جنگ و امن

پیر 2 اگست 2021

Mansoor Ahmed Qureshi

منصور احمد قریشی

انسان کو ماہرِ سماجیات ، سماجی حیوان کہتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان ، انسانی معاشرے کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ جدید دَور کا انسان سماجی اور تہذیبی ارتقائی منازل  طے کر کے آج کے مہذب دَور میں پہنچا ۔ مگر یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ انسان نے معاشرتی زندگی کے مربوط اور مستحکم نظام کے باوجود اس دُنیا میں ایسی ہولناک اور خونی جنگیں لڑیں ۔

جن میں کروڑوں انسان لقمۂ اجل بن گئے ۔ ان جنگوں کے اسباب میں ملکوں میں اقتدار کا حصول ، مذہب ، اخلاقیات ، نظریات ، قومیت اور ہوسِ زر قابلِ ذکر ہیں ۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جو قومیں جنگجو طبع حکمرانوں کے زیرِ سایہ رہیں ۔ انھوں نے اپنی بد اعمالیوں کی بدولت لاکھوں بے گناہ انسانوں کو تِہ تیغ کیا ۔
ظُلم کرتے ہوۓ وہ شخص لرزتا ہی نہیں
جیسے قہار کے معنی وہ سمجھتا ہی نہیں
سیاسی اور معاشی انتشار کے اس دَور میں اقوامِ عالم کے مادی مفادات کی کشمکش اور مہلک ہتھیاروں کی نت نئی ایجادات نے پوری دنیا کو ایک مستقل جنگی بحران میں مبتلا کر دیا ہے ۔

(جاری ہے)

طاقت ور ممالک طاقت کے نشے میں دُھت کمزور و ناتواں ممالک کی آزادی سلب کرنے کے دَر پر ہیں ۔ ان سنگین حالات میں جنگ کے اسباب ختم کرنے کی کوششیں نا صرف ناکام ہو چُکیں ۔ بلکہ ان کی وجوہات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ چند بڑی قوتوں کے سامراجی عزائم کی بدولت دنیا کئی متحارب گروہوں میں بٹ چکی ہے اور چند ظالم آج بھی اس کرۂ اَرض کو امن سے محروم کرنے کے لیۓ کوشاں ہیں ۔

آج کی جنگوں کی بنیادی وجہ معاشی لحاظ سے بہتر حکمتِ عملی اور وسائل رکھنے والے ممالک کا عالمی سطح پر بازی گروں کا کردار ادا کرنا ہے ۔
یہ اَمر بھی قابلِ ملحوظ ہے کہ جنگ اخلاقی ، مذہبی ، نظریاتی اور معاشرتی اقدار کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اور ملک کا ڈھانچہ ہی شکست و ریخت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس کے تناظر میں امن الّٰلہ تعالٰی کی نعمت ہے ۔

خوف و دہشت، بدامنی اور فساد میں انسان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ ہی مملکتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ دُنیا میں جن اقوام نے ترقی و ارتقاء کی منازل طے کیں ۔ امن ہی اسکا زینہ بنا ۔ لیکن صد افسوس کہ جنگ کے سنگین نتائج و آگاہی کے باوجود طاقتور اقوام اپنی طاقت و دولت کے نشے میں مظلوم اقوام پر جنگ مسلط کر دیتی ہیں ۔ چاہے وہ کشمیر یا فلسطین کے نہتے مسلمان ہوں یا صومالیہ کے مظلوم عوام ، برما کے بے یارومددگار باشندے ہوں یا شام و عراق کے باسی ۔

سب کے سب اقتدار کے نشے میں دُھت سپر پاورز کی بَر بَریت کا شکار ہیں ۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن ، پرُ امن زندگی کے لیۓ
ماضی پر نظر دوڑائیں تو جنگِ عظیم اول اور دوئم ان ممالک کی بَر بَریت کی چشم دید مثال ہیں ۔ آج بھی ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں بچے ذہنی ، جسمانی اور سماجی طور پر مفلوج  پیدا ہو رہے ہیں ۔

ایک عظیم مفکر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ “ جنگ میں بہترین جیت وہ ہے جو خون خرابے کے بغیر لڑی جاۓ”۔ یہ حقیقت واشگاف ہے کہ دنیا کا کوئی بھی دین قتل و غارت اور جنگ کی اجازت نہیں دیتا ۔ بالخصوص اسلام عفوو درگزر کی تلقین کرتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کوئی بھی طاقت ور قوم جنگ کے تسلط اور جارحانہ پن سے کسی کا مذہب ، نظریات اور خیالات نہیں بدل سکتی ۔

اور یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جنگ کو شروع تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی طوالت اور ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔ آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ “ جنگ کو طاقت سے لڑا تو جا سکتا ہے پھر روکا نہیں جا سکتا “۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افراد ، خاندان اور ممالک کے مابین تنازعات پیدا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ لیکن ان معاملات کو گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے ۔ قصۂ مختصر یہ جنگ کی دیوی اپنے جلوے میں تباہی و بربادی ، انتشار ، بھوک و افلاس کے سوا کچھ نہیں لاتی ۔ اور کسی بھی زندہ قوم کے لیۓ امن اسی قدر ضروری اور ناگزیر ہے ۔ جس قدر کھیتوں کے لیۓ پانی ۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے ترقی و ارتقاء کے دھارے امن و مصالحت کے سر چشمے سے ہی پھوٹتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :