی کی بات نہ ماننے کا کہا تھا۔ مگر بدنام صرف زرداری اور پیپلزپارٹی ہے۔ جیسے ن لیگ میں ایک بھائی Good cop ہے اور ایک Bad cop بنا ہوا ہے۔

اسی طرح پیپلزپارٹی بھی کھیل لے۔
 دوسری مثال جس طرح مریم نوازکی نیب میں پیشی پر ایک ریاستی ادارے پر پتھراوٴ کیا گیا اس میں اتنا بوگس کیس جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہی نہ کی گئیں۔ 188 لوگوں پر کیس ہوا 58 کی ضمانت دوسرے دن ہی ہو گئی۔ اگر یہی پیشی زرداری کی ہوتی یا بلاول کی تو یہ دفعات بھی لگتیں اور ضمانت بھی نہ ہوتی۔ ریاست کے ادارے پر حملے اور بغیر دہشت گردی کی دفعات کے FIR اچھا مذاق ہے۔


تیسرا نواز شریف باہر جاتے ہیں مریم ضمانت پر ہوتی ہیں مدت ملازمت میں توسیع کے حق میں ووٹ بھی ڈالا جاتا ہے او ربیانیہ مخالف گنا ہی نہیں جا تاہے۔ اگر پیپلزپارٹی ہوتی تو کہا جاتا بھٹو کے نظریہ سے غداری کی گئی۔ ویسے یہی وجہ ہے کہ یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ نواز شریف خود ایک متوازی انتظام بن چکا ہے اور جب دو انتظام ٹکراتے ہیں تو بگاڑ سسٹم میں آتا ہے، اسی کو روکنے کے لیئے یہ سب کیا گیا تھا۔
تو جناب مقتدر حلقوں کو معلوم ہے کہ سسٹم چلتا رہنا چاہیے اسی میں بقا ہے ورنہ پی ٹی آئی کی نظر میں تو قانون بھی غلط ہے اور انتظام بھی اور انتظام کو چھیڑا جائے گا تو سسٹم بگڑ جائے گا۔ اور سسٹم کو کوئی بگاڑنا نہیں چاہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :