طارق عزیز ۔ اک عہد تمام ہوا

جمعرات 18 جون 2020

 Lubna Jamshed

لبنیٰ جمشید

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص موجود ہ جو طارق عزیز کے نام سے واقف نہ ہو۔ انہوں ریڈیو پاکستان سے اپنی فنی و ادبی خدمات کا سلسلہ بطور صداکار شروع کیا پھر سفر طےکرتے  ہدایتکار، اداکار، شاعر ، ادیب ،سیاستدان، میزبان ، ملٹی ٹیلنٹڈ لیجنڈ " طارق عزیز" ہر فن مولا قرار پاۓ۔۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر سنی جانے والی پہلی آواز طارق عزیز کی تھی۔

مسلسل چار دہائیوں تک پروگرام نیلام گھر کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور پھر یہ شو طارق عزیز کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
کل مورخہ 17 جون 2020 ان کی وفات کے موقع پر مصنفہ و شاعرہ ریحانہ اعجاز نے کہا کہ طارق عزیز کی موت نے ثابت کر دیاہے  " بےشک ہم “حسین ترین” امیر ترین” ذہین ترین “ اور زندگی میں ہر حوالے سے بہترین ہو کر بھی بالآخر مر ہی جائیں گے ۔

(جاری ہے)

۔۔
بے شک موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن کچھ افراد ہماری زندگی میں اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ ان کی دائمی جدائی کا سوچ کر ہی آنکھیں آنسؤوں سے بھر آتی ہیں۔۔۔ طارق عزیز بھی ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے کہ انکی وفات پر ہر پاکستانی  کی آنکھ اشکبار ہے۔
اج دی رات میں کلّا واں
کوئی نئیں میرے کول
اج دی رات تے میریا ربّا!
نیڑے ہو کے بول ۔

۔۔
                                    طارق عزیز

کیا کمال شاعری لکھ گے وہ رات سے یہ شعر بار بار دماغ میں گردش کر رہا ہے اور بے اختیار آنسو چھلکے جا رہے ہیں۔
پروفیسر مہدی حسن سے آخری فون کال
طارق عزیز کے قریبی دوست اور کلاس میٹ پروفیسر مہندی حسن نے اپنی  فیس بک پر ان کے اور طارق عزیز کے مابین آخری فون کال کے بارے میں بتایا کہ یہ اتفاق تھا کہ پرسوں رات یعنی وفات سے پہلی رات ان سے بات ہوئی  .. ان کے ایک پرانے شاگرد جو پنجاب کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن آفیسر رہ چکے ہیں وہ طارق عزیز سے منیر نیازی کے بارے مین بات چیت کرنا چاہتے تھے۔

مہندی حسن صاحب نے کہا کہ انہوں نے  طارق عزیز  کو ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا کہ ان کو بخار ہے اور منیر نیازی کے بارے میں ایک ہفتے بعد گفتگو کریں گے۔۔۔ کس قدر بے وفا نکلے ایک ہفتے بعد ملنے کا کہہ کر اس ابدی سفر پر چل دئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہ آیا۔ انہوں نے لکھا کہ طارق عزیز بچپن میں اکثر دوپہر کے وقت ان سے ملنے آتے تھے اور ان کے والد نے طارق عزیز کو گل دوپہری کا خطاب دیا ہوا تھا۔


طارق عزیز کے حالات زندگی
طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو بھارت کے شہر جالندھر میں پیدا ہوۓ۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ساہیوال  آیا۔ ان کا ایک ہی بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ بڑا بھائی خالد عزیز کسٹم کے محکمہ میں ملازم تھا اور بہت پہلے جوانی میں انتقال کر گیا تھا۔ تین بہنوں میں ایک امریکہ میں مقیم ہیں۔


ان  کو اداکاری کا شوق پڑھائی  کے زمانے سے تھا۔ لیکن تعلیم کے میدان میں انگریزی ان کی کمزوری تھی، جس کی وجہ سے وہ کالج کی روائتی تعلیم پوری نہیں کرسکے تھا۔ ساہیوال کے کالج میں طالبعلم نہ ہوتے ہوۓ بھی کئی ڈراموں میں حصہ لیا۔
طارق عزیز نے اپنی انگریزی کی کمی کو اردو ادب خاص طور پر شاعری سے پورا کیا اور اردو کی کلاسیکل  لینگویج کے امتحان بھی پاس کئے۔


کامیاب اینکر اور اداکار
1960 میں طارق عزیز ریڈیو پر اناوُنسر کے فرائض انجام دینے لگے ۔  1964 میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر مقرر کیے گے تھے لیکن  1975ء میں شروع کیے جانے والے ان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔

ان کی سب سے پہلی فلم 1967انسانیت تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان پسندیدہ ترین ہیں۔ کئی فلموں میں ولن کا کردار بھی اداکیامگر اس رول میں انکی شخصیت جچ نہ پائی یا ہمارےذہن کے خاکے میں ان کے مثبت کردار کی گہری چھاپ تھی جو بطور ولن بھلے نہ لگے۔

نیلام گھر سے طارق عزیز  شو تک

ابتدا ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کاسلام پہنچے۔

۔ سلیقے سے پہنے کپڑوں اور ڈوپٹے میں ملبوس دو ہوسٹس کے ساتھ پروگرام میں اینٹری اور ابتدا دل کی دھڑکن تیز کر دیا کرتی تھی۔ معلوماتی خزانے سے بھر پور پروگرام جس میں انعامات بھی ایک مہذب انداز میں دیے جاتے آج تک نہ تو کوئی اس انداز کی کاپی کر پایا ہے نہ پروگرام کی ۔۔ 80 کی دہائی کے بچوں اور بڑوں کے لیے نیلام گھر ہی گوگل تھا۔  جس سے معلومات کا ایک سیلاب بہتا تھا۔

ہر جمعرات کی شب گھروں کے بزرگوں اور بچوں کو انتظار رہتا کب آٹھ بجیں گے اور کب طارق عزیز معلومات کی پٹاری لیے سکرین پر روشن ہوں۔
ہمارے دادا ابا کی پسندیدہ ترین شخصیت تھے ۔ دادا ابا ان کے سوالات ہمارے ساتھ دہرایا کرتے اور جس کو تمام آتے وہ انعام کاحقدار ٹہرتا۔۔ بلکہ اس پروگرام سے پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ جب میرا چھوٹا بھائی پیدا ہوا تو کان میں آذان دینے کے لیے نیلام گھر چھوڑنے کو دل نہیں کیا چند منٹ قبل ہوۓ پوتے کو وہیں پروگرام دیکھتے آذان دی اور پوتے صاحب نے بھی آنکھیں کھولتے سکرین پر موجود طارق عزیز صاحب کو ہی پہلی نظر دیکھا تھا۔


اب لوگ ایڈکشن کی بات کرتے ہیں ۔۔ ان کی شخصیت کی ایڈکشن کے سامنے سب ہیچ ہے۔ یہی وجہ  ہے کہ اعزازی طور پر نیلام گھر کو  طارق عزیز شو  کا نام دے دیا گیا۔۔
ان کے شو میں ایک گاڑی کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ مجھے یاد ہے تین بار میں نے گھر بیٹھے  سکرین کے سامنے تمام سوالات کے صیحیح جواب دیے تھے اور خواہش تھی کہ کبھی طارق عزیز سے سامنا ہو تو انہیں کہونگی کہ تین گاڑیاں ادھار ہیں آپکی طرف۔

۔پھر زندگی میں ایک بار ملنا ہوا تو وہ بات یاد تو تھی مگر کہتے ہوۓ شرم آئی اور کہہ نہ پائی۔۔۔
سیاست اور طارق عزیز
طارق عزیز ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے 1997 کے  الیکشن میں وزیراعظم  عمران خان کو شکست دی اور قومی اسمبلی کے رکن  منتخب ہوئے۔
1997 کے الیکشن میں طارق عزیز نے پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو شکست دی تھی۔


اپنے ایک انٹرویو میں طارق عزیز نے بتایا کہ وہ ترقی پسند خیالات کی وجہ سے بھٹو کو پسند کرتے تھے اور اسی لیے پیپلز پارٹی جوائن کی۔
مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھائی کے واقعے میں ملوث ہونے پر انہیں عدالت عظمیٰ نے سزا بھی سنائی تھی۔
تصانیف
 ’داستان‘ کے نام سے کالموں کا مجموعہ طارق عزیز کے نادر خیالات کی عکاسی کرتا ہ۔

جبکہ پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ’ہمزاد دا دکھ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
ایوارڈ
 ان کی فنی خدمات پر بے شمار ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا ۔
اُن کے لب و لہجے میں کمال کی برجستگی ، الفاظ کی ادائیگی کا نپا تُلا انداز ، بہترین تلفظ شامل ہے اتنی ہمہ صفت  شخصیت بھی بالآخر قانونِ قدرت کے سامنے بےبس ہوگئی اور موت کے ہاتھوں شکست کھا گئی ۔

۔۔
اللہ پاک طارق عزیز کی مغفرت فرمائے آمین
بے شک پاکستان کا ایک بہت بڑا ادبی خزینہ خالی ہو گیا ۔ قلم تھک جاۓ گا مگر اس شخص کی باتیں نہیں ختم ہونے والی۔۔
ان کی پنجابی کی ایک بہترین غزل۔۔
گناہ کیہ اے، ثواب کیہ اےایہہ فیصلے دا عذاب کیہ اے
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکداتے فیر جگ دی کتاب کیہ اے
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نےنئیں تے شاخ گلاب کیہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے تے حکم عالی جناب کیہ اے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :