ننھے مزدور ہیں ۔۔ کتنے مجبور ہیں

ہفتہ 12 جون 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے جنت کے پھول ہوتے ہیں مگر ان پھولوں کو توڑ کر پھینک دینا کہاں کی انسانیت ہے- بچے تو ماں باپ کے جگر کا ٹکڑا ہوتے ہیں, ان کا فخر ہوتے ہیں, ان کے آنگن میں بنے باغیچے کے کھلکھلاتے, مسکراتے, معصوم اور  نازک سے پھول ہوتے ہیں اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ ماں باپ کو یہی جگر کا ٹکڑا بوجھ لگنے لگتا ہے اور پھر ان کو خود سے الگ کر کے  کہیں دور بھیج دیا جاتا  ہے اور اپنی بھوک پیاس کی ہوس کو مٹانے کے لیے ان کمزور کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری کا بوجھ ڈال دیا  جاتا ہے۔


انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے بچوں کی مزدوری کی عالمی حد اور اس کے خاتمے کے لئے ضروری اقدامات اور کوششوں پر توجہ دینے کے لئے 2002 میں بچوں کی مزدوری کے خلاف عالمی دن کا آغاز کیا۔

(جاری ہے)

ہر سال ، 12 جون کو عالمی دن ، حکومتوں ، آجروں اور کارکنوں کی تنظیموں ، سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو اکٹھا کرکے بچوں کی مزدوریوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتا ہے اور ان کی مدد کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے وہ تمام اقدامات بروئے کار لانے کے لئے کوششیں کرتے ہیں۔


آج ، پوری دنیا میں ، تقریبا 21 218 ملین بچے کام کرتے ہیں-  بچوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے مثلاً کوئی بچہ کسی کھانےکے ڈھابے یا مکینک کی دکان پرمار کھاتا نظر آئے گا یا چھوٹی چھوٹی نو عمر بچیاں گھروں میں کام کرتی نظر آئیں گی یا پھر گھر کے مالک مکان کی مار پیٹ ظلم و ستم سہتی یا ان کی ہوس کی بھینٹ چڑھتی ہوئی نظر آئیں گی یا کسی گینگ میں ملوث سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے یا پھر بچے اور بچیوں کی سمگلنگ کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ایسے اور بھی بہت سے مسائل نے ہمارے ملک میں جنم لیا اور ان جرائم میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

چھوٹے چھوٹے بچوں کو کم اجرت پر کام پر رکھتے ہیں  اور پھر اس طرح سلوک کرتے ہیں جیسے بچے کو خرید لیا ہو۔ اس وجہ سے بچے سکول نہیں جا پاتے ہیں اور نہ ہی کھیل کود کو اپنی زندگی میں شامل کر پاتے ہیں- کتنا آسان ہوتا ہے کسی کے بچے کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا اور مطلب پورا ہو جانے کے بعد منٹ میں چھٹکارا حاصل کر لینا-
ان تمام وجوہات کے پیچھے صرف اور صرف ان ماں باپ کا قصور ہے جو بچے تو بڑے شوق سے پیدا کر لیتے ہیں اور جب ان سے کبھی سوال کیا جاتا ہے کے اس مہنگائی کے دور میں اتنے بڑے کنبے کی پرورش کیسے ممکن ہے تو یہ جوابات سننے کو ملتے ہیں جیسے اللہ کی دین ہے، یا اللہ مالک ہے تو پھر کیسے تھوڑے پیسوں میں اپنے بچوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا اور دو دو تین تین مہینوں تک پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ ان کی اولاد زندہ بھی ہے یا نہیں۔


کبھی کسی گھریلو ملازمہ کو ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی کسی ملازمہ کو تشدد کرکے بے رحمی سے قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر کسی مکینک کی دکان پر کام کرنے والے بچوں کو چار لوگوں میں ذلیل کیا جاتا ہو یا کسی ریسٹورنٹ میں کم سن بچے پر گرما گرم چاۓ اس کے چہرے پر ڈال کر چہرہ جلا دیا جاتا ہے اکثر ایسے واقعات میڈیا چینلز کی سکرین کی زینت بنتے ہیں۔

مگر افسوس کہ ایسے لوگوں کو شرم سے ڈوب مرنے کے بجائے خود پر فخر محسوس ہوتا ہے ۔
کیا ان لوگوں کے لیے کوئی سزا نہیں؟ کیوں ایسے مجرموں کو چھوڑ دیا ؟؟ کیا ایسے لوگوں کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی؟ حکومت سے اپیل ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا عمل یقینی بنایا جائے۔ تاکہ ہمارے ملک میں ایسے گھناؤنے کاروبار کا مکمل خاتمہ ہو سکے اور ان بچے اور بچیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حقوق فراہم کیا جائے ۔اور جو لوگ ان بچوں سے محنت و مشقت کا کام لیتے ہیں ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :