بجٹ پیش ہونے کے بعد تمام حکومتی نمائندے بجٹ کی تعریف وتوضیع میں لگے ہوئے ہیں اور ساری اپوزیشن بجٹ میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے منشور کے مطابق حکومت ابھی تک ایک بھی بجٹ پیش نہیں کر سکی جب تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آئی تو بجٹ سر پر تھا لہذا حکومت نے اعداد وشمار کو آگے پیچھے کر کے خانہ پری کی دوسرے سال کے بجٹ سے لوگ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ یہ بجٹ تحریک انصاف کے ویزن کے مطابق ہوگا لیکن اس بجٹ کو ملک کی ناگفتہ بہ معاشی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف کی شرائط سے بھر پور بجٹ قرار دے دیا گیا حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ چونکہ ملک چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا مجبوری ہے ورنہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا لہذا جگہ جگہ سے سخت شرائط پر قرض لیا گیا اور کہا گیا کہ معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق معیشت بہتری کی جانب جانے کی بجائے وینٹی لیٹر پر چلی گئی آج کل زیر بحث بجٹ حکومت کا تیسرا بجٹ ہے جسے کرونا کی فضا میں کرونائی بجٹ کہا جا سکتا ہے چونکہ کرونا نے دنیا بھر کی معیشتوں کا بھرکس نکال دیا ہے اس لیے ایسی فضا میں پاکستان کی جمود کی شکار معیشت سے بہتری کی توقع خام خیالی ہے ان حالات میں پیش کیا جانے والا بجٹ محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے یا سالانہ تحمینہ جات کے لیے جس کتابچہ کی آئینی ضرورت ہوتی ہے اس ضابطہ کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مجھے تو یہ بے سمت بجٹ لگتا ہے جس میں کسی بھی شعبہ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی ڈائریکشن لیس بجٹ میں نہ صنعت پر توجہ دی گئی ہے نہ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کوئی ترجیحات طے کی گئی ہیں پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی حالانکہ ان بد تر حالات میں صرف اور صرف زراعت ہی واحد شعبہ ہے جس میں بہتری کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے کسانوں کو سہولتیں دے کر اور دیگر اقدامات کے ذریعے زرعی اجناس پھل سبزیاں اور لائیو اسٹاک میں اضافہ کرکے ان کی ایکسپورٹ بڑھائی جا سکتی ہے سارے بجٹ کا جائزہ لینے کے بعد ایک چھوٹی سی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے جس سے شاید بہتری کی گنجائش پیدا ہوسکے وہ کنسٹرکشن کا شعبہ ہے حکومت نے اس پر تھوڑی سی توجہ دی ہے موجودہ حکومت کی جوانی کا بجٹ بھی مجبوری کا بجٹ ہے جس کے بعد صرف اگلا سال حکومت کے پاس بچا ہے اگلے سال اگر حکومت کوئی انقلابی بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید تحریک انصاف کی بقا کی کوئی راہ نکل سکے کیونکہ آخری بجٹ تو انتخابی بجٹ ہوتا ہے جس میں سارا فوکس ترقیاتی منصوبے ہوں گے کیونکہ حکومتی امیدوار ان ہی ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر الیکشن میں جاسکیں گے حکومت نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھا کر اور پینشنرز کی پینشن میں اضافہ نہ کرکے سرکاری ملازمین میں مایوسی پیدا کی ہے خیال کیا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آسکتا ہے حکومت نے اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائیں تو رشوت کے ریٹ بھی بڑھ سکتے ہیں لہذا حکومت اور سرکاری ملازمین کے درمیان میچ پڑ سکتا ہے حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے اب غیر محسوس طریقے سے روائتی حربے اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہے فکسڈ ٹیکس کا سہارا لیا جا رہا ہے 50 ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط اب ایک لاکھ روپے تک کر دی گئی ہے بنکوں کے ٹیکسوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں دو لاکھ روپے سالانہ فیس وصول کرنے والے نجی تعلیمی اداروں پر سو فیصد شرح سے ٹیکس لگانے سے بامقصد تعلیم مزید مہنگی ہو جائے گی حکومت نے خسارے کے بجٹ میں 14 فیصد گروتھ ریٹ کا ٹارگٹ رکھا ہے حکومت کا خود کہنا ہے کہ اس وقت جی ڈی پی 2فیصد ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ منفی میں ہے ایسے حالات میں حکومت کے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے جس کو رگڑنے سے گروتھ ریٹ 14 فیصد ہو جائےگا حکومت کو آئی ایم ایف، پیرس کلب اور سعودی عرب سے قرضوں کی تاخیر کا بڑا ریلیف ملا ہے اور پٹرول کی درآمد میں 6ارب ڈالر کی بچت ہورہی ہے لیکن اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی حکومت کو چاہیے کہ وہ چند ایک شعبوں کو فوکس کرکے آمدن بڑھانے پر توجہ دے.
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔