ڈنگ ٹپاو بجٹ

پیر 15 جون 2020

Mian Habib

میاں حبیب

بجٹ پیش ہونے کے بعد تمام حکومتی نمائندے بجٹ کی تعریف وتوضیع میں لگے ہوئے ہیں اور ساری اپوزیشن بجٹ میں کیڑے نکالنے میں مصروف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے منشور کے مطابق حکومت ابھی تک ایک بھی بجٹ پیش نہیں کر سکی جب تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آئی تو بجٹ سر پر تھا لہذا حکومت نے اعداد وشمار کو آگے پیچھے کر کے خانہ پری کی دوسرے سال کے بجٹ سے لوگ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ یہ بجٹ تحریک انصاف کے ویزن کے مطابق ہوگا لیکن اس بجٹ کو ملک کی ناگفتہ بہ معاشی صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف کی شرائط سے بھر پور بجٹ قرار دے دیا گیا حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ چونکہ ملک چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا مجبوری ہے ورنہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا لہذا جگہ جگہ سے سخت شرائط پر قرض لیا گیا اور کہا گیا کہ معیشت کو آئی سی یو سے نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق معیشت بہتری کی جانب جانے کی بجائے وینٹی لیٹر پر چلی گئی آج کل زیر بحث بجٹ حکومت کا تیسرا بجٹ ہے جسے کرونا کی فضا میں کرونائی بجٹ کہا جا سکتا ہے چونکہ کرونا نے دنیا بھر کی معیشتوں کا بھرکس نکال دیا ہے اس لیے ایسی فضا میں پاکستان کی جمود کی شکار معیشت سے بہتری کی توقع خام خیالی ہے ان حالات میں پیش کیا جانے والا بجٹ محض الفاظ کا گورکھ دھندا ہے یا سالانہ تحمینہ جات کے لیے جس کتابچہ کی آئینی ضرورت ہوتی ہے اس ضابطہ کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مجھے تو یہ بے سمت بجٹ لگتا ہے جس میں کسی بھی شعبہ پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی ڈائریکشن لیس بجٹ میں نہ صنعت پر توجہ دی گئی ہے نہ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات کیے گئے ہیں اور نہ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کوئی ترجیحات طے کی گئی ہیں پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی زراعت پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی حالانکہ ان بد تر حالات میں صرف اور صرف زراعت ہی واحد شعبہ ہے جس میں بہتری کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے کسانوں کو سہولتیں دے کر اور دیگر اقدامات کے ذریعے زرعی اجناس پھل سبزیاں اور لائیو اسٹاک میں اضافہ کرکے ان کی ایکسپورٹ بڑھائی جا سکتی ہے سارے بجٹ کا جائزہ لینے کے بعد ایک چھوٹی سی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے جس سے شاید بہتری کی گنجائش پیدا ہوسکے وہ کنسٹرکشن کا شعبہ ہے حکومت نے اس پر تھوڑی سی توجہ دی ہے موجودہ حکومت کی جوانی کا بجٹ بھی مجبوری کا بجٹ ہے جس کے بعد صرف اگلا سال حکومت کے پاس بچا ہے اگلے سال اگر حکومت کوئی انقلابی بجٹ پیش کرنے میں کامیاب ہو گئی تو شاید تحریک انصاف کی بقا کی کوئی راہ نکل سکے کیونکہ آخری بجٹ تو انتخابی بجٹ ہوتا ہے جس میں سارا فوکس ترقیاتی منصوبے ہوں گے کیونکہ حکومتی امیدوار ان ہی ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر الیکشن میں جاسکیں گے حکومت نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھا کر اور پینشنرز کی پینشن میں اضافہ نہ کرکے سرکاری ملازمین میں مایوسی پیدا کی ہے خیال کیا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آسکتا ہے حکومت نے اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھائیں تو رشوت کے ریٹ بھی بڑھ سکتے ہیں لہذا حکومت اور سرکاری ملازمین کے درمیان میچ پڑ سکتا ہے حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانے میں بھی ناکام رہی ہے اب غیر محسوس طریقے سے روائتی حربے اختیار کرنے کی طرف جا رہی ہے فکسڈ ٹیکس کا سہارا لیا جا رہا ہے 50 ہزار کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط اب ایک لاکھ روپے تک کر دی گئی ہے بنکوں کے ٹیکسوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں دو لاکھ روپے سالانہ فیس وصول کرنے والے نجی  تعلیمی اداروں پر سو فیصد شرح سے ٹیکس لگانے سے بامقصد تعلیم مزید مہنگی ہو جائے گی حکومت نے خسارے کے بجٹ میں 14 فیصد گروتھ ریٹ کا ٹارگٹ رکھا ہے حکومت کا خود کہنا ہے کہ اس وقت جی ڈی پی 2فیصد ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ منفی میں ہے ایسے حالات میں حکومت کے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے جس کو رگڑنے سے گروتھ ریٹ 14 فیصد ہو جائےگا حکومت کو آئی ایم ایف، پیرس کلب اور سعودی عرب سے قرضوں کی تاخیر کا بڑا ریلیف ملا ہے اور پٹرول کی درآمد میں 6ارب ڈالر کی بچت ہورہی ہے لیکن اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی حکومت کو چاہیے کہ وہ چند ایک شعبوں کو فوکس کرکے آمدن بڑھانے پر توجہ دے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :