کینسر کے مریض رُل گئے ۔۔۔۔

منگل 29 جون 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

سابق وزیرِاعلٰی  پنجاب  شہبازشریف  نے 04 فروری 2014 کو ورلڈ کینسر ڈے کے موقع پر اعلان کیا کہ پنجاب  میں  کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات  فراہم  کی جایئں  گی ۔ اس اعلان کے فوراً بعد ”پنجاب کرونک مائیلائڈ لیوکیمیا پروجیکٹ”کے نام سے ایک پروجیکٹ لانچ کیا گیا۔ یہ پروجیکٹ پنجاب گورنمنٹ اورسوِس  کمپنی  نووارٹس کے درمیان میمورینڈم دستخط ہونے کے بعد لانچ کیا گیا۔


2014 میں لانچ کیے گئے اس  پنجاب کرونک مائیلائیڈ لیکیومیا پروجیکٹ کے نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ کرونک مائیلائڈ لیکیومیا اور گیسٹرو انٹیسٹائینل سٹرومل  ٹیومر کے مریضوں کو ہوا ۔ کیونکہ ابتدا میں ان دو اقسام کے کینسر کو ہی اس پروگرام میں شامل کیا گیا تھا ۔
گورنمنٹ آف پنجاب کے ”پنجاب سی ایم ایل پروجیکٹ” کی وجہ سے پنجاب کے کینسر کے مریضوں کو زبردست فائدہ پہنچا جب کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات بھی ملیں ساتھ میں اس پروجیکٹ کے تحت مریضوں کی بقاء کی شرح 90 فیصد ہوگئی۔

(جاری ہے)

یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ پنجاب گورنمنٹ کے اعدادو شمار بتاتے ہیں ۔
پنجاب سی ایم ایل پروجیکٹ کےتحت 2014سے 2017 تک بلڈ کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیۓ بہترین اورمفت سہولیات فراہم کی گئیں۔ اس مقصدکےلیۓ 2014سے 2017 تک بلڈکینسر کے مریضوں کے لیۓ 13 بلین روپے خرچ کئے گئے ۔ ابتدا میں یہ پروجیکٹ  پنجاب کے 4 ہاسپٹلز میں شروع کیا گیا تھا۔
جن میں ہولی فیملی ہاسپٹل راولپنڈی، الائیڈہاسپٹل فیصل آباد، جناح ہاسپٹل لاہور اور نشتر ہاسپٹل ملتان شامل تھے۔


‏12 اکتوبر2017 کو اس  پروگرام کووسیع کر دیا گیا جب پنجاب گورنمنٹ اورسوس کمپنی نووارٹس کے درمیان ایک اورمعاہدہ طے پا گیا ۔
‏جسکےتحت آئندہ پانچ سالوں میں حکومت 7 قسم کے کینسر کے 9000 مریضوں کو مفت ادویات فراہم کریگی۔اوریہ علاج 100 فیصدمفت فراہم کیا گیا۔اس نئے معاہدے سے پہلے 2014 سے 2017 تک پنجاب گورنمنٹ نے دوقسم کے کینسر کے 3000 مریضوں  کو مفت ادویات فراہم کیں۔

جسکےلیے پہلے کینسر کے مریضوں کی رجسٹریشن کی گئی۔
‏2017 کا نیا معاہدہ سابق وزیرِاعلٰی پنجاب شہبازشریف کا ایک تاریخی فیصلہ تھا کیونکہ دوقسم کے کینسرکے 3000 مریضوں سے7 قسم کے کینسر کے 9000 مریضوں کومفت ادویات فراہم کرانا ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔2017 کے معاہدے کےتحت 7 قسم کے کینسر کے مریضوں پر آئندہ پانچ سالوں میں 44 بلین روپے خرچ ہونے تھے۔


2017 کے معاہدے کےبعدرحیم یارخان کے ہاسپٹل کوبھی اس پروگرام میں شامل کیا گیا۔مفت کینسر کی ادویات کے اس پروجیکٹ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ اس نے پنجاب کے 36اضلاع  کو کوَر کیاکینسر کے مریضوں کو ماہانہ فری ادویات فراہم کی جاتی رہیں۔2014سے2018تک کینسر کے مریضوں کےلیۓ27 بلین روپے کی ادویات مفت فراہم کی گئیں۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یہ پروجیکٹ تب تک کامیاب رہاجب تک جون 2018 تک سابق وزیرِاعلٰی پنجاب شہبازشریف وزیرِاعلٰی رہے۔

اُنکے جانے کے بعد عُثمان بُزدار صاحب کی پنجاب حکومت نے اس پروجیکٹ کو چلانے سے انکار کیا۔ اور جب سے عثمان بُزدار صاحب کی پنجاب حکومت قائم ہوئی اس پروجیکٹ کےلیۓ ایک روپے کی فنڈنگ نہیں کی گئی۔
‏موجودہ پنجاب گورنمنٹ چونکہ اس پروجیکٹ کو چلانا نہیں چاہتی تھی اس لیۓاس نے بہانہ یہ کیا کہ نووارٹس کمپنی کاآڈٹ کیا جا رہا ہے اس لیۓ کینسر کے مریضوں کو دوائی کی سپلائی روک دی گئی ہے۔

اس پروجیکٹ کے حوالے سے مزید یہ کہا گیا کہ اس پروجیکٹ میں کھوٹ ہے۔کیا کھوٹ ہے یہ نہیں بتایا گیا۔
عُثمان بُزدار صاحب کی حکومت کے آنے کے بعد سے کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی بالکل بندہے۔کینسرکے بیشتر مریضوں کا کہناہے کہ شہباز شریف گورنمنٹ میں تومیڈیسنز مفت ملیں جب سے  یہ حکومت آئی اس وقت سے ہم سخت پریشان ہیں۔
اوراس حکومت کے آنے کے بعد اپریل 2019 میں جب ہم ہاسپٹل اپنی میڈیسن لینے گئے تو بتایا گیا کہ اب آپکو فری میڈیسن نہیں ملے گی۔

آپکو خریدنی پڑیگی۔بلڈ کینسر میں دی جانے والی ایک خاص میڈیسن جسکی قیمت 2 لاکھ 25 ہزار روپے ہے شہباز شریف دورمیں فری فراہم کی جاتی رہی لیکن اب مریض اس مہنگی میڈیسن کو خریدنے پرمجبور ہیں۔
وہ غریب لوگ کس طرح اس میڈیسن کوخرید رہے ہیں اس تکلیف کااندازہ ہم کبھی بھی نہیں لگا سکتے ۔ شہبازشریف صاحب کا دَور تھا میڈیسن فری تھی۔اب اچانک فری میڈیسن ملنی بند ہو گئی۔

غریب لوگ سوا 2 لاکھ روپے کی میڈیسن کہاں سے خریدیں  گے جنکے پاس  کھانے کو بھی کچھ نہیں ۔
اس افسوس اور دُکھ کےساتھ کہ الّٰلہ تعالٰی ان حکمرانوں کوہدایت دےجولوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں توپیدانہیں کرسکتے کم ازکم اُنکے لیۓ مزیدپریشانیاں توپیدا نہ کریں۔
میری وزیراعظم عمران خان صاحب اور وزیراعلٰی پنجاب عثمان بُزدار صاحب سے گُزارش ہے کہ اس منصوبہ کو دوبارہ شروع کیاجاۓ تاکہ کینسر کے مریض ان ادویات کومفت حاصل کرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :