شکریہ گلگت بلتستان

جمعہ 13 نومبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

گلگت بلتستان میں انتخابی مہم ختم ہو چکی دو دن بعد لوگ ووٹوں کے ذریعے اپنی نئی قیادت کا انتخاب کریں گے انتخابی مہم سے کہیں شائیبہ بھی نہیں ہوتا تھا یہ الیکشن پاکستان کے کسی دور دراز علاقے میں ہو رہا ہے ایسے لگتا تھا یہ الیکشن لاہور، کراچی یا پشاور میں ہو رہا ہے جتنی گہما گہمی گلگت بلتستان میں دیکھنے کو ملی یہ اس علاقے کے عوام کے شعور ان کی سیاسی بصیرت کی گواہی ہے ایک بات واضح کرتا چلوں کہ گلگت بلتستان میں شرح خواندگی باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے امن و امان کی صورتحال بھی سب سے بہتر ہے لوگ مطمئین ہیں شاید وہاں ابھی لوٹ مار کا بازار پوری طرح گرم نہیں ہوا دعا ہے کہ وہاں کے لوگوکے لیے بہتری لے کر آئے خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں نے فرقہ واریت اور علاقائیت سے بالا تر ہو کر پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں پر اعتماد کیا اور ان کو پذیرائی بخشی پیپلزپارٹی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے جلسے دیکھنے کو ملے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کے عوام کی سیاسی سوچ کس قدر پختہ ہے اب یہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اتنے خوبصورت سیاسی میدان کو پراگندہ نہ کریں وہاں روائیتی سیاسی حربے استعمال کرنے کی بجائے اچھے اقدار اور اصولوں کو پروموٹ کریں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ ہماری قومی سیاسی جماعتیں وہاں بھی روائیتی گند ڈالنے سے باز نہیں آئیں گی کیونکہ ان انتخابی سرگرمیوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنا آپ دکھانا شروع کر دیا ہے قبل ازیں گلگت بلتستان میں 2بار انتخابات ہو چکے لیکن اس قسم کی انتخابی گہما گہمی پہلے کبھی نظر نہیں آئیں  پہلی بار بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو وہاں ڈیرے ڈالنے پڑے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پہلی بار گلگت بلتستان میں الیکشن ہونے اور پیپلزپارٹی نے وہاں حکومت بنائی دوسری بار مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ نے وہاں حکومت قائم کی اس روایت کے مطابق اس بار تحریک انصاف کی حکومت بنے گی جو بظاہر وہاں جیتتی ہوئی نظر بھی آرہی ہے لیکن میری چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ اس بار گلگت بلتستان میں شائد پیپلزپارٹی کی حکومت بن جائے اگر پیپلزپارٹی کی حکومت بن جاتی ہے تو گلگت بلتستان کو علیحدہ آئینی  صوبہ بنانے کا کام آسان ہو جائے فرض کریں پیپلزپارٹی کی گلگت بلتستان میں حکومت بن جاتی ہے اور وہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنا نے کی کوشش کرتی ہے تو حکومت جو کہ پہلے ہی اس کے لیے کوشاں ہے وہ پیپلزپارٹی کے تعاون سے صوبہ بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے اوپر سے پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کی جماعتوں کا بھی تعاون حاصل کر سکتی ہے ایسے میں ایک قومی اتفاق رائے بھی سامنے آسکتا ہے بہر حال وہاں تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی دونوں میں سے کسی ایک کی حکومت بنے گی اور کمال کا مقابلہ ہو گا البتہ مسلم لیگ ن وہاں سے آوٹ ہو چکی ہے لیکن ان کے جلسے کامیاب ہوئے ہیں مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں تعاون کی فضا کے لیے حالات سازگار بنائے جا رہے ہیں اس ساری ڈویلپمنٹ کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہو گا کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز کے بلوچستان جانے سے وہاں کے اہم لوگ مسلم لیگ چھوڑ گئے اور گلگت بلتستان میں ان کی موجودگی میں مسلم لیگی الیکٹ ایبل انھیں چھوڑ گئے ایسے لگ رہا ہے کہ ان کے تماشائی بڑھ رہے ہیں لیکن الیکٹ ایبل بیزار ہو رہے ہیں بہر حال مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات تک بہت کچھ بدل رہا ہے مولانا فضل الرحمن میدانی سیاست سے پارلیمانی سیاست کی طرف جا رہے ہیں وہ سینٹ کا الیکشن جیت کر پارلیمنٹ کے اندر جوڑ توڑ کر کے اپنے اصل کام کی طرف آجائیں گے سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے بہت ساری انفارمیشن ہےجس کے لیے علیحدہ سے کالم لکھا جانا چاہیے فی الحال سیاسی جماعتوں سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جس قسم کی دلچسپی کا اظہار گلگت بلتستان میں کیا گیا ہے اسی قسم کی دلچسپی بلوچستان میں بھی ظاہر کی جانی چاہیے تاکہ وہاں کی علاقائی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری ختم کی جاسکے قومی سیاسی جماعتوں کو بلوچستان میں کام کرنے کی ضرورت ہے انھیں وہاں تنظیم سازی پر توجہ دینی چاہیے تاکہ لوگوں کو قومی سیاست میں لایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :